سوشل میڈیا پر چلنے والی محترمہ فاطمہ جناح کی ایک بلیک
انڈ وائیٹ تصویر نے میری توجہ اپنی جانب کھینچی جس میں ایک عینک والا آدمی
آنکھوں میں احترام اور عقیدت سجائے سعادت مند بیٹوں کی طرح مادر ملت کے
پہلو میں کھڑا ہے ۔ میں نے یاداشت پر زور د یا تو پتہ چلا یہ تو مجیب
الرحمان ہے جسکے بارے میں سکول میں سکھائے جانے والے " چھ کلموں" کے ساتھ
ہی کان میں ڈال دیا گیا تھا کہ یہ "غدار"ہے۔ آجکل چونکہ لفظ "غدار " ہمارے
میڈیا پہ بہت تواتر سے لیا جا رہا ہے لہذا وقت کے سینے میں دفنزندہ سچائیوں
کے ڈھیر وں سے "غداروں" اور انکی "غداریوں" کو تلاش کرنے کے لیے میں نے
ماضی کے سمندر میں غوطہ لگا دیا ۔میرا ارادہ زیادہ گہرا غوطہ لگانے کا تھا
مگر 1951تک ہی جا پایا تھا کہ شہید ملت لیاقت علی خان کی تڑپتی لا ش نے روک
لیا اور بڑی بے قراری سے پوچھا" بچے کچھ پتہ چلا مجھے کیوں مارا گیا "میں
نے عرض کی جناب آپکو مروانے والوں نے اسی جگہ آپکو مارنے والے کو بھی مار
دیا تھا او ر اسکے کفن میں اسکے پاگل ہونے کا سرٹیفیکیٹ بھی رکھ دیا تھا تا
کہ قبر میں ہونے والی JIT"ـ"کی تفتیش میں اسے بے قصور قرار دینے میں آسانی
ہو البتہ آپکے مزار کے کتبے پر آپکے نام کے ساتھ " شہید ملت " لکھ دیا گیا
تھا ۔ شہید ملت کو حیرانی اور پشیمانی کی تصویر بنے دیکھ کر میں نے تاریخ
کے قبرستان سے واپسی کی دوڑ لگا دی مگر پہلے ہی قدم پر مولوی تمیزالدین جو
ابھی تک نظریہء ضرورت کے بدبودار فلسفے پر نوحہ خوانی کر رھے تھے نے گورنر
جنرل غلام محمد اور جسٹس منیر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ؛مجھے کیوں نکا لا
؟ میں نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے انکے کان میں کہا نظریہء ضرورت
اور بھاگ کھڑا ہوا مگر واپسی کا سفر اتنا آسان کہاں تھا ، خواجہ ناظم الدین
،محمد علی بوگرا ، چوہدری محمد علی، حسیں شہید سہروردی ، ابراہیم اسماعیل
چندیگر،فیروز خان نون ، نورلامین ، محمد خان جونیجونے میرا راستہ ر وک لیا
اور سب نے ایک ہی سوال پوچھا ؛ ہمیں کیوں نکالا؟مجھے انکی پہشانیوں پر
"غدار" لکھا ہوا نظر آچکا تھا اسلیے میں نے جان چھڑانے کے لیے انکی توجہ
سکندر مرزا کی طرف مبذول کروا دی جو اس لمحے پاکستان کے پرجم میں لپٹا ہو ا
اپنے پرکھے میر جعفر کی گود میں بیٹھا ہوا وزرا ئے اعظم کے اجتماعی
معصومانہ سوال پہ مسکرا رہا تھا ۔ میں بھاگنے کے لیے مڑا ہی تھا کہ" لا دین
، اندرا گاندہی کے ساتھی اور تاریخی غدار " زوالفار علی بھٹو نے راستہ روک
کر پوچھا ؛ تم کو کس نے ایسی سیاحت کی راہ دکھائی کہ جس دشت کے سیاحوں کا
انجام بھی ا س میں دفن "غداروں"جیسا ہوتا ہے ؟ اور "مرد مومن مرد حق"جو اس
لمحے مولوی مشتاق ، نسیم حسن شاہ اور شریف الدین پیرزادہ کو نظریہء ضرورت ،
