مایوسی کے گناہ ہونے سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا،
مگر امیدیں اِن سیاستدانوں سے لگانا بھی ہر گز دانشمندی نہیں۔ یہ امر بھی
خوش آئند ہے کہ جمہوریت کا تسلسل جاری ہے، اور یہ پھل پھول رہی ہے، مگر
روشنی کی کوئی کرن کسی طرف سے دکھائی نہیں دیتی۔ اسمبلیوں کے پورے پانچ برس
کی کارکردگی کی تفصیل بھی نئے الیکشن کے موقع پر قوم کے سامنے لائی جانی
ضروری ہے۔ جتنے کچھ اعدادوشمار ظاہر کئے گئے ہیں، اس سے اندازہ لگانا مشکل
نہیں کہ اسمبلیوں میں ماحول کس طرح اور کتنا غیر سنجیدہ رہا۔ اکثر اوقات
کورم پورا نہیں ہوپاتا، گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں، اور معزز ارکان کیفے ٹیریا
میں بیٹھے گپیں ہانکتے رہتے ہیں، ان کی تعداد بھی بس اتنی ہوتی ہے کہ تمام
لوگ تشریف لے آئیں تو کورم ہی پورا ہو پاتا ہے، بہت سے صاحبان اجلاس کو
اہمیت ہی نہیں دیتے۔ جن ممبران نے وزراء وغیرہ سے کچھ فائلوں پر منظوری
لینی ہوتی ہے وہ البتہ ضرورحاضر ہوتے ہیں۔ انہی ارکان کے بارے میں یہ بتایا
جاتا ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے پورے پانچ برس میں ایک
لفظ بھی اسمبلی کے فلور پر اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔ بہت سے ارکان کی
حاضریاں شاید نصف تک بھی نہ پہنچ پائی ہوں، مگر مجال ہے جو اُن کی سرکاری
تنخواہ یا مراعات یا اجلاس کے موقع پر ملنے والے اعزازیہ میں کچھ کمی واقع
ہو سکے۔ اجلاس میں جائیں نہ جائیں، اسمبلی میں بولیں نہ بولیں، اپنے حلقے
کے حقوق کے لئے کوئی مطالبہ کریں نہ کریں، بحیثیت ممبر اسمبلی آپ کو ملنے
والی رقم میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی جائے گی۔ خود انہی معزز ممبران کی
فیکٹریوں یا گھروں میں ملازم اگر وہی رویہ اپنائیں جو یہ خود اسمبلیوں میں
اپناتے ہیں تو کیا یہ اُنہیں مزید ایک لمحہ بھی ملازمت پر رہنے دیں گے، کیا
چھٹی کرنے والے اور کام پورا نہ کرنے والے ملازم کو کہیں پوری تنخواہ دینے
کا رواج ہے؟ یہ عجوبہ صرف پاکستان کی اسمبلیوں میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ
معزز ارکان کارکردگی میں جس قدر خود اپنے لئے سنجیدہ ہوتے ہیں، عوام کے لئے
اتنا کبھی نہیں سوچتے۔
یہ بیانیہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’’عوام احتساب کریں گے‘‘۔ یعنی
عدالتوں یا اداروں کو ان معزز ارکان کے احتساب کا کوئی حق حاصل نہیں، بس
پانچ برس کے بعد ہونے والے الیکشن سے یہ دودھ سے دُھل کے پاک صاف ہو جاتے
ہیں، اور اگلے پانچ سال کے لئے دوبارہ حکومت یا ممبر شپ کا اختیار مل جاتا
ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اداروں کو بند کر کے بڑے خرچے سے بچا جا سکتا ہے،
اور اگر یہ عوام بہترین جج ہیں تو کیا اِن ’’ججوں‘‘ سے الیکشن کے موقع پر
کئے گئے فیصلوں کے متعلق دلائل معلوم کئے جاسکتے ہیں، کیا یہ ’جج‘ اپنے
تفصیلی فیصلہ میں بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس بنا پر ان محترم ارکان کا
احتساب کرکے پاکستان کی مقننہ کا اختیار اُن کے ہاتھوں میں دے دیا۔ مقننہ
کے ممبر چننے والے معزز ووٹرز کی سرگرمیوں پر نگاہ ڈالنا ہو تو آج کل سوشل
میڈیا کو دیکھ لیا جائے، چند ہی منٹ میں ہی چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں، سر
چکرانے لگتا ہے، بات مغلظات سے بہت آگے جا چکی ہے، معاملہ ایک دوسرے کی
غیرت تک پہنچ چکا ہے، تاہم یہ بہت مضبوط اعصاب کے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کی
