تحریر: مہک سہیل،کراچی
28 جولائی 2017ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں محمد نواز شریف نے
اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر مختلف مقامات پر خطاب کیا اور
لوگوں کو بتایا کہ ان کو عدالت کے غلط فیصلے کی وجہ سے وزارت کے عہدہ سے
ہٹا دیا گیا عدالتی فیصلہ کو ہدف تنقید بناتے رہے انہوں نے ملک کے لوگوں
بالخصوص اپنے ووٹرز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ عدالت ان کے خلاف ہوگئی
اس لیے عدالت نے ان کو بغیر کسی ثبوت کے وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیاگیا.
عدالت نے پورے ایک سال تک نواز شریف کا کیس سنا اور اس کے بعد انکو نا اہل
کردیا اگر محمد نواز شریف اس وقت فوج کے دوسرے اداروں کو بھی تنقید کا
نشانہ بناتے تو شاید لوگ ان کے اس بیانیہ کو پسند نہ کرتے،مگر اب جب عدالت
کے فیصلوں کے خلاف کھڑے نہ ہو سکے تو اپنا تنزیہ رخ بدل کر فوج کے جانب
کرلیا نواز شریف نے اپنے بیانیہ کو تبدیل کردیا اور فوج اور دوسرے عسکری
اداروں پر تنقید کیوں شروع کردی اور ملکی مفادات اور سالمیت کے خلاف بیان
بازی کرنا شروع کردی آج نواز شریف خود کو صحیح اور اہل ثابت کرنے کی دوڑ
میں اتنے آگے نکل گئی کہ پاکستان کو ان کی بیان بازی سے کتنا خطرہ لاحق
ہوسکتا ہے ان سب کی کوئی پرواہ نہیں.نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق
متنازعہ بیان کے بعد وہ بھی اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ نواز شریف نے یہ بیان دے
کر نہ صرف خود کو مشکل میں ڈال لیا ہے بلکہ ایک جیتی ہوئی جنگ بھی ہار گئے
ہیں۔ نواز شریف سیاسی میچ میں بہترین کھیل رہے تھے کہ اچانک انہوں نے نو
بال پر چھکا مارنے کی کوشش میں ایک بڑا فاؤل پلے کیا اور یہ فاؤل پلے آنے
والے دنوں میں ان کے گلے پڑ جائے گا کیوں کہ پاکستان میں کرپشن کیالزامات
سے ووٹ بنک ختم نہیں ہوتا۔ اب بھی ن لیگ کے حلقے کے شہری کھلے دل سے کہتے
ہوئے ملیں گے کہ نواز شریف کچھ کھاتا ہے تو کچھ نہ کچھ لگاتا بھی ہے۔ یہ
بھی کہ بجلی آتی ہے، نہ پانی، نواز شریف سارا پاکستان کھا گیا لیکن ووٹ صرف
نواز شریف کا ہے. نواز شریف کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف
بیان اور قومی سلامتی کے مخالف زبان درازی میں بڑا فرق ہوتاہے۔ اگر اس فرق
کے اثرات دیکھنے کی خواہش ہے تو ایم کیو ایم اور الطاف حسین ہمارے پاس ایک
جیتا جاگتا ثبوت ہیں. نواز شریف کا یہ دعویٰ اور بیانیہ صرف انکی جماعت کے
لوگوں کے جذبات تو شائد ابھار دے لیکن ملکی سطح پر اس بیانیے کو کسی قسم کی
پذیرائی ملتی نظر نہیں آرہی. اس وقت عدالت یا فوج کے خلاف بولا گیا ایک ایک
جملہ ن لیگ کے آئندہ الیکشن میں کامیابی کے امکانات کو کم کرتا جائے گا
کیونکہ یہ بیانیہ نہ تو عوام میں مقبول ہو رہا ہے اور نہ ہی ملکی اداروں کو
گالم گلوچ اور دھمکیوں سے بھرے ایسے کسی بیانیے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان
کی عوام نے ہمیشہ پاک فوج کا ساتھ دیا ہے اور پاک فوج پر بھروسہ کیا ہے اور
اس کے بر عکس پاک فوج نے کئی قربانیاں اور دن رات پاکستان کی شان اور وقار
کے لیے کئی نوجوانوں کی جان کا نظرانہ پیش کر کے اس پاک وطن کو حاصل کیا ہے
