تمام خدشات ، اندیشوں اور وسوسوں کے ہونے کے باوجود ہم
ایک بار پھر سے جمہوری انتخاب کا طریقہ اپنانے کیلئے ایک نئی حکومت کا
انتخاب جمہوری انداز میں کرنے چلے ہیں ۔ ایسا ہماری سیاسی تاریخ میں بہت کم
کم ہوا ہے البتہ دوسری بار جمہوری حکومت کا آئینی مدت پوری کرنا اس بات کی
جانب واضح اشارہ ہے کہ ہم قدرے جمہوری ہوتے جارہے ہیں لیکن اس میں ہمارے
سیاست دانوں کے پست ہونے کا عالم بھی نمایاں نظر آرہا ہے کہ ہمارے یہاں
سیاست کرنے والے لوگ بنیادی طور پر خود اپنے لوگوں ہر اعتماد کرنے سے قاصر
ہیں ورنہ کیا اس بار بھی ضروری تھا کہ نگراں وزیر اعظم کیلئے کسی ریٹائر جج
کی خدمات حاصل کی جاتیں اور کیا یہ بھی عین ضروری تھا کہ صوبوں میں نگراں
وزرائے اعظم کیلئے مشاورت مشاورت کھیلنے کے بعد صرف سند ھ میں بیورو کریٹ
ہی وزیراعلیٰ بن سکتا اور دیگر میں یہ طے ہی پایا کہ ان کی برادری میں کوئی
بھی ایسا ایماندار فرد موجود نہیں جو اس ذمہ داری کو نبھا سکے۔فی زمانہ
ہمیں اس بات کا احساس کرلینا چاہئے کہ یہ صادق اور امین والا معاملہ واقعی
قابل غور ہے کہ کوئی بھی اس پر پورا اترتا دکھا ئی نہیں دیتا ، اسی تناظر
میں ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ ہم عوامی استصواب ِ رائے کے ذریعہ سے ایک
نئی حکومت کے انتخاب کا مرحلہ عبور کرنے جارہے ہیں ۔ 2013 سے 2018 مئی تک
ملکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو نون لیگ کی حکومت کو دہشت گردی اور
انتہا پسندی ، بجلی کی بے انتہا لوڈشیڈنگ اور بے روز گاری سمیت سیاسی محاذ
آرائی کا سامنا تھا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا بہت بہتر انداز میں ملک
سے خاتمہ ہوا اور فاٹا کا انضمام اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ایک پرامن ملک کے
شہری ہوچکے ہیں جس پر بے وجہ اور بے انتہا دہشت گردی کا لیبل لگ چکا تھااور
الحمداﷲ عنقریب ہمارے جوان اپنے افسران کے ساتھ مل کر اس سرزمین کو دہشت سے
مکمل پاک کردیں گے۔ نون لیگ کے نذدیک بجلی کی کمیابی کا مسئلہ اس کے بعد
اولین ترجیح تھی جبکہ بے روز گاری کا خاتمہ کئے بغیر اس کی سیاسی ساکھ
عوامی سطح پر بحال ہونا ناممکن تھی لیکن اسے دھرنوں ایسا گھیرا کہ 120دنوں
تک کا دھرنہ اس کے حلق میں ہڈی بن کر اٹک گیا اور تحریک انصاف والوں نے
حکومت کو ناکوں چنے چبوا ڈالے۔کرپشن اور بدعنوانی و اقربا پروری نے نون لیگ
کو داغ درا کردیا یہاں تک کہ پارٹی کی سربراہی کرنے والے تیسری بار
وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والے میاں نواز شریف نہ صرف وزیراعظم نہ رہے
بلکہ پارٹی صدارت بھی کرنے سے نااہل ہوگئے ۔
نون لیگ کے پانچ سالہ دور میں بے روزگاری کا خاتمہ نہ ہوسکا بلکہ اس کی شرح
میں مزید 6فیصد کا اضافہ ہوگیا ، عوامی فلاح کے نام پر کی جانے والی حکومت
نے عوام پر مزید مہنگائی کا 200فیصد تک کا مزید بوجھ ڈال دیا۔ اندرونی اور
بیرونی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ پانچ برس میں بجٹ
خسارہ بڑھتے بڑھتے3 0 بیلین ڈالر ہوااور ڈالر 98روپے سے 120 تک جاپہنچا۔
پچھلے پانچ برس میں حکومتی کارکردی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
پورے عرصہ میں پاکستانی معیشت عدم استحکام کا شکار رہی ، غیر ملکی قرضوں کی
