اگر متحد ہیں تو کسی بھی ناقابل تسخیر کو مسخر کرسکتے
ہیں،کامیابی حاصل کرسکتے ہیں،مضبوط آہنی دیوار کو منہدم کرسکتے ہیں، جھوٹ
اور ملمع سازی کوبے نقاب کرسکتے ہیں اور یہ اترپردیش کے کیرانہ لوک سبھا کے
ضمنی انتخاب میں ثابت ہوگیا ہے۔ متحد ہوکر میدان میں اترے تو بی جے پی کو
شکست کو اے وی ایم بھی نہیں بچاسکی۔ جو لوگ ہندوستان میں ای وی ایم کی
سچائی پر ایمان رکھتے ہیں وہ شوق سے رکھیں لیکن اس کے بارے میں بھی سوچیں
کہ ترقی یافتہ ممالک جن میں سپر پاورامریکہ بھی شامل ہے، انہوں نے ای وی
ایم کو آخر رد ی کی ٹوکری میں کیوں ڈال دیا۔ کوئی توجہ ہوگی جب کہ جمہوریت
کے بانیوں میں سے ایک ہونے کا دعوی کرنے والے اور طرز جمہوریت بخشنے والا
برطانیہ نے کبھی ای وی ایم کواپنایا ہی نہیں۔ ایٹمی طاقت کاحامل فرانس میں
بھی کبھی ای وی ایم کا استعمال نہیں ہوا۔ تو آخر ہندوستان تیکنالوجی میں
کون سا تیس مار خاں ہے جو ای وی ایم مصر اور بضد ہے۔ جب کہ یہاں ہر چیز
ادھار کی ہے۔ ای وی ایم بھی باہر سے بن کر آتا ہے۔جہاں بے ایمانی انسانی
خون کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ بے ایمانی کے طریقے پچپن سے ہی سکھائے جاتے ہیں،
قانون کو توڑنا قابل فخر کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں عام لوگ سے زیادہ
حکمراں پارٹی کے اراکین زیادہ شامل ہیں۔ ایسی صورت میں ای وی ایم پر بھروسہ
کیسے کیا جاسکتا ہے۔خاص طور پر اس صورت میں جب الیکشن کمیشن کسی خاص پارٹی
کا غلام بن جائے،جمہوری ادارے حکمراں پارٹی کی چمچہ گیری میں زمین آسمان
ایک کردے۔ حکمراں پارٹی کے مفاد کو پورا کرنے کے لئے تمام ایجنسیاں حکم کا
غلام اور اردلی بن جائے تو ای وی ایم کیا چیز ہے اور اس کوچلانے والے ہی جب
مودی کو بھگوان ماننے لگیں تو انصاف اور جانبداری کی امید رکھنا بے معنی
اور احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔یہ سب چیزیں کرنا اور بھی اس وقت
آسان ہوجاتا ہے جب مد مقابل کے صفوں میں انتشارہوں، افتراق اور بات بات
پرلڑنا جھگڑنا عام ہو۔ بی جے پی نے ہمیشہ اسی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ سیکولر
صفوں میں پھوٹ ہی بی جے پی کی طاقت ہے۔ بی جے پی کو شکست دینا ہے تو اتحاد
کا مظاہرہ کرنا ہی ہوگا۔ اگر اتحاد ہے تو بی جے پی ای کو نہ ہی ای وی ایم
جتاسکتی ہے ، نہ ہی ہندو مسلم کے نام پر ووٹوں کی صف بندی ، نہ ہی جناح کی
تصویر اور نہ ہی گائے گوبر اور نہ پاکستان میں پٹاخے چلنے کی بات ہی بی جے
پی کو فتحیاب کرسکتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کیرانہ لوک سبھا سیٹ اور
نورپور اسمبلی سیٹ جیتنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ کیرانہ سے نقل مکانی کے
مفروضہ موضوع کو پھر سے اٹھایا، ہندوؤں کو مسلمانوں کے نام پر اکٹھاکرنے کی
کو بھرپور کوشش کی ۔ یوگی کو اپنے وزرائے اور اراکین اسمبلی کے ساتھ کیمپ
کرنا پڑا،مرکزی وزرائے کو’ کھٹے‘ گاڑنے پڑے، ہمارے پردھان سیوک کو رڈ شو