ماں بہن ایک کرتے رہتے ہیں اور اسی قسم کی دلائل سے سوشل میڈیا کی رونق
بڑھاتے رہتے ہیں۔ یہ کارکن اور ان کے لیڈر ایک دوسرے کے معاون ہیں، دونوں
کو ایک دوسرے سے بہت توانائیاں میسرا ٓتی ہیں، کارکن جب جلسہ میں جاکر لیڈر
کی باتیں سنتاہے تو مطمئن ہو جاتا ہے، اور لیڈر جب سوشل میڈیا پر اپنے
جانثاروں کی کارروائیوں کا جائزہ لیتا ہے، جو اطمینان ومسرت کا اظہار کرتا
ہے۔ ہمارے مقامی اور مرکزی لیڈروں کی خوش قسمتی ہی ہے کہ ان کے مالی اور
اخلاقی معاملات میں اگر کوئی کوتاہی پائی جاتی ہے، تو ان کی حمایت اور
صفائی کے لئے ان کے کارکن سربکفن میدان میں موجود ہوتے ہیں۔ مقامی سطح پر
بہت گہرائی سے دیکھا جائے تو بے شمار نمائندے ایسے ہیں جن میں کسی نہ کسی
حوالے سے کمیاں کوتاہیاں پائی جاتی ہیں، اس سلسلے میں بھی غیر سنجیدہ جواب
ہی سامنے آتا ہے، ’’فرشتے کہاں سے لائیں‘‘۔ کمیشن مافیا، قبضہ گروپ، اخلاقی
جرائم عام بات ہے، جنہیں کارکن مائینڈ نہیں کرتے۔
آنے والے الیکشن میں امیدواروں پر قانونی شکنجہ ڈھیلا ہی نہیں پڑا ، بلکہ
اس قسم کا کوئی بھی خطرہ ٹل گیا ہے جس سے الیکشن کے بعد نااہلی کی تلوار اس
کے سر پر لٹکتی رہتی۔ اس کی تعلیمی سند جعلی ہے، اس کے بیرونِ ملک کاروبار
ہیں، وہ دہری شہریت کا مالک ہے، وہ ٹیکس نادہندہ ہے، اس نے بینک وغیرہ کا
قرضہ واپس نہیں کیا، اس کے زیر کفالت کتنے لوگ ہیں، اس کے یوٹیلٹی بل ادا
شدہ ہیں یا نہیں، وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں تو ملوث نہیں،امیدوار پر ہونے
والے مقدمات کاکیا ریکارڈ ہے؟اب کسی بات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ
سابق اسمبلی نے جاتے جاتے آنے والوں کے لئے نہایت آسان راستہ بنا دیا ہے۔
یہ تمام کام وہ تھے جن کی بنا پر الیکشن کمیشن کسی بھی امیدوار کا راستہ
روک سکتا تھا، یا الیکشن کے بعد ان کی نااہلی کا خطرہ ہو سکتا تھا، مگر یہ
تمام کام اب الیکشن کمیشن یا عدالتیں نہیں کریں گی، بلکہ یہ اہم ذمہ داری
اب بہت ہی پیارے ووٹرز کے نازک کندھوں پر آپڑی ہے۔ گویا جو لوگ اس چھلنی سے
چھَن کر آئیں گے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ سابق اسمبلی کی نامزدگی فارم
سے مندرجہ بالا شقیں نکالنے کا عمل بذاتِ خود معاملہ کی سنجیدگی کی بہترین
دلیل ہے۔
چلیں مایوس نہیں ہوتے، مگر جن قائدین نے بھی اگلے الیکشن میں سامنے آنا ہے،
ان کی اسمبلیوں میں کارکردگی کیا ہے، انہوں نے اسمبلی کو ہمیشہ تھانہ سمجھا،
اور بہت ہی کم ، کسی بہت ہی مجبوری کی صورت میں اسمبلی میں قدم رنجہ فرمایا
۔ بات میاں نواز شریف کی ہو، یا شہباز شریف کی یا پھر عمران خان کی۔
اسمبلیوں کی حاضری کے سلسلہ میں سب کا رویہ ایک جیسا ہی ہے۔ بہتری کی توقع
کس سے رکھی جائے، الیکشن لڑنے والے امیدوار تو وہی ہیں جو پہلے تھے، اب
جھنڈا اُن کے ہاتھ میں چاہے کسی اور پارٹی کاہو، اگر کارکردگی کا دارومدار
انہی امیدواروں پر ہے تو کیسی امید؟ اگر امید قائدین سے رکھیں تو اُن کے
کارگزاری بھی سامنے ہے۔ تبدیلی یا تو عوام لا سکتے ہیں، جن کے ہاتھ میں ووٹ
کی طاقت ہے اور اس طاقت کے مکمل اختیار کا موقع بھی، مگر ان سے زیادہ
توقعات اس لئے بھی نہیں رکھی جاسکتیں کہ ابھی رائے دہی کی حقیقی روح اور اس
کے اصل مقام کو نہیں پہنچے۔ تبدیلی لیڈر بھی لا سکتے ہیں، مگر اس کے لئے
مہاتیر محمد یا طیب اردوان جیسی صلاحیتیں پیدا کرنا پڑتی ہیں، جو اپنے ہاں
کے مقبول قائدین میں دور تک دکھائی نہیں دیتیں۔ |