قرضوں کا مایہ جال

میاں نوازشریف نے کئی بار قوم کو یہ نوید سنائی کہ ہم کشکول توڑ دیں گے اور پاکستان کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلائیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ پاکستان حکمرانوں کی نااہلی کے باعث قرضوں کے مایہ جال میں پھنستا چلا گیا بلکہ یہ کہنا زیادہ بہترہوگا کہ اسی طرح دھنستا چلا گیا جس طرح ملتان میں چلتی میٹرو بس سڑک میں دھنس گئی تھی اب یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ن لیگ کے دور حکومت میں پاکستان کی معیشت عدم استحکام کا شکار رہی، غیرملکی قرضوں کی مالیت میں 50فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا جس کے بعد غیرملکی قرضوں کی مجموعی مالیت 91ارب 80کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔ماہرین کے مطابق معاشی عدم استحکام کا بوجھ آنے والی حکومت کو اٹھانا پڑے گا۔ روپے کی قدر میں مزید کمی متوقع ہے۔ درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے قرضوں پر انحصار بڑھے گا۔ جس کیلئے آنے والی حکومت کو برآمدا ت میں اضافہ اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے پالیسیوں کوسازگار بنانا ہوگا۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ن لیگ کی حکومت کے آغاز پر غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی مالیت 60 ارب 90 کروڑ ڈالر تھی جو مارچ 2018کے اختتام تک 91ارب 80کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح اپنی مدت پوری کرنے والی ن لیگ کی حکومت کے دور میں غیرملکی قرضوں کے بوجھ میں 31ارب ڈالر کے لگ بھگ اضافہ ہوا جو پاکستان کی معاشی تاریخ میں کسی بھی ایک حکومت کے دور میں غیرملکی قرضوں میں اضافے کا سب سے بڑا ریکارڈہے۔ن لیگ کی حکومت میں بے تحاشہ درآمدات کا سلسلہ جاری رہاجبکہ باآمدات میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے توازن ادائیگی بھی بری طرح خراب رہا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ سابقہ حکومت کے آغاز پر زرمبادلہ کے ذخائر کی مجموعی مالیت 11ارب ڈالر تھی جس میں سرکاری ذخائر کی مالیت 6 ارب ڈالر جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر کی مالیت 5ارب ڈالر تھی حکومت کی جانب سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کی نیلامی کے ذریعے حاصل کردہ مہنگے قرضوں سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہوا اور اکتوبر 2016میں زرمبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالر کی تاریخی بلند سطح تک پہنچ گئے تاہم غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی، غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار رہے اور مئی 2018کے وسط تک 7ارب 30کروڑ ڈالر کمی کے بعد مجموعی ذخائر 16ارب 65کروڑ ڈالر کی سطح پرآگئے جن میں سرکاری ذخائر کی مالیت 10ارب 32کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے ذخائر 6ارب 33کروڑ ڈالر ریکارڈ کیے گئے۔ن لیگ کے دور حکومت میں پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں نے 16ارب 32کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تاہم اس میں سے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 9ارب 97کروڑ ڈالر رہی۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں غیرملکی سرمایہ کاری کی مالیت 9ارب ڈالر رہی تھی اور پاکستان کو بیرونی تجارت میں 105ارب ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حکومت میں شامل معاشی ماہرین برآمدات بڑھانے میں بری طرح ناکام رہے جس کے بنیادی اسباب میں توانائی کا بحران، بلند پیداواری لاگت اور برآمدی شعبے کی مسابقتی صلاحیت میں کمی جیسے عوامل شامل ہیں۔ مسلم لیگی دور حکومت میں روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ دور حکومت کے آغاز پر روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 98 روپے 55 پیسے تھی جو حکومت کی مدت کے اختتام پر 118 روپے سے تجاوز کرگئی، اس طرح 4 سال 10 ماہ کے عرصے میں روپے کی قدر 20فیصد تک کم ہوگئی۔