کرنا پڑا اور پولنگ سے ایک دن قبل کیرانہ کے بغل میں ریلی کرنی پڑی اور اس
میں کسانوں کو سبز باغ دکھائے لیکن اتحاد کے سامنے بی جے پی کی محنت اور
مودی یوگی کاڈراما کچھکام نہ آیا۔بی جے پی نے تو اسے ہندوؤں کی ہارتک قرار
دے دیا۔ مظفر نگر شاملی فساد کی کھیتی پر اقتدار میں آنے والے مودی اور
یوگی کو اس بار جاٹ نے بھی کافی مایوس کیا۔جاٹ میں پھوٹ ڈال کر ہی بی جے پی
نے 2014کا لوک سبھا میں الیکشن مغربی اترپردیش میں جیتا تھااور اسی انتشار
کافائدہ یوپی اسمبلی انتخاب میں بھی بی جے پی نے اٹھایا۔جاٹوں کی تقسیم کے
بل پر بی جے پی نے اس علاقے میں کامیابی حاصل کی تھی اور اس وقت چودھری چرن
سنگھ کے وارث اجیت سنگھ نے اس تقٖسیم کو ہونے دیا تھا جب کہ انہیں یہ معلوم
تھا کہ جاٹ اتحاد ہی ان کی اصل طاقت ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باپ بیٹے
دونوں ہی لوک سبھا انتخابات ہارگئے۔
اس الیکشن کی خاص بات یہ رہی ہے کہ جاٹ طبقہ کسی طرح کے بی جے پی کے فریب
میں نہیں آیا۔بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ وہ مسلم بھائیوں کے لئے
قربانی دینا چاہتے ہوں اور ان کو مظفر فسادات کا پچھتاوا تھا۔ اس لئے ان
لوگوں نے رمضان میں پولنگ ہونے کی وجہ سے صبح پولنگ بوتھ خالی کردئے تھے
تاکہ روزہ دار مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔بی جے پی
چاہتی تو کرناٹک اسمبلی کے ساتھ کیرانہ کا ضمنی انتخاب کرواسکتی تھی لیکن
اس نے ایسانہیں کیا بلکہ جان بوجھ رمضان کے مہینے کا انتخاب کیا۔ اس کو
معلوم تھاکہ رمضان میں مسلمان اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے اور
ووٹ ڈالنے کے لئے سارے مسلمان نہیں نکلیں گے جس کافائدہ بی جے پی کو ہوگا
لیکن بی جے پی کی یہ حکمت عملی بھی کام نہ آئی۔ اپوزیشن اتحاد اس پر پوری
متحد اور مستعد تھا۔ای وی ایم میں گڑبڑی کے خلاف ان لوگوں نے جم کر مخالفت
کی اورنتائج نکلنے تک مستعد رہے اور نتائج کے بعد وہ جس طرح مستعد رہے اور
بیان دیا ان کی سمجھ کی عکاس ہوتی تھی۔ انہوں نے یہ سمجھ لیاہے کہ بی جے پی
صرف لالی پاپ دکھاکر ہندو مسلم دنگا کرواسکتی ہے لیکن زمینی سطح پر کوئی
کام نہیں کرسکتی۔بی جے پی نے اس میں․ ہندو مسلم موضوع کو ہوا دینے کی
بھرپورناکام کوشش کی اور اس سے جتنے بھی داؤ ہوسکتے تھے سب کھیلا، سام،
دام،ڈنڈ ، بھید کو بھی اپنایا لیکن اتحاد کے بی جے پی کے سارے وار خالی گئے۔
چار لوک سبھا اور 11 اسمبلی کی نشستوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے 2019 کے عام انتخابات سے پہلے ایک بڑا دھچکا ہے،
جبکہ یہ حزب اختلاف کے اتحاد کی علامت ہے۔ بی جے پی کو دو لوک سبھا کی
نشستیں کھو نی پڑی اور وہ ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔اترپردیش میں
کیرانہ لوک سبھا اور نورپر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو سخت جھٹکا
