31مئی 2018کو مسلم لیگ حکومت نے پہلی دفعہ اپنی مدت پوری
کی جبکہ جمہوری حکومت نے دوسری طرف اپنی مدت حکومت پوری کی جو کہ ملک میں
جمہوری نظام کے لئے ایک اچھا شگون ثابت ہوگا ۔ اب سیاسی جماعتوں اور
رہنماؤں کا یہ جواز بھی ختم ہو کیا کہ ملک میں جمہوری حکومت کی تسلسل کو
قائم رہنے نہیں دیا جاتا ۔ 11مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل
کرنے والی مسلم لیگ نون کی جماعت سے تو قع یہ تھی کہ تیس سال سے سیاست اور
زیادہ عرصہ حکومت میں رہنے کی وجہ سے میاں نوازشریف کی تیسری دفعہ وزیرا
عظم بننے سے ملک میں جمہوری نظام بہتر ہوگا اور ملک ترقی کریں گا جو شکایت
اور ناکامی پیپلزپارٹی زرداری حکومت میں کرپشن اور اداروں کی بربادی سے
ہوئی تھی اس میں بہتری آجائے گی لیکن بہت جلد ہی پا کستانی عوام کو معلوم
ہوا کہ نئی آنے والی مسلم لیگ کی حکومت نے ماضی سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا
کہ جس سے جمہوریت اور ملک میں نظام کو درست کیا جائے اور ملک ترقی کریں۔
2013انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے جس میں
نون لیگ بھی شامل تھی اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس دھاندلی کو بے نقاب کیا
جاتا اور ملوث افراد کو سزا دی جاتی تاکہ آئندہ کسی کی جرات نہ ہوجو الیکشن
میں دھاندلی کا سوچیں۔2013الیکشن میں تحریک انصاف سیٹوں کے اعتبار سے تیسری
اور وٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت کے طورپر سامنے آئی ۔ الیکشن سے چار
روز پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان لاہورمیں جلسے گاہ میں لفٹ سے
گرے جس کے نتیجے میں ان کو کافی چھوٹیں آئی تھی ۔ الیکشن کے بعد میاں نواز
شریف عمران خان کو دیکھنے ہسپتال پہنچے جس پر عمران خان نے میاں صاحب کو
فرمایا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اب نے اس کی تحقیقات کرنی ہے جس
پر میاں نواز شریف نے راضامندی بھی ظاہر کی تھی اور بعد ازاں اسمبلی اجلاس
میں وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم تحقیقات کریں
گے لیکن ان تمام باتوں اور وعدوں کے باوجود ن لیگ حکومت نے تحقیقات شروع
نہیں کی جس کے ایک سال تین مہینے بعد 14اگست2014کو عمران خان نے لاہور سے
دھرنا شروع کیا جس میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے ماڈل ٹاؤن سانحے کے لئے اپنا
احتجاجی مظاہرہ اسلام آباد رونہ کیا جہاں دونوں جماعتوں نے دھرنا دیا لیکن
70دن بعد طاہرالقادری نے دھرنا ختم کیا جبکہ پی ٹی آئی کا دھرنا اسلام آباد
میں 126دن جاری رہا اس دھرنے نے حکومت کے مشکلات میں اضافہ کیا لیکن باقی
جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دیا ۔ بعدازاں سانحہ آرمی پبلک اسکول ہونے پر
عمران خان نے دھرنا ختم کیا جس کے بعد تحقیقات کے لئے حکومت اور تحریک
انصاف کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے لیکن ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ سامنے
