تحریر : مہک سہیل ،کراچی
پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے ملکی معیشت کی دگرگوں
صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معیشت کا ملکی
سکیورٹی کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ 14ارب
ڈالرز تک بڑھ چکا ہے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالرزہوچکا ہے.قرضوں کا سانپ
کا سانپ اڑدھا بن کر ملکی معیشت کو لپٹ گیا، اقتصادی سروے کے مطابق پانچ
سال میں ملک پر واجب الادا قرض تقریبا دگنا ہو گیا۔گزشتہ چار سال سے بیرونی
شعبے پر توجہ نہیں دی گئی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں اپنا
سرمایہ لگانے کو ترجیح نہیں دی جس کی وجوہ میں دہشت گردی، کرپشن اور غیر
ضروری کاغذی کارروائی ہے۔بینک کے مطابق دسمبر 2017 تک قرضوں کا مجموعی حجم
26815 ارب روپے تک جا پہنچا، بیرونی قرضے 9817 ارب روپے رہے ، آئی ایم ایف
نیاس کشکول میں691 ارب روپے ڈالے نجی شعبے نے ملک پر 1319 ارب کے قرضوں کا
بوجھ ڈالا اندرونی قرضوں کا حجم بھی 16000 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ ایم ایف
کے مطابق اس سال جون تک پاکستان کے ذمے بیرونی قرضے 93 ارب ڈالر ہوجائیں گے
جبکہ اگلے مالی سال کے اختتام تک بیرونی قرضوں کی سنچری مکمل ہو جائے گی۔
قرضوں میں اضافے کے باعث اس سال کرنٹ اکاونٹ خسارہ 15.6 ارب ڈالر تک پہنچ
جائے گا-
اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک ملکی قرضوں کا حجم چوبیس
ہزار ارب سے تجاوز کر جائیگا، قرضوں کی یہ حد قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے.
رواں برس 2018 میں قرضوں کا حجم 93 ارب 27 کروڑ ڈالر ہے، رواں برس پاکستان
کو 7 ارب 73 کروڑ ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ سنہ 2019 میں ادائیگیاں بڑھ
کر 12 ارب 73 کروڑ ڈالر ہوجائیں گی۔
2013-14 میں ہر پاکستانی تقریبا 82 ہزار روپے کا مقروض تھا لیکن 2018 میں
یہ قرضہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے تک جا پہنچا۔انتخابات کے بعد آنے والی
حکومت کو قرضوں کی واپسی کیلئے مزید قرضے لینا پڑیں گے اسٹیٹ بینک کے پاس
صرف دس ارب ستر کروڑ ڈالر کا ذخیرہ بچا تھا، جو ڈھائی ماہ کی درآمدات کیلئے
بھی ناکافی تھا جبکہ بینکوں کے پاس موجود 6 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر
کھاتے داروں کے ہیں، جنھیں اسٹیٹ بینک مجموعی ڈالر ذخائر میں شامل کرکے
دکھاتا ہے۔اقتصادی ماہرین کے مطابق غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی رزمبادلہ
ذخائر میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ کم کرنے کے لیے
غیر ملکی مہنگے قرضوں کا حصول ناگزیر ہے. ملک اس وقت بے تحاشہ قرضوں کی
لپیٹ میں ہے اس کے باوجود ملک پر قرضوں کا بوجھ اور غیر ملکی زرمبادلہ میں
کمی کے باعث پاکستان نے دوست ملک چین سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ لے لیا، یہ
رقم انڈسٹریل کمرشل بینک آف چائنا سے لی گئی ہے،حکومتی اقدامات اور رویے سے
ایسا نظر آتا ہے کہ اسے بیرونی شعبے کی بہتری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس
لیے خدشہ ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک بیرونی قرضے کے حجم میں مزید
اضافہ ہوجائے گا جو ملکی معیشت کو مزید کمزور کرے گا۔ آنے والے وقتوں میں
روپے کی قدر میں مذید کمی آئیگی اور عید کے بعد ملک کو ایک بڑی معاشی
بدحالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور ملک قرضوں کے بوجھ میں ڈوبتا چلا جائے
گا۔ اگر یہ قرضے ڈیمز بنانے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کیلئے لئے جارہے ہیں
اور مکمل ہونے کے بعد منصوبوں سے ہی قرضوں کی ادائیگی ہوسکے تو یہ قرضے
ملکی مفاد میں ہیں لیکن ہمارے ہاں قرضے کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خسارے کو پورا
کرنے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لئے جارہے ہیں نہ کہ معاشی ترقی اور
تیز جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنے کیلئے جو ایک لمحہ فکریہ ہے. حکومت کو چاہئے
کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ایک واضح حکمت عملی کے تحت ان قرضوں
کی ادائیگی کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کرسکیں، |