مالیت میں 50فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد غیر ملکی قرضوں کی مجموعی
مالیت 91 ارب 80کروڑڈالر کو چھو گئی۔اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ معاشی عدم
استحکام کا بوجھ اگلی حکومت کیلئے منتظر ہے اور یہ اس کیلئے دیگر کئی
چیلنجزمیں سب سے بڑااور اہمیت کا حامل ہوگا ۔خیال کیا جارہا ہے کہ روپے کی
قدر میں مزید کمی ہوسکتی جس سے درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے قرضوں
پر انحصار کرنا پڑے گا ۔ نون لیگ نے اپنی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بے
تحاشہ درآمدات کا سلسلہ جاری رہا جس نے برآمدات کو بڑھنے نہیں دیا اور یہی
سبب توازن ادائیگی بھی متاثر ہوئی ۔آنے والی حکومت کو برآمدات میں اضافے کے
ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کی جانب موثر توجہ دینی ہوگی اور معاشی طور
پر سازگار پالیسیاں بنانا گزیر ہوگا ۔سرکاری اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ جب
نون لیگ نے حکومت سنبھالی تھی تو اس وقت غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی
مالیت 60ارب 90کروڑ ڈالر تھی جو مارچ 2018کے اختتام تک 91ار ب90کروڑ ڈالر
تک جاپہنچی ہے اس طرح سے نون لیگ کے حکومتی دور میں غیر ملکی قرضوں کا بوجھ
31ارب ڈالر کے لگ بھگ اضافہ ہوا جو پاکستان کی معاشی تاریخ میں کسی بھی ایک
حکومتی دور میں ایک نیا ریکارڈ ہے ۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومت کے آغاز پر زرمبادلہ کی مجموعی مالیت
11ارب ڈالر تھیجس میں سرکاری ذخائر کی مالیت چھ ارب ڈالر ارب کمرشل بینکوں
کے مالیاتی ذخائر پانچ ارب ڈالرتھے۔ حکومت کی جانب سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں
بانڈز کی نیلامی کے ذریعہ حاصل کردہ قرضوں سے زرمبادلہ کے ذخائر 2016میں
24ارب ڈالر کی تاریخی بلندترین سطح تک پہنچ گئے لیکن غیر ملکی سرمایہ کاری
میں کمی ،غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی، برآمدات میں تنزلی اور درآمدات میں
غیر معمولی اضافے کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار رہے اور مئی
2018 میں 7ارب30کرو ڑ ڈالر کی کمی کے بعد مجموعی طور پر ذخائر 16ارب 65
کروڑڈالر کی سطح پر آگئے جن میں سرکاری ذخائر کی مالیت10ارب32کروڑدالر اور
کمرشل بینکوں کے ذخائر 6ارب33کروڑڈالر ریکارڈ کئے گئے ۔نون لیگ کے دور
حکومت میں پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کارو ں نے 16ارب 32کروڑڈالر کی
سرمایہ کاری کی لیکن اس میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 9ارب
97کروڑڈالر رہی حالانکہ اس سے قبل پی پی پی کی حکومت میں غیرملکی سرمایہ
کاری 9 ارب ڈالر تھی۔
2018 مئی میں آئینی مدت پوری کرنے والی نون لیگ کی حکومت میں پاکستان کو
بیرونی تجارت میں 105ارب ڈالر کا خسارہ ہوا، حکومت میں شامل ماہرین ِمعاشیات
برآمدات نہ بڑھاسکے جس کے بنیادی اسباب توانائی کا بحران، بلند پیداواری
لاگت اور پاکستانی برآمدی شعبے کی مسابقتی صلاحیت میں کمی رہے۔نون لیگ کے
دور میں روپے کی قدر میں مسلسل کا سامنا رہا ، توانائی کے بحران مطلب بجلی
کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ حکومت کا ایجنڈے کے کا اہم نقطہ تھا اور تمام تر وقت
