ملک میں دس سالہ جمہوری تسلسل کے بعد منتخب جمہوری
حکومت کی جانب سے اقتدار از خود نگران حکومت کے حوالے کرنا ملک کے جمہوری
مستقبل کے لئے خوش آئند ہے ، اس کے علاوہ بے داغ ماضی، روشن ضمیر اور وطن
کی خدمت میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے بلند حو صلہ شخص جسٹس (ر)
ناصر الملک کا بطور نگران وزیر اعظم تقرر جمہوری تسلسل اور بروقت و شفاف
انتخابات کے لئے اہم ترین ثابت ہوگا۔وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد
جسٹس (ر) ناصر الملک نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’ الیکشن بروقت اور 25
جولائی کے دن ہی ہونگے ، اس بارے میں کوئی غلط فہمی میں ہرگز نہ رہے‘‘۔
پاکستان سردست جن حالات سے دو چار ہے، وہ ایک مضبوط حکومت کے متقاضی ہیں،
ایک ایسی حکومت جو دنیا بھرمیں ہونے والی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے
وطن عزیز کے مفاد میں بہتر فیصلے کرسکے اورملک کو صحیح سمت میں لے کر چلے،
ان حالات میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھ کر ہی جمہوری نظام کی بنیادکو
مستحکم و مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد
آئین پاکستان نئے انتخابات کیلئے 60 دن کی اجازت دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے
ہمارے ہاں سیاسی کشاکش کا بڑھنا کسی المیے سے کم نہیں، باہمی کشمکش تو ایک
عرصہ سے چلی آرہی تھی اور اب ایک دوسرے پر عدم اطمینان کے مناظر کچھ زیادہ
ہی بڑھتے نظر آرہے ہیں ،کسی معاملے پر اتفاق کے بعد پھر نااتفاقی ، عالیٰ
عدلیہ کی جانب سے حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دے دیا جانا اور پھر بلوچستان
اسمبلی میں انتخابات کے مذید ایک ماہ التواء کی قرارداد کا منظورہونا، ملکی
حالات کو ایک بار پھر بے یقینی کی طرف لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ
دنوں بلوچستان کے وزیر داخلہ کی جانب سے بلوچستان اسمبلی میں قرارداد پیش
کی گئی جس میں 25 جولائی کے انتخابات اگست کے آخری ہفتے تک ملتوی کرنے کا
کہا گیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ 25 جولائی کو عازمین حج اپنے ووٹ
کا حق استعمال نہیں کر سکیں گے، جبکہ مون سون کے موسم میں بارشوں کے باعث
ووٹروں کا گھروں سے نکلنا بھی مشکل ہوگا، اور حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی
دھکم پیل میں یہ قرارداد عجلت میں منظور بھی کرلی گئی۔ اسی طرح گزشتہ روز
وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کی جانب سے الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھجوایا
گیا جس میں اس جواز کے تحت عام انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز دی گئی کہ
فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کے بعد فاٹا کی نشستوں سمیت کے پی کے میں
تمام نشستوں کے ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہئے۔ کچھ ایسا ہی کراچی سے ایم
کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کے بیان میں کہا گیا کہ حلقہ
بندیوں کے حوالے سے زیرسماعت تمام مقدمات کے فیصلے تک انتخابات نہ کروائے
جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر حلقہ بندیوں کے فیصلوں
سے قبل انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم پاکستان ان انتخابات کا بائیکاٹ کریگی۔
اس سے قبل الیکشن نامزدگی فارم میں تبدیلی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب
سے حلقہ بندیوں کیخلاف دائر درخواستوں کے فیصلوں کے تحت متعدد شہروں کی
حلقہ بندیاں کالعدم قرار پائیں تو اس سے بھی بعض حلقوں کی جانب سے قیاس
آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ نئی حلقہ بندیوں کا پراسس، 25 جولائی کو
انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہونے دیگا۔لیکن اگر الیکشن کمیشن مقررہ میعاد
کے اندر انتخابات کے انعقاد کیلئے آئینی تقاضے پر کاربند رہنے کیلئے پرعزم
ہے تو پھر انتخابات کسی نہ کسی جواز کے تحت موخر یا ملتوی کرانے کی کوئی
سازش کامیاب نہیں ہو سکتی، اور نگران حکومت کے عزم کے مطابق 25 جولائی کو
ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ممکن ہوسکتے ہیں۔
لیکن اگر انتخابات موخر کروانے کیلئے سرگرم عمل حلقوں کی سرگرمیاں جاری
رہیں تو یہ ماورائے آئین اقدام کی سوچ کو ہی تقویت پہنچانے کے مترادف ہوگا،
انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ملک میں طویل المدت ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی
باتیں کافی عرصہ سے گردش کرتی رہی ہیں۔ جبکہ پاکستان کو سیاسی سطح پر
مفاہمانہ رویے کی جتنی ضرورت اس وقت ہے شاید ماضی میں کبھی نہ رہی ہو۔
لہٰذاملک کی جمہوری قوتوں کو سیاسی محاذآرائی کے سلسلہ ترک کرکے غیرجمہوری
عناصر کی انتخابات موخر کرانے کی سازشوں کے توڑ کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے
کیونکہ جمہوریت کی مضبوطی و فروغ کے لئے انتخابات کا بروقت، شفاف اور غیر
متنازع ہوناناگزیر ہے۔ اور اگرسیاسی جماعتیں احتیاط کا دامن چھوڑدیں گے اور
انتخابی مہم کے دوران انکے کسی طرز عمل سے سیاسی کشیدگی اور محاذآرائی
بڑھتے بڑھتے نوبت کسی تصادم تک جا پہنچی تو ایسے حالات میں انتخابی عمل کو
بریک لگانے کیلئے کسی ماورائے آئین اقدام کو بعیدازقیاس قرار نہیں دیا جا
سکتا۔ الیکشن کی شفافیت کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ تمام پارٹیوں کو الیکشن
میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں، اگر کسی پارٹی کو انتخابی میدان میں
گنجائش محدود کئے جانے کی شکایت ہو تو اس کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔ کچھ ہی
عرصہ پہلے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ نے بہت سی بدگمانیاں پیدا کی
ہیں، انتخابات2018 ء کے اس نازک مرحلے میں اہل دانش کو شفاف انتخابات کے
عمل کو یقینی بنانے کے لیے منظم جدوجہدکرنا چاہئے۔ جبکہ نگران وزیر اعظم کی
ترجیحات میں بروقت اور شفاف الیکشن کے انعقاد اور اس بارے میں ہر سازش کے
خاتمے کے ساتھ ساتھ نگران دور حکومت میں مہنگائی کے ممکنہ طوفان اور
لوڈشیڈنگ کے عذاب کا خاتمہ بھی ہونا چاہئے، تاکہ عوام کی مشکلات کم ہوں اور
وہ سکھ کا سانس لے سکیں۔ |