فاٹا کا انضمام ۔۔۔۔۔۔۔ملکی ضرورت یا صرف سیاست

وفاقی حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی میں فاٹا اصلاحات کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں آئین کی شق 246 میں ترمیم کرکے و فاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات فاٹا کو کے پی کے جب کہ صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات پاٹا کو متعلقہ صوبوں کے پی کے اور بلوچستان کا حصہ بنانے کی منظوری دے دی۔ فاٹا نئی اصلاحات بل کے جائزے لینے سے پہلے ضروری ہے کہ فاٹا کے موجودہ علاقائی، انتظامی اور قانونی امور کو جانا جائے کہ فاٹا کو ضرور ت کے مطابق یا صرف ملکی سیاست کے لئے کے پی کے اور بلوچستان میں انضمام کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

فاٹا (قبائلی علاقہ جات) کا وسیع ترین ایریا ہے جو افغانستا ن کی سرحدی لمبائی 2380 کلومیٹر کے ساتھ منسلک ہے۔ اس علاقے میں دشوار گزار اور کٹھن پہاڑی سلسلہ ہونے کے باعث رابطہ سڑکوں کا نظام خستہ حالی کا شکار ہے۔ فاٹا کا ایریا باجوڑ ایجنسی سیشروع ہو کر جنوبی وزیرستان تک پھیلا ہوا ہے۔ فاٹا کی سات ایجنسیاں: باجوڑ ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ چھ فیرنٹیئر ریجن: (پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان پر مشتمل ہے، فاٹا کی تمام ایجنسیوں کے راستے فیرنٹیئر ریجن سے نکلتے ہیں جب کہ ان فیرنٹیئر ریجن پر ڈی۔سی۔اوز تعنات ہیں۔ باجوڑ ایجنسی کا راستہ (ٹرمیگرہ) ضلع دیر سے نکلتا ہے، چار سدد میں (گلا نائی) کے مقام سے مہمند ایجنسی کی رابطہ سٹرک ہے، خیبر ایجنسی کا راستہ پشاور (جمردو) سے نکلتا ہے۔ اورکزئی اور کرم ایجنسی کا راستہ ہنگو سے ہے، شمالی وزیرستان کا راستہ بنوں سے جبکہ جنوبی وزیرستان کا راستہ ضلع ٹانک سے جاتا ہے۔ فاٹا کے ان قبائلی علاقا جات (ایجنسیز) کا ایک دوسرے سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں رکھتے جس کی وجہ سے آپس میں سماجی،معاشرتی اور معاشی تعلقات نہیں ہیں۔ تمام ایجنسیز کیرہنے متعلقہ اضلاع سے گہرے مراسم اور روابط رکھتے ہیں۔ فاٹا کا روز مرہ کے معمولات اور مسائل کے حل کے لئے چیف ایگزیکٹو(گورنر) اور پولیٹکل ایجنٹ پشاور میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دہے رہے ہیں۔ فاٹا کی قومی اسمبلی میں بارہ ایم این ایز اور سینٹ میں سات سینٹر کی سیٹ موجود ہیں۔ موجودہ صورت حال میں فاٹا کے عوام کا اضافی بوجھ اس وقت کے پی کے حکومت کے کندھوں پر ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق تقریبا 75 فیصد سے زیادہ قبائلی پشاور میں مقیم ہیں جبکہ 25 فیصد فاٹا میں مقیم ہیں۔

نیا منظور شدہ بل کے مطابق فاٹا کے علاقوں میں مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان، خیبر اور اورکزئی ایجنسیوں کے علاوہ ایف آر پشاور، ایف آر بنوں، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی مروت، ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان اور ایف آر ٹانک شامل ہیں۔کے پی کے میں شامل سات ایجنسیاں: باجوڑ ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے انتظامی امور کے اختیار پولیٹیکل ایجنٹ سے ٹرانسفر ہو کر صوبائی حکومت کو حاصل ہونگے۔ چنانچہ دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی سول سروس ا یکٹ کو نافذ عمل لایا جا سکے گا۔ ملک کے باقی علاقوں سے یہاں خدمات انجام دینے کے لیے آنے والے افسروں کو ایڈیشنل الانس ومراعات اوراسپیشل تنخواہ دی جائے گی۔ وقت کے ساتھ فاٹا میں سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری لیویزفورس کو منتقل کر دی جائے گی۔ حکومت نے اس سلسے میں لیویز میں 20 ہزار بھرتیاں کرنے کے ساتھ ساتھ تمام دفاعی تربیت اور جدید سازوسامان بھی مہیا کرنے کا بھی پلان ترتیب دیا ہے ۔ پولیس کے محکمے کو موثر بنانے کے لئے فنڈ جاری کیے جائیں گئے
پاٹا کے علاقہ جات: چترال، دیر، سوات، کوہستان، مالاکنڈ اور مانسہرہ سے منسلک قبائلی ایریا بھی کے پی کے میں شمارہوں گے۔ صوبہ بلوچستان میں پاٹا کے علاقہ جات: ضلع ژوب، دکی تحصیل کے علاوہ باقی ضلع لورالائی، ضلع چاغی کی تحصیل دالبندین، ضلع سبی کے مری اور بگتی قبائلی علاقے کو شامل کرنے کی منظوری دے دی گئی۔