میں یہی کہا جاتا رہا کہ حکومت کے اختتام ہونے قبل ملک میں بجلی کی
پیداواری اس قدر برھ جائے گی کہ پاکستان میں کسی قسم کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی
گویا لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوجائے گاطلب سے زائد رسد کی فراہمی محسوس کی
جائے گی لیکن ہو اس کے برعکس جب حکومت اپنا وقت مکمل کررہی تھی اس وقت ملک
کے طول و عرض میں گرمی اپنے عروج پر تھی اور بجلی کی عدم فراہمی کا معاملہ
اس کا بھرپور ساتھ دے رہا تھا اور آج بھی صورتحال یہ ہے کہ 10 سے 14 گھنٹے
کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ، احتساب عدالت کے باہر 4جون کو میاں نواز شریف سے
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں کہا کہ ہماری حکومت کے
آخری دن تک طلب سے زیادہ رسد مجود تھی ، اب جو صورتحال ہے اس کے ذمہ دار ہم
نہیں ہیں ، شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف نے کئی منصوبوں کای افتتاح کیا
جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے اپنے حصہ کا کام پورا کیا اب جو کچھ ہو رہا
اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔میاں نواز شریف کا یہ بیان غیر متوقع نہیں کیونکہ
سیاسی مبصرین بہت پہلے اس کینشاندہی کرچکے ہیں کہ نون لیگ کی حکومت اس قسم
کے بیانات دے گی۔یہ وہ مسائل ہیں جن کا اگلی آنے والی حکومت کو کرنا ہے ۔
سابق ہونے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے آخری بیان میں فرماتے ہوئے
کہہ گئے کہ ہماری پانچ برس کی کارگردگی ہماری کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے
، ہم نے ملک میں منہگائی کو 7.75سے کم کرکے 3.77تک کردی ، ترسیلات زر کی مد
40فیصد اضافہ ہوا، صنعتی ترقی 5فیصد بڑھی، زر مبادلہ 16.23ارب ڈالر
ہوگیاجبکہ شرح سود کو 6.5 فیصد کی شرح پر لے آئے ۔ حکومت کو دھرنوں اور
پاناما کی وجہ سے موائل کا سامنا رہا ہے جس سے ملکی معیشت متاثر ہوئی اور
گروتھ کے حاصل کرنے کیلئے قرضوں کا سہارا لیا گیا اس کے بغیر گروتھ ممکن
نہیں تھی۔
عجیب حالات ہیں اور عجیب حکمران ہیں ، حکومت کی بھاگ سنبھالتے ہوئے دعوے
کئے گئے تھے کہ کشکول توڑ دیا جائے گا مگر ہوا مختلف کشکول توڑا نہیں گیا
بلکہ اس کو توسیع دی گئی ۔ پورے پانچ برس کھیل تماشوں میں گزارنے والی
حکومت نے سوائے اقتدار بچانے کے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا اور ہر بار
عوامی مسائل کے حل میں حیلے بہانوں کا سہارا لیا گیا اور آخر میں دامن
جھاڑتے ہوئے کہا گیا کہ بغیر قرضے کے گروتھ کہاں ممکن ہے ۔ 2018کا عام
انتخابات کا اعلان ہوگیا ہے ، سیاسی تجزیہ کاروں کو کوئی جماعت بھی آئندہ
تنہا حکومت بناتے ہوئے نظر نہیں آرہی ، نتائج ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں
لائیں گے یعنی اگلی حکومت مخلوط بنتی نظر آرہی ہے ۔ اس تمام تر صورتحال میں
ملکی ترقی و خوشحالی داؤ پر پھر سے لگتے محسوس ہورہی ہے اور ترقی کا واحد
سہارا سی پیک ہی دکھائی دے رہا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ خدانخواستہ پم
اپنا ملک بادی النظر میں چین کو ٹھیکے پر دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔
|