کشن گنگا منصوبہ،خطرہ کی گھنٹی۔۔۔۔(2)

پاکستان کو بوند بوند پانی کے لئے تڑپانے کی دھمکیوں کے دوران کشن گنگا پروجیکٹ پرعالمی ثالثی عدالت کے فیصلے سے پاکستان کو کوئی ریلیف نہملا۔بھارت کی جانب سے دریا ؤں کا رخ موڑنے اور ڈیم کی تعمیر سے جہلم اور چناب کی طرح نیلم میں بھی آنے والا پانی کم ہو جائے گا۔نیلم جہلم پروجیکٹ پر بھی اس کے منفی اثرات پڑیں گے۔ آزاد کشمیر میں نیلم جہلم پروجیکٹشروع ہو چکا ہے۔ یہ کام تین اہم مقامات پر چین کی کمپنیوں کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ نوسیری، مجہوئی اور اپر چھتر۔ نوسیری سے دریائے نیلم کا رخ موڑ دیا گیا۔ یہاں سے ایک نہر کی کھدائی ہوئی۔ نہر ایک ٹنل سے گزری۔اسی طرح مجہوئی سے بھی دریائے جہلم کا رخ موڑ کر پانی ایک ٹنل میں ڈالدی گئی۔ دریائے نیلم کی ٹنل دریائے جہلم کے 100فٹ سے بھی زیادہ نیچے سے گزاری۔ دونوں سرنگوں کا سنگھم ہوا۔ اور اسے اپر چھتر سے سیکڑوں فٹ کی بلندی سے گرایا گیا۔چھتر کلاس کے مقام پر ایک بجلی گھر بنا۔اگر بھارت نے دریائے نیلم کا پانی روک لیا۔ یا اگر دریائے جہلم کا پانی جھیل وولر میں ڈال کر بیراج تعمیر کی گئی تونہ صرف نیلم جہلم پروجیکٹ اور منگلا پر منفی اثر پڑے گا بلکہ ان دریاؤں کے خشک ہونے سے آزاد کشمیر اور پاکستان کا آبپاشینظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ جس کاان دریاؤں پر انحصار ہے۔ نیز آبی زندگی بھی منجمد ہو جائے گی۔ نیلم جہلم منصوبے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جنرل (ر)زبیر احمد کے مطابق کشن گنگا منصوبہ نہ صرف نیلم جہلم پروجیکٹ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ اس سے بجلی کی پیداوار میں بھی کمی ہو گی۔ نیلم میں پانی کی آمد میں 10سے30فی صد کمی ہوگی۔ بجلی کی پیداوار میں بھی 10فی صد کمی ہو جائے گی، جس سے سا لانہ تقریباً15کروڑ ڈالر نقصان کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان کے سپیشل اسسٹنٹ کمال مجید اﷲ عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان کے ایجنٹ بنائے گئے۔ انہیں پانی کے عالمی معاملات کے بارے میں کوئی تجربہ نہ تھا۔ پاکستان متاثرہ پارٹی بن کر دی ہیگ گیا تھا۔تفصیلی فیصلے کا بہکاوا دیا گیا۔ تب تک بھارت نے پروجیکٹ مکمل کر لیا۔ اس پر عائد پابندی عالمی عدالت نے ہٹا لی۔ بھارت نے فوری طور پر کام شروعکیا۔

کشن گنگا پروجیکٹ سوپور سے ملحقہ ہے۔ سوپور ایک گزرگاہ ہے۔ اس چوراہے سے سرینگر،بارہمولہ، کپواڑہ، بانڈی پورہ ، ہندواڑہ کے راستے نکلتے ہیں۔ دریائے جہلم پر اوڑی پروجیکٹ بنا۔ اس کے کئی فیز مکمل ہوئے۔ یہاں بھارت نے ڈیم بھی بنایا۔ 10کلو میٹر لمبی سرنگ بھی تعمیر کی۔ دریائے جہلم کا پانی اس سرنگ سے نکال کر بجلی گھر تک لایا گیا۔ پاکستان نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی۔ یہ بجلی گھر جنگ بندی لائن کے بالکل قریب ہے۔ چکوٹھی یہاں سے زیادہ دور نہیں۔ اوڑی پروجیکٹ کی فنڈنگ سویڈش اور برطانوی حکومتوں نے کی۔ دلچسپ بات ہے کہ جب سویڈش فرم سکنسکا( Skanska) اس پروجیکٹ پر کام کر رہی تھی تو یہی فرم آزاد کشمیر کے وادی نیلم میں کٹن جاگراں بجلی گھر تعمیر کر رہی تھی۔جاگراں نالے کا معلق پل ٹوٹنے سے گزشتہ دنوں کئی معصوم جانیں تلف ہوئیں۔ اوڑی سول پر کام 1989میں شروع ہوا۔ 480میگاواٹ کے اس پروجیکٹ کو 1997میں مکمل کر لیا گیا۔ اس کے دوسرے فیز کو 2011میں مکمل کیا گیا۔ اس سے 240میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے دو فیز سے 720میگا واٹ بجلی ناردرن گرڈ آف انڈیاکو دی جاتی ہے۔ کشمیر اس سے مستفید نہیں ہوتا۔ اسی طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سلال پروجیکٹ کے دو فیز 1996میں مکمل کئے۔ جن سے 700میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔400میگاواٹ کے ڈل ہستی کو 2007میں چالو کیا۔ 2011میں 45میگاواٹ کے نیمو بازگو، 44میگاواٹ کے چوٹک بجلی گھر کی تعمیر مکمل کی۔دریائے راوی کے معاون دریا سیوا پر 255میگاواٹ کے دو بجلی گھر تعمیر کئے۔دریائے چناب پر 900میگاواٹ کے دو بجلی گھر تعمیر کئے۔ بگلیہار پر واقع ان منصوبوں کو 2008میں مکمل کیا گیا۔ یہ تمام پروجیکٹ مقبوضہ کشمیر میں واقع ہیں۔ ان کی بجلی پورے شمالی بھارت کو سپلائی ہوتی ہے۔ لیکن کشمیر اس سے محروم ہے۔ پاکستان نے خاموش رہ کر بھارت کو دریاؤں کا رخ بدلنے اور ڈیم تعمیر کرنے کی ا جازت دی۔ اس وقت شور مچایا گیا جب اس کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ یہ غفلت میں سب پارٹیاں یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف بھی شریک ہیں۔کشن گنگا ڈیم سے قبل پاکستان نے بگلیہار ڈیم پر بھی اعتراض کیا۔ لیکن اس میں تاخیر کی گئی۔ بھارت نے دریائے چناب کا پانی روک کر 144میٹر اونچا اور 317میٹر چوڑا ڈیم تعمیر کیا۔پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا۔ اس نے سوئس سول انجینئر پروفیسر ریمنڈ لیفٹے کو ثالث مقرر کیا لیکن ، پاکستا ن اپنے حق میں فیصلہ کرانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اب یہی حال عالمی ثالثی عدالت کا ہے۔ چیئر مین سٹیفن ایم شیویبیل(جج) کا تعلق امریکہ سے ہے۔وہ عالمی عدالت انصاف کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ان کی سر براہی میں یہ عدالت سات ارکان پر مشتمل تھی۔ پروفیسر ہاورڈ ایس وھیٹر فرینگ(بر طانیہ)، سر فرینکلن برمن کے سی ایم جی کیو سی(برطانیہ)، برونو سیما(جج)(جرمنی)، پیٹر ٹومکا(جج)(سلواکیہ)، پروفیسر لوسیس کیفلیش(سویٹزر لینڈ)، پروفیسر جان پال سن(سویڈن)۔پاکستان کا عالمی ثالثی عدالت سے رجوع سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں تھا۔ اس معاہدے کے آرٹیکل 9کے مطابق دونوں ممالک کسی بھی تنازعہ یا اختلاف کو سندھ طاس کمیشن کی مدد سے حل کریں گے۔ اگر کمیشن کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو غیر جانبدار ماہر کا تقرر کیا جائے۔ یا ثالثی عدالت تشکیل دی جائے گی۔پاکستان کا اعتراض دریائے نیلم کو بونر، مدھومتی نالہ میں ڈالنے اور مغربی دریاؤں کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے سے متعلق تھا۔ پاکستان نے ڈیم میں پانی جمع کرنے کی بھی مخالفت کی۔پاکستان نے عدالت کے لئے دو جج مقرر کئے۔ بھارت نے بھی دو جج مقرر کئے۔ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو عدالت کا چیئر مین مقرر کرنے کی درخواست کی۔ امپیریل کالج لندن کے ریکٹر سے انجینئر ممبر اور لارڈ چیف جسٹس انگلینڈ سے لیگل ممبر مقرر کرنے کی گزارش کی گئی۔ عدالت نے عالمی مستقل ثالثی عدالت کے لیگل کونسل الوئی سیوس لیمزون کو رجسٹرار اور ڈپٹی سکریٹری جنرل بروکس ڈیلی کو خزانچی مقرر کیا۔ پہلے ہی اجلاس میں عدالت کو بند کمرہ عدالت بنا دیا گیا۔ جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کھلی عدالت ہوتی۔ ان کیمرہ کارروائی پاکستان کی رضامندی سے ہوئی۔ 7اگست2012کو پاکستان نے ای میل کے زریعے عدالت کو بتایا کہ کارروائی کو بند کمرے میں انجام دیا جائے۔پاکستان کی جانب سے عدالت کے تمام ممبران کی جانب سے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں نیلم جہلم اور کشن گنگا پرجیکٹس کے معائینہ کے بعد پریس بیان جاری کرنے سے باز رکھا گیا۔ عدالت کے ارکان نے دونوں منصوبوں کا معائینہ کیا۔ لیکن اس بارے میں میڈیا کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ پاکستان نے عدالت کو اس سلسلے میں بیان جاری کرنے سے بھی منع کیا۔ اس کا اعتراف عدالت کے جزوی فیصلے میں بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان نے فن لینڈ اور ڈنمارک کے درمیان گریٹ بیلٹ کیس کا بھی شاید مطالعہ نہیں کیا۔ وہاں فریقین نے حقائق نہیں چھپائے ۔ جبکہ بھارت نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923کی آڑ میں Annex IN-54 کی تفصیلات عدالت کو نہ بتائیں۔ حقائق کو چھپا لیا۔ بھارتی فریب کو پاکستانی حکام عدالت کے سامنے پیش یا ارکان کو قائل نہ کر سکے۔ پاکستان نے کشن گنگا پروجیکٹ کے ماحولیات پر منفی اثرات اور مقبوضہ کشمیر کے کئی دیہات پر زبردستی قبضے کا معاملہ بھی عدالت کے سامنے پیش نہ کیا۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556959 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More