آرٹیکل 62, 63 کی فعالیت اور "اسلامی نظام "کے نفا ز کیلیے اسکی اہمیت اور
58,2 B کی بے توقیری پر بہت گر ج دار آواز میں بھاشن دے رہے تھے کی طرفٖ
اشارہ کر کے کہا میرا جرم یہی تھا ناکہ غربت و افلاس میں ڈوبے دیس کو
خوشحالی اور عزت سے جینے کی راہ پہ ڈالا تھا ۔ ساتھ ہی شیخ مجیب الرحمان
اپنی پیشانی پر لگے "غداری"کے کتبے پر ہاتھ پھیر رہے تھے اور فاطمہ جناح کے
پہلو میں کھڑے ہو کر "فیلد مارشل "ایوب اور جناب یحیٰ کی طرٖف دیکھ کر کہہ
رہے تھے ، "جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے "۔ میں نے بھٹو صاحب سے پوچھا
، قائد عوام ؛ پاکستان کے مزدور کے لے روٹی کپڑا اور مکان تو ایک خواب بن
گیا ہے اور وہ آج غربت ہی نہیں زندگی کی آخری لکیروں سے بھی نیچے اپنی
سانسیں گن گن کر پوری کر رہا ہے ، یہ سنکر بھٹو صاحب کی آواز بھرا گئی اور
انھوں نے پاس کھڑی بے نظیر شہید کی طرٖ ف دیکھا جنکی پیشانی پر راجیو
گاندھی کی دوست ،بے دین ،سیکیورٹی رسک اور "غدار "لکھا ہوا تھا کہا، ر وٹی
،کپڑا ا ور مکا ن کی بات ہی تو وہ جرم ہے جو عوام کے دلوں پر راج کرنے
والوں کو ووٹ کی طاقت سے خائف زہنوں کی نگاہوں میں غدار بنا دیتی ہے جو
پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے انگریز کے گھوڑوں کو خرخرا اور انکے کتوں
کو نہلایا کرتے تھے مگر پاکستان بنتے ہی جاگیروں اور مربعوں کے مالک بن گئے
اور کائینات کے مالک و خالق نے جنھیں آزاد پیدا کیا تھا انھیں غلام بنا کر
ان پر حکومت کر رہے ہیں ۔ انکا جبر و ظلم ہی انکی اہلیت ہے اور یہ عذاب
مسلسل کی طرح ملک کے 99 % لوگوں پر مسلط ہیں اور اس وقت تک مسلط رہیں گے جب
تک ہمیشہ کے لیے یہ طے نہیں ہو جاتا کہ اصل غدار کون ہے ۔بھٹو صاحب کی
باتیں سنکر چوہدری ظہور الٰہی نے ضیاء الحق سے تحفے میں ملنے والا وہ قلم
جس سے اس نے بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخظ کیے تھے فضا میں لہرایا اور
مرد مومن سے کہا حضور اسی قلم سے ہماری نسل کے فرزند چوہدری شجاعت نے مارشل
لائی "اکابرین" کے ساتھ جاری ہماری نسل در نسل غیر مشروط وفاداری کی
داستانوں پر مشتمل کتاب "سچ تو یہ ہے" لکھ کرآپ سب کی روحوں کو سکون
پپہنچایا ہے اور آمریت کے آخری چشم و چراغ مشرف نے جب جمہوریت پر" فضائی
حملہ " کر کے آئین کو بوٹوں تلے روندا تب میرے فرزندوں نے اسے وردی میں سو
بار صدر منتخب کرانے کااعادہ چو کوں میں کھڑے ہو کر کیا تھا مگر۔۔۔ شریف
الدین پیرزادہ نے بھٹو صاحب کی طرف دیکھ کر مرد مومن مرد حق کے کان میں
سرگوشی کی اور مجھے عالم برزخ میں مارشل لا کے واضع امکانات نظر آنے لگے جس
سے میرا دل دہل گیا اور میں اپنے رہنماؤں کی تڑپتی ، بین کرتی ہوئی لاشوں
کو جو ہماری 70 سالہ شرمناک تاریخ کے کونے کونے میں بکھری پڑی ہیں ، جو ہر