ان کی پاک نیت پر شک اور بدنیتی کا الزام پاکستان کے سابق وزیراعظم کی جانب
سے بہت شرم کی بات ہے.ان اقدام سے ملک دشمن قوتوں کو سازش کرنے کا موقعہ مل
گیا ہے اور سازشوں کے تحت پاکستان میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جا رہی
ہے تاکہ پاکستان کا سکون اور چین ختم کردیا جا?، یہ بیانیہ ایک طرح سے
عمران خان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے جب نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ
عمران خان کو ووٹ دینے کا مطلب فوج اور عدالت کو ووٹ دینا ہے۔ نواز شریف
صاحب کو اپنے بیانیے کو بدلنے کی وجہ سے مگر اب شاید ان کے پاس اور کوئی
اور نہیں جس کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جائے. یہاں یہ بات واضح ہونی
چاہئے کہ دنیا کے ہر ملک میں ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ‘‘ اور ’’ پرو اسٹیبلشمنٹ
‘‘ سیاسی بیانیہ ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ‘‘ بیانیہ
بعض ملکوں میں رائج نہیں ہونے دیا جاتا.میاں محمد نواز شریف کے ممبئی حملوں
سے متعلق بیان کو بھارت کی قیادت اور میڈیا نے اپنے حق میں اچھالا ہے اور
وہ اس بیان کو اس بھارتی موقف کی تائید قرار دیتے ہیں کہ بھارت میں دہشت
گردی پاکستان کرا رہا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کے اس بیان سے نہ صرف ان کی
اپنی سیاسی جماعت میں حمایت کمزور ہوئی ہے بلکہ بھارت کو یہ موقع ملا ہے کہ
وہ عالمی برادری میں پاکستان کی پوزیشن خراب کرے.ملکی تاریخ میں اس طرح کا
سیاسی بیانیہ واضح طور پر پہلے کبھی اختیار نہیں کیا گیا۔ اس کا بنیادی سبب
یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں میڈیا نے پہلے کبھی اس طرح کے بیانیہ کو
رائج ہی نہیں ہونے دیا اور اپوزیشن پارٹیس نے بھی ممبئی حملے حملے کے بارے
میں نواز شریف کے بیان کی سخت مزمت کی اور اس بیان کو ناقابل برداشت قرار
دیا نواز شریف کے اس بیان کے بعد ہندوستانی میڈیا میں بھی ہلچل مچ گئی اور
سامنے سے دھمکی آمیز ڈائیلوگ کا سلسلہ جاری ہوگیا. نواز شریف نے اپنی حد
پار نہیں کی تھی لیکن اس بار انہوں نے اپنی حدر پار کر کے نہ صرف اپنے لئے
مشکلات پیدا کرلی ہیں بلکہ اپنی پارٹی اور دوستوں کیلئے بھی مشکلات میں
اضافہ کیا ہے۔کبھی شہبازشریف وضاحتیں پیش کر رہے ہیں تو کبھی شاہد خاقان
عباسی پریس کانفرنس کرکے بتا رہے ہیں کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ میں
قومی سلامتی میٹنگ کو اہمیت دوں یا اپنے لیڈر کو۔ اگر ہم سیاسی منظر نامے
کو دیکھیں تو نواز شریف کی کہانی بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ان کے پاس کھونے کو
کچھ نہیں ہے لیکن بڑے بھائی کے بیانیے سے شہباز شریف تو اپنی سیاست بھی
نہیں بچا پا رہے ضروری ہے کہ نواز شریف کے بیان سے اداروں میں تناؤ مزید
بڑھ جائے گا اور الیکشن کے اتنے قریب اداروں اور سیاسی طاقتوں میں تناؤ ملک
اور قوم کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوگا لہزا اس وقت ملک کو سمبھالنے کی اشد
ضرورت ہے اور صبر اور ضبط کے ساتھ ملک کو ان عناصر سے بچائے اور آنے والے
وقت میں صحیح انتخاب کریں. |