1857میں انگریز کمانڈر میجر ہاڈسن (Major Hodson) نے
بہادر شاہ ظفر کا تختہ الٹ کر اسے جیل میں ڈال دیا یوں برِ کبیر پر مسمانوں
کے ۸۰۰سو سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ ایک دن یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح
پھیلائی گئی کہ انگریز بادشاہ نے بہادر شاہ کو کھانے کی دعوت دی ہے ۔ وہ
دور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا نہیں تھا مگر ا نسانی تاریخ کا کوئی دور
بھی ایسا نہیں گزرا جو فساد فی الارض کو پیشہ سمجھ کر اپنانے والے " یاجوج
و ماجوج " سے خالی ہو۔بادشاہوں کے زر خریدوں کی رگوں میں ناچتا فتنہ و شر
ہر دور کے اہل حق جنہوں نے سچائی کا راستہ اپنایا پر کیچڑ اچھال کر سنسنی
پھیلاتا رہا ۔آقاوں کے اشارے پر ملک کے طول و عرض سے برسات کے مینڈکوں کی
مانند آواز سے آواز ملانے والے شر پسند کوچہ و بازار میں پروپیگینڈہ کرنے
لگے کہ بہادر شاہ انگریز کے ساتھ NRO کرنے جا رہا ہے اور شہدا کی قربانیاں
یونہی رائیگاں جائیں گی وغیرہ وغیرہ ،حتیٰ کہ وہ وقت بھی آگیا جسے دیکھنے
کے لیے قید خانے سے لیکر بادشاہ کے محل تک تمام راستوں پر لوگوں کا ایک بحر
بے کراں امڈ آیاجسنے حسرت و یاس سے اپنے رہنما کو دیکھنے کے لیے ٹکٹکی
باندہ لی۔ بہادر شاہ قید خانے سے نمودار ہوا تو اس نے وہ مردانہ زیور پہنا
ہوا تھا جسکا تصور آج کے نام نہاد رہنماؤں کے لیے کسی ڈراونے خواب سے بھی
زیادہ ازیت ناک ہے یعنی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں جنکی کی
جھنکار نے مجمعے پر سکوت طاری کر دیا اور بہادر شاہ چہرے پر طمانیت اور
وقار کی کائینات کی مانند وسیع سنجیدگی سجائے اپنے ا جداد کی آٹھ صدیوں پر
محیط بادشاہت کے گناہوں اور ثوابوں کو کندہوں پہ اٹھائے اپنے لوگوں کے
درمیاں سے بنا کچھ بولے گزرتا ہوا اسی محل میں داخل ہو گیا جہاں چند دن
پہلے وہ ظل سبحانی کہلاتا تھا مگر آج بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا کسی
دوسرے بادشاہ کے آگے پیش ہو رہا تھا جو سر تا پا رعونت اور تکبر کی تصویر
بنا حاکم کی کرسی پر براجمان تھا۔ میجر ہاڈسن نے بہادر شاہ کو بٹھائے بغیر
کہا کہ میں آپکی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھول کر بھی یہاں لا سکتا تھا مگر میں
نے سوچا کہ کھانے کی میز پر آپ سے با مقصد مذاکرات کر لیے جائیں جنکے نتیجے
میں آپکی رہائی بھی عمل میں آجائے ، مزید خون خرابہ بھی نہ ہو اور میری
حکومت کے لیے بھی مسائل کھڑے نہ ہوں لہذا میں نے آپکی طبع اور مزاج کو خاص
طور پر سامنے رکھتے ہوئے آپکے لیے کھانے خود اپنی نگرانی میں تیار کروائے
ہیں جو میز پر سجے بارہ برتنوں میں چن دیے گئے ہیں جنمیں سے ہر ایک کا رنگ