لگا ہے۔ کیرانہ لوک سبھا سیٹ پر راشٹریہ لوک دل کی امیدوار تبسم حسن نے بی
جے پی امیدوار مرگانکا سنگھ کو 46،618 ووٹوں سے شکست دی۔ نورپور اسمبلی سیٹ
پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے نعیم الحسن نے بی جے پی کی اونی سنگھ کو
5678 ووٹوں سے شکست دی۔نعیم الحسن کو اس سیٹ پر کانگریس کے ساتھ بی ایس پی،
عام آدمی پارٹی، راشٹریہ لوک دل اور بائیں کی حمایت حاصل تھی۔گورکھپور اور
پھول پور لوک سبھا سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات کے بعد کیرانہ اور نورپور
سیٹوں پر بی جے پی کو ملنے والی شکست کو 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش
نظر پارٹی کے لئے بڑا دھچکا مانا جا رہا ہے۔ آر ایل ڈی کے امیدواروں نے
481182 ووٹ حاصل کیے اور بی جے پی کے امیدواروں نے 436564 ووٹ حاصل
کیے۔کیرانہ سے بی جے پی نے سابق ایم پی حکم سنگھ کی بیٹی مرگانکا سنگھ کو
انتخابی میدان میں اتارا تھا، وہیں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے راشٹریہ لوک
دل (آر ایل ڈی) کی تبسم منور حسن میدان میں تھیں۔کیرانہ لوک سبھا ضمنی
الیکشن میں فتح حاصل کرنے والی راشٹریہ لوک دل کی امیدوار تبسم حسن نے کہا
کہ سال2019میں ہونے والے لوک سبھا کے الیکشن میں ریاست سے بی جے پی کا پتہ
صاف ہوجائے گا۔ اس الیکشن میں اپنی کامیابی کا سہرا چودھری چرن سنگھ کی
پالیسیوں او ر راشٹریہ لوک دل کے صدر اجیت سنگھ اور جینت چودھری کو دیا۔اس
الیکشن میں بی جے پی کی شکست اس پارٹی کے زوال کا آغاز ثابت ہوگا۔میابی کے
لئے کیرانہ کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن اور پولنگ کے
دوران بی جے پی نے فرقہ پرستی پھیلانے کی سیاست کی اور لوگوں کے دلوں میں
نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے ہندو مسلم کے
درمیان پیدا ہوئی تلخی کو دور کرنے کی کوشش کریں گی اور بھائی چارہ کا
ماحول بنائیں گی۔ مرگانکاسنگھ نے تبسم حسن کو مبارک باد دیتے ہوئے اور
مضبوط اپوزیشن کا اعتراف کیا۔ اسی طرح بہار کے ارریہ ضلع میں جوکی ہاٹ
اسمبلی سیٹ کے ضمنی انتخابات میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے امیدوار
شاہنواز عالم نے شاندار جیت حاصل کی ۔ شاہنواز عالم نے جنتا دل یونائٹیڈ(جے
ڈی یو) کے امیدوار مرشد عالم کو 41 ہزار 224 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ آر
جے ڈی کے امیدوار کو 81240 اور جے ڈی یو امیدوار کو 40016 ووٹ ملے ہیں۔ آر
جے ڈی نے یہ سیٹ جے ڈی یو سے چھین لی ہے۔۔قابل ذکر ہے کہ سال 2015 کے
اسمبلی انتخابات میں جوکی ہاٹ سیٹ جے ڈی یو کے امیدوار اور شاہنواز عالم کے
بڑے بھائی سرفراز عالم نے جیتی تھی لیکن ، ان کے والد اور رکن پارلیمنٹ
محمد تسلیم الدین کے انتقال سے ارریہ لوک سبھا سیٹ خالی ہونے کے بعد سرفراز
عالم نے جے ڈی یو ایم ایل اے کے عہدے سے استعفی دے کر آر جے ڈی کے ٹکٹ پر
ضمنی انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ سرفراز عالم کے استعفیکی وجہ سے جوکی ہاٹ