نہیں ایا جس کے بعد عمران خان نے دوبارہ احتجاج کا اعلان کرکے اسلام آباد
کو بند کرنے کے لئے سڑکوں پر آئیں،بعدازاں سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور کیس
سپریم کورٹ میں شروع ہوا جنہوں نے آج کے نگران وزیراعظم ناصرالملک کی
سربراہی میں کمیشن بنایا جنہوں نے الیکشن میں دھاندلی کے کئی ریکارڈ ظاہر
تو کردیے لیکن منظم دھاندلی ثابت نہ ہوئی اس طرح یہ کیس ختم ہوا لیکن اس کے
نتیجے میں تحریک انصاف مزید مضبوط ہوگئی اور حقیقی اپوزیشن کے طور پر سامنے
آگئی۔
نون لیگ حکومت نے عوام سے الیکشن کے دوران جو وعدے کیے تھے ان میں کچھ وعدے
یہ بھی تھے کہ ہم بیرونی قرضے نہیں لیں گے اور ملک کے معیشت کو بہتر اور
مضبوط کریں گے جس کیلئے ملک کے انرجی سکیٹر اور ٹیکسٹائل سمیت تمام چھوٹی
بڑی کارخانوں کو اس قابل بنائیں گے کہ ملک کے برآمدات میں اضافہ ہوجائے اور
بیرونی سرمایہ کاری میں بھی بہتر ی آجائے ۔ ساتھ میں ریلوے، پی آئی اے،
اسٹیل مل وغیرہ کے نقصان کو ختم کرکے دوبارہ منافع بخش بنائیں گے لیکن بہت
جلد ہی معلوم ہوا کہ حکومت نے بیرونی قرض لینا شروع کیا جس کی حقیقت آج یہ
ہے کہ نون لیگ اقتدار سے پہلے بیرونی قرضے 13ہزار ارب تھے اور اب27ہزارارب
تک پہنچ گئے ہیں جو کہ ملک کی تاریخ میں ڈبل سے زیادہ قرضہ ہے اس طرح حکومت
نے نظام کو چلانے کیلئے آخری دن پانچ سوارب کا قرضہ لیا۔ملک کے برآمدات تو
بہتر نہ ہوئے البتہ زرداری دور حکومت میں 25ارب کے برآمدات ہوتے تھے جس نے
وقت کے ساتھ ان پانچ سالوں میں 35ارب ہونا تھا اب وہ 20ارب تک نیچے آگئے
ہیں ۔
اسٹیل مل اور پی آئی اے میں کرپشن ،لوٹ مار اور نااہلی نے خسارہ ایک ہزار
ارب تک پہنچا دیا ہے ۔ریلوے میں نہ صرف کرپشن کی وجہ سے کمائی بند کی بلکہ
اس میں بھی اربوں کا خسارہ شروع ہوا۔اسی طرح یوٹیلٹی اسٹور نے بھی 70ارب
خسارے کے ساتھ آگے ہوا جب کہ اسٹور میں ریٹ اوپن مارکیٹ سے بھی زیادہ ہے ۔
ان پانچ سالہ دور حکومت میں مہنگائی میں تین گنا اضافہ ہوا عالمی مارکیٹ
میں تیل کی قیمت کم ہونے کے باوجود قیمتیں کوئی خاص کم نہ ہوئی اور اب پھر
سوروپے تک فی لیٹر پہنچ چکی ہے جس میں حکومت ایک لیٹر پر پچاس سے ساٹھ روپے
کماتی ہے جو ملک کیلئے کمائی کا سبب بنایا کیا ہے اس طرح بجلی لوڈشیڈنگ میں
اعلانات کے باوجود کوئی کمی نہ آئی یعنی میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے
بقول 11ہزارمیگاواٹ کا اضافہ کیا گیا ہے لیکن لوڈشیڈنگ اسی طرح جاری ہے جس
طرح زرداری دور میں تھی اس وقت بھی چار سے پانچ ہزار میگاواٹ کا فرق تھا
اور آج بھی اتنی ہی فرق ہے جس سے اسلام آباد سمیت پورے ملک میں لوڈشیڈنگ
ہورہی ہے ۔ اسلام آباد میں اگر تین سے چار گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو ملک
کے باقی حصوں میں دس سے اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ بجلی پیداوار
کیلئے مختلف منصوبے شروع کیے گئے جس میں کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے بھی
شامل تھے لیکن وہ تمام منصوبے ناکام ہوئے سچ تو یہ بھی ہے کہ جن منصوبوں کا