دوسرے سے مختلف ہے لہذا ابتدا کیجیے اور جس برتن سے آ پکا دل چاھے اسے
کھولیے اور تناول فرمایئے۔ بہادر شاہ نے پہلے برتن کا منہ کھولا تو دیکھا
اس میں سگے بیٹے کا کٹا ہوا سر پڑا ہے دوسرا کھولا تو دوسرے بیٹے کا سر ،
تیسرے میں تیسرے کا چوتھے میں چوتھے کا پانچویں میں سگے بھتیجے کا چھٹے میں
بھی بھتیجے کا حتیٰ کہ کھولتے کھولتے بارہویں برتن تک پہنچ گیا جن میں اسکے
بیٹوں، بھتیجوں یا بھائیوں کے کٹے سر سجے ہوئے تھے ۔ بہادر شاہ کی زبان پر
کوئی فریاد آئی نہ آہ و زاری کی بلکہ 80 سال سے زائد عمر کے ضعیف بوڑھے نے
بادشاہ کی طرف نگاہ اٹھانے سے پہلے اپنے جگر گوشوں کے کٹے ہوئے سروں سے
خطاب کیا اور کہا ـ" خاندان تیموریہ کے فرزند یونہی سرفراز ہو کے آیا کرتے
ہیں ، مجھے تمہارے کٹے سروں کو دیکھ کر کوئی تعجب ہوا ہے نہ ملال کہ ہماری
گردنیں وقت کے جابروں کے سامنے جھکنے کی بجائے یونہی کٹ جایا کرتی ہیں
۔میرے جگر پارو مجھے تمہاری کٹی گردنوں پر فخر ہے تم نے دشمن کے سامنے سر
جھکانے کی بجائے سر کٹا کر اپنے اجداد ، اسلاف اور اکابرین کی روحوں تک کو
فخر کرنے پہ مجبور کردیا ہے۔ تمہارا یہ بوڑھا باپ تم پر ناز کرنے کے ساتھ
تمہارے سروں سے یہ عہد کرتا ہے کہ میں اپنی زات کے لیے تمہارے سروں اور
اپنی عوام کی امنگوں کا سودا ہر گز نہ کروں گا اور فسطائیت و بربریت کے
خلاف جنگ کی شروعات میں خاندان تیموریہ کے کڑیل جوانوں کا یہ لہو اسکو وہ
جلا بخشے گا کہ آزادی کی اس شمع کو ظلم و جبر کی کوئی آندھی کبھی بجھا نہ
پائے گی تا وقتیکہ استعمار کے ناپاک قدموں سے ہماری سر زمیں ہمیشہ کے لیے
پاک ہو جائے ـ" ۔ تھالیوں میں سجے کٹے ہوئے سروں سے اس مختصر مگر جامع خطاب
کے بعد انھی بیڑیوں اور ہتھکڑیوں کی جھنکار میں بہادر شاہ بپھرے ہوئے زخمی
شیر کی مانند ظالم انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھتا ہے ؛تمہیں
میرا سر بھی چاہیے ؟" تم میرا سر بھی کاٹ کر کسی تھالی میں سجا سکتے ہو مگر
یہ تمہاری بھول ہے کہ ماحول کے خونی منظر سے لرز کر میں تمہارے ناپاک قدم
اپنی سرزمین پر برداشت کر لوں گا "۔
میجر ہاڈسن کی شریر نگاہیں جھک چکی تھیں اور اسکے جسم پر لرز ہ طاری ہو چکا
تھا جسے بھانپ کر اسکے اہلکار بہادر شاہ کو واپس زندان کی جانب پلٹا نے پہ
مجبور ہو گئے اور اس دن کے بعد بہادر شاہ سے کسی جابر کو آنکھ ملانے کی
جرات نہ ہوئی اور اسے برما کی طرف جلا وطن کر دیا گیا جہاں زندگی کے بقیہ
دن رنگون کے قید خانے میں پورے کر کے داعی اجل کو لبیک کہہ گیامگر جاتے
جاتے ایک طرف اجداد کی صفوں میں موجود جہانگیروں ،شاہجہانوں اور شہزادہ