اسمبلی سیٹ خالی ہوئی تھی۔
جھارکھنڈکے ضلع بوکاروکے گومیااسمبلی نشست کیلئے ضمنی انتخاب میں
جھارکھنڈمکتی مورچہ(جیایم ایم)کی امیدوارببیتادیوی نے آل جھارکھنڈاسٹوڈنٹس
یونین (آجسو) امیدوارلنبودرمہتو کو 1344ووٹوں سے شکست دی ۔ محترمہ
ببیتادیوی نے60551ووٹ حاصل کراس نشست پرجے ایم ایم کا قبضے
کوبرقراررکھا۔آجسوامیدوارکو59207ووٹ ملے۔بی جے پی کے امیدوارمادھولال
سنگھ42037ووٹ لیکرتیسرے مقام پررہے۔ راجدھانی رانچی کے سلی اسمبلی نشست کے
ضمنی انتخاب میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ(جے ایم ایم)کی امیدوارسیمادیوی نے آل
جھارکھنڈاسٹوڈنٹس یونین (آجسو) کے صدر اور امیدوار سدیش مہتو کو 13510
ووٹوں سیشکست دی ۔محترمہ سیماکو77129ووٹ ملے۔وہیں مسٹرسدیش مہتوکی جھولی
میں 63619ووٹ گئے۔مہیش تلہ سے ترنمول کانگریس کے امیدورا اور مہیش تلہ
میونسپلٹی کے چیرمین دولال داس نے کامیابی حاصل کی ۔ انہوں نے اپنے قریبی
حریف بی جے پی کے امیدوار سجیت گھوش کو 62324ووٹوں سے ہرایا۔ ترنمول
کانگریس نے 2016میں اس سیٹ پر فتح حاصل کی تھی۔ راجندر گاوت کانگریس چھوڑ
کر حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور شری نواس چنتامن ونگا بی جے
پی چھوڑ کر شیوسینا میں۔بی جے پی کے سابق رکن پارلیمانی چنتامن ونگا کا
30جنوری کو انتقال ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس سیٹ پر 28مئی کو الیکشن کرایا
گیا تھا۔مسٹر چنتامن ونگا کے بیٹے شری نواس ونگا کو بی جے پی نے ٹکٹ نہیں
دیا جس کی وجہ سے شیوسینا میں شامل ہوگئے تھے اور شیو سینا نے انہیں
اپناامیدوار بنایا تھا۔ بی جے پی کے امیدوار راجندر گاوت کو 272780اور شیو
سینا کے شری نواس کو 243206ووٹ ملے جبکہ بی وی اے پارٹی کے امیدوار کو
222837ووٹ ملے۔مہاراشٹر کی بھنڈارا۔ گوندیا لوک سبھا سیٹ پر نیشنلسٹ
کانگریس پارٹی (این سی پی) کے مدھوکر ککڑے نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)
کے ہیمنت پٹولے کو 20,583ووٹوں سے شکست دے دی۔بی جے پی کے نانا پٹولے کے
پارٹی اور لوک سبھا کی رکنیت سے استعفی دینے کے بعد ضمنی الیکشن کرایا گیا۔
بی جے پی کی بوکھلاہٹ سے واضح ہے کہ 2019اس آسان نہیں ہے۔ ملک کے عوام
معلوم ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں ہندومسلم کے درمیان نفرت کی بیج بونے کے
علاوہ کچھ نہیں کیا ہے۔ تمام غیر ملکی ایجنسیوں ہندوستان کو ہر معاملے پست
دکھایا ہے۔ اس سے بڑھ کے ہندوستان کے لئے بے عزتی کیا ہوگی کہ ترقی پذیرملک
کا رتبہ چھن گیاہے اوروہ نیپال اور بنگلہ دیش جیسے چھوٹے ملکوں سے بھی اس
معاملے میں پچھڑ گیا ہے۔ہندوستان کی معاشی، تعلیمی،سیاسی اورسماجی حالت
بدتر ہوگئی ہے ،سرمایہ دار ملک چھوڑکر جارہے ہیں۔ بدامنی کا دور دورہ ہے۔
اس کے باوجود بھی 2019میں مودی کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ملک کی بدنصیبی ہوگی
اور ہندوستان اپنی ناکامی تاریخ خود لکھے گا۔
|