افتتاح کیا گیا تھا ان میں اکثر نامکمل تھے اور آج بھی بند پڑے ہیں۔ نندی
پوری اور نیلم جہلم کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک طرف سسٹم میں گیارہ
ہزارہ میگاواٹ کے نعرے لگائے جارہے ہیں تو دوسری طرف شہباز شریف حکومت کے
آخری دن اور میاں نواز شریف نگران حکومت کے دوسرے دن لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار
نگران حکومت کوقرا ردے رہے ہیں ان باتوں سے حقیقت کا معلوم ہوتا ہے کہ
لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے سچ نہیں تھے جبکہ بجلی ریٹ میں ڈبل اضافہ کرایا
کیا ہے اور25سو روپے کے بل میں تو صرف 5سو روپے ٹیکس یہ غریب قوم ادا کررہی
ہے۔
نون لیگ حکومت نے بے روزگاری ختم کرنے کیلئے کوئی کام نہیں کیا جس سے پڑھے
لکھے نوجوانوں کو روزگار مل جائے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں سمیت کسی بھی
شعبے میں ایسا کام نہیں کرایا کیا جو ملک میں تبدیلی اور بہتر ی لائے۔لاہور
اور پنڈی میں میٹرو بسیں شروع کرائی لیکن ان سے ایک خاص علاقے کو فائدہ
پہنچ رہا ہے یعنی پانچ لاکھ لوگوں کیلئے 150ارب سے زیادہ خرچ ہوئے اور جس
پر ہر مہینے تیس کروڑ روپے حکومت کی جانب سے سبسڈی بھی دی جا رہی ہے۔اس طرح
لاہور میں 350ارب کا میٹرو ٹرین منصوبہ شروع کیاجس پر ناصرف ناقدین اعتراض
کرتے ہیں بلکہ ماہرین بھی اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ لاہور کی ترقی پر7سو
ارب روپے خرچ ہوئے لیکن باقی صوبے میں ہسپتالوں، اسکولوں سمیت سٹرکوں کا
بھی برا حال ہے۔صاف پانی تو اسلام آباد کیبپٹل میں دور کی بات ہے کہ لوگوں
کو عام پانی بھی نہیں مل رہاہے ٹینکرز سے پانی لانا پڑتا ہے۔ زیادہ تر
منصوبے لاہور میں شروع کیے جو مخصو ص افراد کے لئے بنائے گئے لیکن اس کا
قرض پورا ملک ادا کریں گا۔
نون لیگ حکومت کو سب سے زیادہ نقصان پناما لیکس نے پہنچایا جس میں میاں
نواز شریف نااہل ہوئے اور آج بھی احتساب عدالت میں کرپشن کے کیسز چل رہے
ہیں جس میں لندن پراپرٹی کے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔ کیس سے انداز ہ
ہوتا ہے کہ اس میں نواز شریف کو سزا ہوگی انہوں نے ابھی تک عدالت کو کوئی
ثبوت پیش نہیں کیا ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پناما انکشاف نے نواز شریف
کے سیاست کو ختم کرڈالاجس میں ان کی 22ممالک میں جائیدادوں کا انکشاف ہوا
تھا۔یہ سوالات اٹھائے گئے تھے کہ نواز شریف کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی
جس کا جواب تاحال معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
نون لیگ حکومت کے پانچ سالوں میں ڈالر سو روپے سے 120پر پہنچ کیا جس بیرونی
قرضوں میں مزید اضافہ بھی ہوااور ملک میں مہنگائی بھی بڑھی لیکن سیاسی طور
پر ان کا دور کوئی مثالی یا جمہوریت کیلئے بہتر ثابت نہ ہوا، انہوں نے
پارلیمنٹ کو کمز ور کیا جس طرح زرداری سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل
کیا کرتے تھے اس طرح ن لیگ حکومت نے نہیں کیا بلکہ مسائل کے حل کے لئے
سپریم کورٹ کی طرف رجوع کیا گیا یعنی زیادہ سیاسی مسائل کو سپریم کورٹ لے
جائے گیا۔آج پانچ سال بعد بھی الیکشن کانظام پہلے سے بدتر ہے جو ترامیم
انہوں نے الیکشن کیلئے کرائی اس سے الیکشن شفاف تو نہیں ہوں گے البتہ چور
،ڈاکوسمیت غیرملکی بھی الیکشن لڑ سکتا ہے الیکشن فارم میں امیدوار کے تمام
ریکارڈکو ختم کیاگیا جبکہ بیرونی ملک پاکستانی اس الیکشن میں بھی ووٹ کاحق
استعمال نہیں کرسکتے اور الیکشن بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے نہیں بلکہ پرانے
طریقے ہی سے کرایا جائے گا۔
نون حکومت کے ان پانچ برسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بھی زیادہ تر
خراب رہیں حالاں کہ ماضی کے برعکس راحیل شریف اور جنرل قمرباجو ہ زیادہ
جمہوری پسند ثابت ہوئے ۔ملک سے دہشت گردی ختم کرنے پر فوکس رہاجس کا کریڈٹ
ن لیگ حکومت لیتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا اعلان خود فوج نے
کیا ،نیشنل ایکشن پلان پر حکومت کی جانب سے اس طرح عمل نہیں ہوا جو ہونا
چاہیے تھا ۔ خارجہ پالیسی کا اندازہ اور اہمیت اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ چار سال تک وزیرخارجہ ہی نہیں تھا جو ملک کی دہشت گردی کے خلاف آپریشن
میں کی جانے والی کامیابیوں اور پاکستان کی قربانیوں کا عالمی سطح پر باآور
کراتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بے پناہ قربانیوں کے باوجود پاکستان کو ایک دہشت
گرد اور شدت پسند ملک کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے
لسٹ میں شامل کیا جانے کے پروگرام بنائے جارہے ہیں۔ رہی سہی کسر ڈان لیکس
اور میاں نواز شریف کے بیانات پورے کررہے ہیں ۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نون لیگ حکومت نے کسی بھی شعبے میں کوئی خاص
کامیابی حاصل نہیں کی البتہ اب بیڈ گورننس کی باتیں زرداری دور سے زیادہ
ہورہی ہے ۔ سی پیک کا کریڈٹ ن لیگ ضرور لیتی ہے اور اس میں ان کا حصہ بھی
زیادہ ہے لیکن یہ منصوبہ چین کا ہے جنہوں نے مشرف اور زرداری دور سے اس پر
کام شروع کیا تھا جبکہ ن لیگ حکومت نے پہلے والامنصوبہ بھی تبدیل کیا جس پر
بہت اعراضات بھی اٹھائیں گئے ، اس منصوبے میں چین پاکستان کی مدد نہیں بلکہ
قرض کی شکل میں کام کررہاہے جس میں زیادہ تر فائدہ چین کو ہورہاہے۔ پاکستان
میں نوکریاں ملے گی اب تک کوئی کام یا عمل یہ ثابت نہ کرسکا جس سے لوگوں کو
سی پیک میں نوکریاں ملی ہوالبتہ جس طرح انہوں نے عالمی بنکوں سے مہنگے قرضے
لیے ہیں اس طرح قرض نہیں ہے لیکن جاتے جاتے نون لیگ حکومت نے ملک کے قرضوں
میں آخری دن پانچ سو ارب کا اضافہ ضرورکرڈالا۔ جمہوریت کا نام ووٹ لینا صرف
نہیں ہوتا بلکہ عوام کے حقیقی مسائل کا ادارک کرنا بھی ہے جس میں پارلیمنٹ
سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔ جمہوری نظام میں وزیراعظم پارلیمنٹ کو جوابدے
ہوتا ہے جبکہ نون لیگ دور میں میاں نواز شریف پارلیمنٹ کم اور بیرونی دور
پر زیادہ گئے ہیں ۔
|