ہوئے دشمن سے رو برو، تو یہ جانا ہے زندگی اک نعمت
ہے، اک خزانہ ہے
یہ ملک جس میں ہم رہتے ہیں ،سانس لیتے ہیں ،تعلقات استوار کرتے ہیں ،اپنی
اپنی مذہبی رسومات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں یہ ہمارے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے
۔اس ملک اور آزاد ریاست پاکستان کا اتنی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد ملنا
کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں ہے اور اس کی بقا ء و حفاظت میں نوجوانوں ،
بوڑھوں ، عورتوں ، اور بچوں نے جو قربانیاں دیں تاریخ میں ان کی بھی مثال
نہیں ملتی ۔مملکتِ پاکستان قدرتی ذخائر و وسائل سے مالا مال ہے اور اپنی
ترقی اور کامیابی میں کسی کا مختاج نہیں ۔یہ ملک اپنے تمام وسائل کو بروئے
کار لا کر اپنے تمام مسائل کا حل خود نکال سکتا ہے ۔اسے کسی کی طرف دیکھنے
کی ضرورت نہیں ،لیکن پھر بھی یہ ملک اپنے تمام معاملات کو حل کرنے کیلئے
دوسرے ممالک کی طرف کیوں دیکھتا ہے ؟کیوں یہ دوسروں کی امداد ا و ر قرضوں
کا مختاج ہے؟کیوں یہ اپنے اندرونی معاملات میں بیرونی ممالک کو بولنے کی
اجاذت دیتا ہے؟کیوں ملک کا انصاف اعتدال کے راستوں پر نہیں ہے ؟کیوں غریب
ہر جگہ پستا ہے اور امیر بازی لے جاتاہے ؟البتہ معاملہ جو بھی ہو بات محض
قیادت و جماعت بازی کی ہے جو اتنی قدرتی نعمتیں موجود ہونے کے باوجود بھی
ملک میں فلاح و ترقی نام کی کوئی چیزہی نہیں اور نہ ہی انصاف کا معیار قائم
ہے۔
چاہوں تو سو بار جی لوں اس جہاں میں چاہوں تو مرنا کو اک گھڑی میسر نہیں
زندہ ہوں ، اپنے ماضی کو یاد کر کے ورنہ حال میں میرا ، بچا کچھ نہیں
قیادت کی بات کی جائے توماضی کے مسلمان لیڈروں کی بہادری اور دوراندیشی سے
تاریخ کی کتابیں بھری پڑیں ہیں ۔تاریخ سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمیشہ سے
ہی مسلمانوں کی اعلیٰ قیادت ہر میدان میں آگے رہی اور اپنی کامیابی کا سکہ
منواتی رہی جبکہ موجودہ قیادت اور جماعتیں محض قرض لینے ، نا انصافی
پھیلانے الزام تراشی کرنے ،سیاست کو گندہ کرنے ا ور کرپشن کو پروان چڑھانے
میں پیش پیش ہیں ۔اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ان جماعتوں سے منسلک تمام لوگ
اپنے اپنے مفادات کو قوم کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں اور ملکی سرمائے پر
ان کی نظر ہوتی ہے ۔ان کا ملک و قوم اور عوام کے اغراض و مقاصد سے کوئی
تعلق نہیں ہوتا بس ان کی جیب گرم رہنی چاہئے ۔یہ بات صرف ایک جماعت سے
متعلق نہیں بلکہ جو نیا چہرا بھی سیاست میں آتا ہے اسی مقصد اور ارادے کے
ساتھ آتا ہے بیشک وہ عوام الناس کی نظر میں کتنی ہی پارسا اور با اخلاق
شخصیت کا مالک ہی کیوں نہ ہو، حکومت اور کرسی کی لالچ اسے اندھا کر ہی دیتی
ہے۔ہم ایک جماعت کو الزام تراشی کرتے دیکھتے ہیں تو کیا دوسری جماعت خاموش
رہتی ہے ؟ بلکل نہیں اس کے بھی لیڈران اور حمایتی زورو شور سے تنقید کرتے
ہیں کہ ہم نے بھی کوئی چوڑیاں نہیں پہنیں اور اسی گرما گرمی میں ملکی سیاست
میں گالی گلوچ کی رسم رواج پا گئی ہے ۔مزید یہ کہ اب ماحول نے یہ ڈھنگ اپنا
لیا ہے کہ جب تک کسی کی ماں ، بیٹی ،بہن ،بیوی سیاسی پلیٹ فارم پر نہ آئے
تو عوام ایسے شخص کو حکمران ہی تسلیم نہ کرے گی ۔البتہ معاملہ جو بھی ہو
آجکل کی سیاست ایک عجیب سا کھیل ہے تماشہ ہے ورنہ یہ لوگ یہ بات بھول چکے
ہیں جسے عہدہ دیا گیا اسے کند چھُری سے ذبح کیا گیا ۔
جانے اب کون سی قیامت ٹوٹے اس وطن پہ اس قوم کی قیادت کی اب نیت خراب ہے
طاقت اور شہرت کے نشے میں ڈوبے لوگوں کی اسی لالچ کی وجہ سے کرپشن جیسی
بیماری نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ۔ وسائل ہونے کے
باوجود بھی ہم انہیں استعمال میں لانے کے قابل نہیں ہیں ،حتیٰ کہ دوسرے
ممالک ہمارے وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر لحاظ سے ہمیں نقصان بھی پہنچا
رہے ہیں اور قرضوں کے بوجھ تلے بھی دبا رہے ہیں اور ہماری حکومتیں اپنے
ذاتی مفادات کو مدِنظر رکھ کر ملک میں بے بنیاد پروجیکٹس شروع کروا رہی ہے
جن کا پاکستان کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ
ہی ڈیمز کا ہے جس پر بیرونی طاقتیں بولنے نہیں دیتیں ۔خصوصاََ بھارت اور
افغانستان کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں بولنے کا حق کس نے دیا ۔بات
وہیں پر آ جاتی ہے کہ آجکل کے حکمران حضرات حلف اٹھاتے ہوئے ایمانداری کے
جھنڈے گاڑنے کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن کرسی ملنے کے بعد اسی ملک کی دیواروں
کو کرپشن سے کھوکھلا کر دیتے ہیں جبکہ مفاد پرستی کی انتہا یہ ہے کہ اپنے
مطلب کیلئے دشمن سے بھی جا ملتے ہیں ۔ہمارے ملک پاکستان کو ایک ایسے لیڈر
کی ضرورت ہے جو دشمن کی آنکھ سے آنکھ ملا کر اپنا ہر فیصلہ پاکستان کے مفاد
کی خاطر کرے چاہے وہ پنجابی ہو سندھی ہو بلوچی ہو یا پٹھان ہو لیکن جذبہ
اخوت سے سرشار ہو اور ملک کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرے ۔
ہم ایک ہیں تو ڈرتا ہے زمانہ بٹے جو چار حصوں میں تو تھوکے کا زمانہ
نوٹ۔۔۔ یہ کالم تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے جو
معاشرے کی اصلاح کیلئے لکھا گیا ہے ۔اﷲ رب العزت پاکستان کو قائم و دائم
رکھے ۔۔۔آمین |