برطانوی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قرضوں کا حجم آئی ایم ایف بیل آوٹ پیکیج کی گھنٹیاں بجانے لگا ہے اور پاکستان کی فنانسنگ ضرورت ایمرجنگ ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔ آئندہ مالی سال میں ساڑھے 9 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض لینا ہوں گے جب کہ 1980 سے آئی ایم ایف سے 12 بیل آوٹ پیکیج لیے جا چکے ہیں۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 2013 سے بیرونی قرض اور واجبات 76 فیصد بڑھ کر 92 ارب ڈالر ہو چکے ہیں اور بیرونی قرض جی ڈی پی کا 31 فیصد ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 3 سال کی کم ترین سطح پر ہیں اور گرتے ذخائر کے سبب روپے کی قدر دو مرتبہ کم کی گئی ہے۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی صورتحال گزشتہ سال تک بہتر تھی اور موجودہ حکومت معاشی نمو کو 10 سال کی بلند ترین سطح پر لے گئی۔ معاشی نمو سستے خام تیل، آئی ایم ایف پیکیج اور چینی سرمایہ کاری کے مرہون منت رہی تاہم چینی مشینری اور دیگر سامان کی درآمد نے جاری خسارہ 50 فیصد بڑھا دیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد پر بیجنگ کے بڑھتے قرضوں پر سوال ہے کہ یہ ادا کیسے ہوں گے؟۔ خام تیل کی بڑھتی قیمتیں معاملات کو مزید خراب کر رہی ہیں اور حکمران جماعت آئی ایم ایف پیکیج کی نفی کر رہی ہے یہ بھی کہاجارہا ہے پاکستان پوسٹ کو اس وقت 10 ارب روپے تک خسارے کا سامنا ہے، پاکستان پوسٹ کے بجٹ کا83 فیصد تنخواہوں اور پنشن کی مد میں چلا جاتا ہے۔باقی15فیصد رہ جاتا ہے جو پاکستان پوسٹ کے ڈیولپمنٹ اور دیگر اخراجات کی مد میں لگایا جاتا ہے۔ پوسٹل خسارے پر قابو پانے کیلئے حکومت ڈاک ٹکٹ میں اضافہ کرے، جبکہ پاکستان ریلوے، پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز سمیت درجنوں قومی ادارے مسلسل خسارے میں جارہے ہیں جن کیلئے اربوں روپے ماہانہ سب سٹڈی دی جارہی ہے ۔ سینٹ کمیٹی نے استفسار کیاکہ بجٹ سیشن میں پارلیمنٹ ہاؤس نہ آنے والے کیسے اعزازیہ لے سکتے ہیں؟ بعدازاں پھراسی کمیٹی نے اپنے دفاتر میں بیٹھ کر اعزازیہ لینے والوں سے رقوم کی وصولی کی ہدایت کر دی جبکہ گردشی قرضوں کے بارے میں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے بااثر افراد کی جانب سے بجلی چوری کو معاشی دہشت گردی قراردے دیا جبکہ حکام نے سینٹ کمیٹی کو بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں گردشی قرضہ 573ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے حقیقی معاشی استحکام کے خدو خال تھے جبکہ میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف،وفاقی و صوبائی وزراء اور ترجمان حکومتی کامیابیوں کے مسلسل گن گاتے پھرتے ہیں بغورجائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کو خوفناک معاشی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا اس صورت ِ حال سے نکلنے کے لئے حکمرانوں کے پاس ایک طے شدہ فارمولاہے کہ مختلف نوعیت کے ٹیکسز میں اضافہ کردیا جائے حکومتی معاملات میں سادگی کو فروغ دینا کسی بھی حکمران کی خاص ترجیح نہیں رہا اس کی نئی مثال نگران وزیراِ عظم کا سوات میں اپنی والدہ کی قبر پر فاتحہ پڑھنا پاکستانیوں کو کروڑوں میں پڑا اس طرح حکومتی اخراجات پورا کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات، بجلی،گیس پر نئے ٹیکسز بھی لگائے جاسکتے ہیں یہ صورتِ حال انتہائی خطرناک بلکہ خوفناک ہے۔ماضی میں نگران حکومتوں نے بھی غیرملکی قرضے لے کرپاکستان کونقصان پہچایا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نئے غیرملکی قرضے لینے پر مکمل پابندی لگادیں صرف اسی صورت پاکستان ان قرضوں کے مایہ جال میں مزید پھنسنے سے بچ سکتاہے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پابندی کے باوجود نئے قرضے لینے والوں کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادفروخت کرکے ادائیگی کی جا سکتی ہے۔

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 218 Articles with 176189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.