فاٹا اصلاحات بل کی منظوری سے فاٹا کے پچاس لاکھ سے زیادہ عوام کو آئینی، قانونی، اقتصادی اور سیاسی حقوق حاصل ہو ں گے۔ 2018 کے عام انتخابات کے فوراً بعد جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔آئندہ الیکشن میں فاٹا کی نمائندگی قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ کے پی کے اسمبلی میں بھی ہو گی، فاٹا کی 12 نشستیں ختم ہو جائیں گی، جب کہ کے پی کے سے قومی اسمبلی کی چھ نشستیں کا اضافہ ہو گا۔ وفاقی حکومت کے اس نئے مسود ے کے مطابق کے پی کے اسمبلی کے ممبران کی کل تعداد:145 جن میں جرنل الیکشن کی نشستیں: 115، اسپیشل خواتین نشستیں: 26اور نان مسلم کی نشستیں: 4 ہوں گی۔ نئے بل میں فاٹا سے سینیٹ کے آٹھ ممبران کی نشتو ں کوتحلیل کیا ہے جس کے بعد سینیٹ کے ارکان کی تعداد 96 رہ جائے گی، تاہم موجودہ فاٹا کے سینیٹراپنی معیاد مدت پوری کریں گے یہ اطلاق خالی ہونے والی فاٹا کے ممبران سینٹ کے انتخاب پر ہی ہوگا۔ صوبہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی تعداد 16، جبکہ پنجاب میں 141 اور سند ھ میں 61 ممبران صوبائی اسمبلی ہوں گے۔

وفاقی بل کی منظوری کے بعد فاٹا کے منتخب ارکان مکمل اور موثر طور قانون سازی کے اندر اپنا رول ادا کر پائے گئے۔ موجودہ قوانین میں فاٹا ممبران سینٹ اور قومی اسمبلی میں فاٹا کے حوالے سے کوئی رول ادا نہیں کر سکتے۔ 2018اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے نمائندگان کو دیگر صوبوں کی طرح لوکل باڈی سسٹم کے تحت اختیار حاصل ہونگے اس سلسلے میں آئندہ آنے والے دس سالوں میں ایک سو ارب روپے کے ساتھ ساتھ سالانہ پچیس ارب کا ترقیاتی بجٹ دینے کا اعلان بھی سامنے آیا۔ نیشنل فنانس کمیشن کے تحت فاٹا کے لیے ہر سال تین فیصد فنڈز ڈی ویزیبل پول سے جاری کئے جائیں جن کو کوئی بھی حکومت کم یا ختم کرنے کی مجاز نہیں ہو گی۔ ڈی ویز پبل پول سے جاری ہونے والی یہ رقم کا استعمال فاٹا میں انفراسٹرکچر، ہسپتال، سکول کالجز اور معاشی تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔ شہریوں کے لئے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کے لئے رائج راہداری یا پرمٹ کا ختم ہو جائے گا۔

فاٹا بل میں قا نونی اصلاحات سے متعلق فاٹا میں لاگو قانونی ڈھانچے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے ساتھ ساتھ موجودہ ایچ سی آر کا نظام بھی ختم ہو جائے گا۔ شہری مقدمات کے لئے پشاور ہائی کورٹ کے ساتھ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکیں اور تمام افراد کو برابری کی بنیاد پر اپیل کا حق مل پائے گا۔ عدالتوں کا دائرہ اختیار وسیع کرنے کے لئے ان علاقوں تک قانون سازی کے قواعد واضع کئے گئے اور اس کے لئے ججوں کا انتخاب بھی عمل پذیر ہے جو فاٹا کے مقدمات و کیس سنیں گے۔

دفاعی ، معاشی اور سیاسی اعتبار سے وفاقی حکومت کا موجودہ جہاں ملک کی ترقی و خوشحالی میں اہم سنگ میل طے کرے گا وہاں امن و سکون کی فضا کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

 

Najam Us Saqib
About the Author: Najam Us Saqib Read More Articles by Najam Us Saqib: 17 Articles with 15863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.