مناظرہ نہیں مباہلہ

آج حاجی صاحب میرے پاس آئے تو قدرے خوش نظر آرہے تھے۔ مختلف معاملات پر بات چیت شروع ہوئی تو ایک سے ایک پرانا موضوع شامل گفتگو رہا۔ مہنگائی، کرپشن، امن و امان، ڈرون حملوں، حکومتی اللوں تللوں، شاہ خرچیوں، لوٹ مار کی باتیں کی گئیں لیکن حاجی صاحب کے چہرے کی بشاشت، ان کی گفتگو کا تیکھا پن اور بیچ بیچ میں لطیفے اور چٹکلے چھوڑنے کا انداز برقرار رہا۔ مجھے لگا میں آج سے تیئس سال پیچھے چلا گیا ہوں جب حاجی صاحب نے ابھی حج نہیں کیا تھا اور اکثر اوقات دلچسپ اور لطیفوں سے بھرپور گفتگو ہوا کرتی تھی، اس وقت بھی بہت سے مختلف النوع موضوعات بحث کا حصہ ہوا کرتے تھے لیکن ان میں سیاسی معاملات بہت کم زیر بحث آتے تھے، ان دنوں میں حاجی صاحب کے چہرے پر ایک عجیب سی طمانیت ہوا کرتی تھی، خلوص تو ویسے ہی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس لئے جب بات کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ وہ بات سیدھی ان کے دل سے نکلتی ہے اور اثر بھی دکھاتی ہے لیکن جیسے جیسے دنیا کے گورکھ دھندوں میں الجھتے چلے گئے، گھریلو ذمہ داریاں، خانگی معاملات، مختلف پریشانیاں جو آج کل ہر پاکستانی کو گھیرے ہوتی ہیں، وہ انہیں بھی لاحق ہونا شروع ہوگئیں اور ان کی گفتگو کا بے ساختہ پن اور معصومیت اچک لے گئیں لیکن آج مجھے لگا کہ میرے سامنے وہی محمد اشرف بیٹھا ہے جو آج سے کم و بیش تیئس سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ میں نے آخر کار ان سے پوچھ ہی لیا کہ حاجی صاحب کیا آپکی تنخواہ بڑھ گئی ہے؟ کہنے لگے ”نہیں“! میں نے عرض کیا کہ کمپنی سے بونس تو نہیں مل گیا؟ جواب نفی میں تھا، میں نے کہا کوئی لاٹری نکل آئی، نوٹوں سے بھرا بریف کیس ہاتھ لگ گیا؟ کہنے لگے ”نہیں بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں“! میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگیا تھا، میں نے ذرا غصے سے پوچھا تو کیوں آپ اتنے خوش نظر آرہے ہیں، آخر معاملہ کیا ہے؟ کہنے لگے کہ کسی اور تک تو میری پہنچ نہیں، لیکن آپ اپنے کالم کے ذریعے میاں نواز شریف اور لندن والے الطاف حسین کو خصوصی طور پر اور سارے پاکستان کے سیاسی راہنماﺅں کو عمومی طور پر میرا ایک پیغام پہنچا دیں تو بہت مشکور ہوں گا، اور اگر میرے پیغام کے بعد تمام سیاستدان یا ان میں سے کچھ اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو مجھے یقین ہے کہ مجھے زندگی بھر کی خوشیاں مل جائیں گی اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے آئندہ کوئی خواہش یا کوئی تمنا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا، میاں صاحب یا الطاف حسین صاحب تو شائد میرا کالم نہیں پڑھتے ہوں گے، میرا کالم تو میرے جیسے پاکستانی ہی پڑھتے ہیں لیکن آپ بتائیں کوشش میں کیا حرج ہے، اگر میرے کالم کے ذریعے آپ کی کوئی خواہش بلکہ زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوتی ہو تو مجھے بے انتہا خوشی ہوگی۔