زی شعور سے دو ہی سوال کرتی ہیں مجھے کیوں نکا لا یا مجھے کیوں مارا انکے
"کرمفرماؤں " کے نیچ چھوڑ کر تاریخ کی پیشانی پرسیاستدانوں کے لہو سے لکھی
مظلومیت کی داستانوں سے اپنے زہن کو منقطع کر کے اپنے "آزاد " ٹی وی چینلز
دیکھنے لگا جن پر آجکل فساد فی الارض کو پیشہ سمجھ کر اپنانے والے " یاجوج
و ماجوج " آزادیء اظہار رائے کے نام پر برسات کے مینڈکوں کی مانند آواز میں
آواز ملاتے ہوئے دلیل و منظق کے وہ موتی بکھیر رہے ہیں کہ عقل و خرد کو
پاگل پن کے دورے پڑ نے لگتے ہیں ۔ڈیپریشن کی گولیاں کھا کر ٹی وی پر بیٹھنے
والے" افلاطونوں " کے بنجر زہنوں میں پلنے والا بغض و نفاق اور رگوں میں
ناچتا فتنہ و شر انکی توتلائی ہوئی زبانوں سے اسی نواز شریف کو غدار ثابت
کر رہا ہے ماضی قریب میں جسکی مدح سرائی میں یہ نظمیں اور قصیدے لکھا کرتے
تھے ۔ ایمان داری سے بتلائیں کیا پرویز مشرف اور شاہ محمود قریشی کی زبانوں
سے کسی کو غدار قرار دینا اایسا ہی نہیں جیسے مخنث کی زبان سے نامردی کا
طعنہ ؟۔ شاہ محمود کے دادا کا نام بھی شاہ محمود قریشی تھا اور دادا کے
بھائی کا نام مرید حسین قریشی تھا۔ انکے والد سجاد قریشی نے اسی نسبت سے
دونوں بیٹوں کے نام رکھے تھے ۔ میری تمام طالبعلموں سے التماس ہے کہ لمبی
چوڑی لا ئیبریریاں چھاننے کی ضرورت نہیں بس Google کھول کر یہ نا م لکھیے ،
آپ کو غدار وں کی تعریف ا ور تا ریخ دونوں مل جائیں گی ۔ ہمارا المیہ ہی
یہی ہے کہ تحریک آزادی کے دور سے ثابت شدہ نسل در نسل غدار جنھوں نے ہر دور
میں طالع آزماؤں کی چاکری کی اور مسلمانوں کے مقدس خون پر سودے بازی کر کے
ہزاروں ایکڑ اراضی اور دولت کے انبار اپنی تجوریوں میں بھرے جمہوری ادوار
میں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے مسیحا بن جاتے ہیں اور ہم اتنے سادہ
ہیں کہ انکے مرمریں چہروں پر چھائی ہوئی موت ایسی بے حسی دیکھ کر بھی انھیں
پہچان نہیں پاتے۔ سیاسی جماعتوں میں رہتے ہوئے بھی انکے نفاق سے بھرے دلوں
میں کوئی "اور "بسا ہوتا ہے اور اشارہ ملتے ہی یہ وہی زبان بولنا شروع ہو
جاتے ہیں جو انکے دلوں میں پنپ رہی ہوتی ہے اور پورے پانچ سال اقتدار کے
مزے لوٹنے کے بعد آخری دنوں میں جنوبی پنجاب اور بلوچستان کا احساس محرومی
" درد زہ "کی طرح ان کے تن بدن میں جاگ اٹھتا ہے جو ا انھیں اتنا بے چین کر
ڈالتا ہے کہ جہاں کہیں اقتدار کا سایہ نظر آجائے وہیں پڑاؤ دال دیتے ہیں
جیسا کہ آجکل بنی گالہ کے" ٹرانزٹ کیمپ ـ "Transit Camp میں بھانت بھانت کی
بولیاں بولنے والے "بھان متی" کے کنبے نے ڈال رکھا ہے اور اسلام آباد کو
ایسی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رھے ہیں جیسے لگڑ بگڑ شیروں کے شکار کیے
ہوئے جانور پر پل پڑنے کے لیے انکی روانگی کے انتظار میں دیکھ رہے ہوتے ہیں
۔ |