سلیموں کے گناہوں کا کفارہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کے خوں کی ندیاں بہا کر ادا
کر گیا جنھوں نے نورجہانوں کے عشق میں عوام کے خوں پسینے سے مقبرے اور تاج
محل تعمیر کروائے تھے اور انار کلیوں کی اداؤں پر پورے پورے صوبے قربان کر
دیے تھے تو دوسری طرف تاریخ کی پیشانی پر اپنے خاندان کے لہو سے جرات و
شجاعت کی وہ داستان کندہ کر گیا جسے ہماری درسگاہوں کے نصاب کا مستقل حصہ
ہونا چاہیے تھا مگر اس بدقسمت قوم کے حکمرانوں نے آزادی کے ستر سال بعد بھی
اپنی نسلوں کو موہنجو دڑو کے آثار اور کھیوڑہ کی نمک کانوں سے زیادہ کی
معلومات سے اگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ وقت کے سینے میں دفن ان تڑپتی
سچائیوں کی داستانوں سے آشنا ہو کر کوئی سر پھرا طاقتوروں کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈل کر انکی رعونت کو مٹی میں نہ ملا دے اسلیے بیمار زہنوں نے اپنی
نسلوں کے کان میں بس یہ ڈال دیا ہے کہ جن دنوں انگریز آکسفورڈ اور کیمبرج
کی بنیادیں رکھ رہے تھے ہمارے حکمران تاج محل اور مقبرے تعمیر کروا رہے تھے
۔بیمار زہنوں کو مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے کہ ہماری نہیں تو برطانیہ کے ایک
تاریخ دان TOMSON کے ہاتھوں کی لکھی تاریخ ہندوستان اٹھا لو جو خون بھرے
قلم سے لکھتا ہے کہ جب بہادر شاہ کا تختہ الٹا گیاصرف دہلی شہر میں سولہ سو
سکول(مدرسے) تھے جنہیں انگریز نے گھوڑوں کے اصطبلوں میں تبدیل کردیامگر ان
مدرسوں سے نکلنے والوں کے ایمان او ریقین اتنے پختہ تھے کہ انگریز نے انھیں
خنزیر کی کھالوں میں لپیٹ کر جلتے تنوروں میں ڈالا ، انکو تیل کے کھولتے
کڑاہوں میں ڈال دیا گیا ،کوئی پھانسی کے پھندے پہ جھول گیا مگر سر نہیں
جھکایا ۔ کاش ہم نے کبھی ماضی کے سینے میں اتر کر اپنے حکمرانوں کی
قربانیوں اور ا ستقلال سے آنکھ ملائی ہوتی تو ہم جان پاتے کہ رہنما کون
ہوتے ہیں ۔اسی لیے آزادی کے ستر سال بعد بھی ہم قانون ساز اداروں کے ممبران
کا چناؤ کچرا اٹھانے اور نہ اٹھانے کی ااہلیت کی بنیادوں پہ کر رہے ہیں مگر
ملک کے سارے رہنما ملکر بھی ابھی تک کراچی کا کچرا نہیں اٹھا سکے اور
آکسفورڈ اور کیمبرج کو تعلیم کا آخری معیار سمجھنے والے" انقلا بی "کچرے کے
ڈھیروں سے بیٹیوں کی لاشیں اٹھا کر چوکوں میں موم بتیاں جلا کر انکے ارد
گرد ڈانس کرکے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور موت سے اتنے خائف ہیں کہ شب برات
پر چلنے والے پٹاخوں کی آواز سے انھیں دل کا دورہ پڑ جاتا ہے جو اکثر جان
لیوا ثابت ہوتا ہے۔ ایسے انوکھے احتجاج پر تو مغلوں کے دور کے ہیجڑوں کی
نیم مردانگی یا نیم نسوانیت بھی شرما جاتی ہو گی۔۔ |