حاجی صاحب کہنے لگے کہ آج الطاف حسین نے حسب روائت لندن سے براہ راست ٹیلیفونک گفتگو میں میاں نواز شریف کے آزاد کشمیر کے جلسہ، جس میں انہوں نے ایم کیو ایم کو بارہ مئی کا طعنہ دیا تھا کے جواب میں بہت کھری کھری سنائی ہیں اور ساتھ ہی مناظرہ کا چیلنج بھی دے دیا ہے۔ میں نے کہا کہ الطاف حسین تو لندن میں ہیں کیا نواز شریف لندن جائیں گے؟ حاجی صاحب کہنے لگے کہ الطاف حسین نے لندن میں آکر یا ٹی وی چینلز کے ذریعے مناظرہ کا چیلنج دیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے سیالکوٹ والے خواجہ آصف نے فوراً ایک پریس کانفرنس کر کے مناظرے کی دعوت قبول بھی کر ڈالی ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ الطاف حسین پہلے غیر ملکی ہیں جو ایک پاکستانی سیاسی جماعت کے قائد ہیں۔ میں نے انہیں وہیں ٹوکا اور کہا کہ حاجی صاحب! شائد خواجہ صاحب مشرف کو بھول گئے ہیں، وہ بھی تقریباً غیر ملکی ہی ہیں اور ایک پاکستانی پارٹی کے چیف ہیں، حاجی صاحب نے ٹوکنے کا برا منایا اور ذرا غصے میں آکر بولے! یار بات تو پوری سن لیں، مشرف کی پارٹی میں لوگ کتنے ہیں، جبکہ اس کے برعکس ایم کیو ایم تو پاکستان کے ایک علاقہ کی نمائندہ جماعت ہے۔ میں نے نادم ہوکر کہا جی میں خاموش ہوں، آپ بات پوری کریں۔ مسکرا کر بولے، بات ہورہی تھی کہ خواجہ آصف نے مناظرہ کا چیلنج قبول کرلیا ہے، یہ ایک اچھی بات ہے لیکن میں جو پیغام اور مشورہ ایک پاکستانی کے طور پر دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ براہ مہربانی آپ لوگ مناظرہ نہ کریں بلکہ خدارا مباہلہ کرلیں۔ میں حیرانی سے انہیں دیکھ رہا تھا، وہ اپنی روانی میں کہتے چلے گئے کہ دیکھیں ہم سب اس ملک میں کرپشن، لوٹ مار، امن وامان اور دیگر مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں اور سیاسی قائدین خصوصی طور پر ان مسائل و معاملات بارے لب کشائی کرتے ہیں، اب اگر مسلم لیگ ن نے دوبارہ سے ایم کیو ایم پر بارہ مئی کا الزام لگایا ہے (حالانکہ بارہ مئی کے سانحہ کے مدعی تو اصولی طور پر یا وکلاء تھے اور یا اے این پی والے، کیونکہ عوام تو کسی گنتی میں آتے ہی نہیں، اب اے این پی اور ایم کیو ایم وفاق میں اتحادی ہیں اور وکلاء اپنی عدلیہ کو بحال کرا چکے ہیں، اے این پی تو اب بارہ مئی کا ذکر نہیں کرتی جبکہ وکلاء نے سب کچھ عدلیہ کے سپرد کر رکھا ہے جو شائد آج سے سو دو سو سال بعد بارہ مئی کا کیس بھی سن لے)تو اس کے دو پہلو ہیں، یا تو ان کا الزام سچائی پر مبنی ہے یا جھوٹ پر، اسی طرح الطاف حسین نے جو الزامات نواز شریف پر لگائے ہیں وہ بھی یا سچائی پر مبنی ہوں گے یا جھوٹ پر اور ایسے ہی باقی سیاستدان جو الزامات ایک دوسرے پر لگاتے ہیں وہ بھی یا سچے ہوتے ہوں گے یا جھوٹے، دونوں صورتوں میں عوام اور پاکستان کا ہی بھلا ہوگا! میں نے کہا وہ کیسے؟ جذبات سے سرخ چہرے کے ساتھ، پورے یقین اور اطمینان سے کہنے لگے اگر نواز شریف اور الطاف حسین اور باقی سارے سیاستدان اپنے اپنے الزامات اور جوابی الزامات کے تحت مباہلہ کرلیں تو ان سب سے جان نہ چھوٹ جائے، کم از کم آدھوں سے جان چھوٹنا تو یقینی ہے کیونکہ میں نے سنا ہے کہ اگر دو اشخاص مباہلہ کریں تو جو جھوٹا ہوتا ہے وہ اللہ کے پاس چلا جاتا ہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222550 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.