2017کو عید کے موقع پر اس خبر نے سب کو غمزدہ کر دیا کہ
حضرو اٹک میں ایک مزدور کی اہلیہ نے اپنے تین کم سن بچوں کو کنویں میں
پھینکنے کے بعد خود بھی اس میں کود گئی۔دو بچے جان بحق ہو گئے اور ماں اور
ایک بچے کی جان بچ گئی۔ سعیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ بچوں کے لئے عید پر
کپڑے نہ خرید سکے ۔ اس لئے زندگی کاخاتمہ کرنا ہی اس مسلے کا حل سمجھا۔جب
کہ خود کشی حرام ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ، انسان کبھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ
مقابلہ کرتا ہے۔ ایک ماں بچوں کے آنسو نہیں دیکھ سکتی۔ اس طرح کے کئی
افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس کے ذمہ دار ایسے لوگ بھی ہیں جو فضول
خرچی کرتے ہیں اور ان کے سامنے لوگ بے بسی اور محرومی کی زندگی گزار رہے
ہوتے ہیں۔نگران حکومت روپے کی قدر میں کمی کے بڑھتے رحجان کو روک نہیں سکی
ہے بلکہ اس نے پٹرول کی قیمتیں بڑھا دیں۔ جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں
میں اضافہ ہو رہا ہے۔ملک میں مہنگائی کی نئی لہر چل رہی ہے۔ ہماری غیر ملکی
کرنسی کی کمائی میں کمی آ رہی ہے۔ غیر ملکی قرضہ ہماری آمدن کی رفتار سے
بہت زیادہ ہے۔ڈالر کی قدر میں اضافہ پہلے سے ہو رہا ہے۔سب سے بڑی وجہ ہماری
پیداوار میں جمود ہے۔آج جون 2018میں عید کے موقع پر ڈالر کی قدر میں اضافہ
ہو رہا ہے۔ملک میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ ہم اصراف کرتے ہیں۔الیکشن
اخراجات زیادہ کرتے ہیں۔ جس نے بیرونی قرضہ 400ارب روپے بڑھا دیا ہے۔ ڈالر
کی زر مبادلہ اور در آمدات برآمدات کے لئے طلب ہے۔ ہماری ترسیلات زر میں
اضافہ بھی اس رفتار سے نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی کہ ہوم ریمیٹنس اضافہ چاہتی
ہیں۔ اس میں تیز رفتاراضافہ کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ بینک کا اعتراف ہے کہ ملکی
زر مبادلہ کے زخائر میں کمی ہو رہیہے۔ ڈالر کی طلب بہت زیادہ اس لئے ہے کہ
ملکی بر آمدات اور در آمدات کا انحصارڈالر پر ہی ہے۔آج درآمدات برآمدات سے
دوگنا ہیں۔ ہم باہر سے اتنا مال منگواتے ہیں کہ ڈالر میں ادائیگی کرنا پڑتی
ہے۔ 2013میں زرمبادلے کے زخائر 10ارب ڈالر تھے۔جنوری 2017کو یہ ذخائر بڑھ
کر 23.2ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔آج یہ ذخائر کم ہو کر 16ارب ڈالر رہ گئے
ہیں۔۔م میاں نواز شریف نے جب 5جون 2013کو تیسری بار حکومت سنبھالی ، اس وقت
یہ زخائر 11ارب ڈالر تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زرمبادلہ چین کے پاس ہے۔
3کھرب ڈالر سے بھی زیادہ۔ ہماری نظریں پاک چائینا اقتصادی راہداری منصوبے
پر ہیں۔ وہ ہماری معیشت کو اوپر لے جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے لئے زیادہ اہمیت
خود انحصاری کی ہو گی۔یہی ہمیں معاشی پاور بنا سکتی ہے۔زرمبادلے کے زخائر
میں اضافہ یا کمی کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑتا ہے۔ اگر بارٹر سسٹم
کے تحت مال کے مال کی تجارت ہو تو پاکستان کے لئے یہ بہتر تھا۔ ہم باہر سے
تیل منگواتے، یا دفاعی ٹیکنالوجی یا آئی ٹی کا ساز و سامان ۔ اس کے بدلے
یہاں سے ٹماٹر،پیاز دالیں فروخت کر سکتے تھے۔ لیکن ہم اب اس زرعی پیداوار
سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ پہلے سیلاب بتائی جاتی رہی۔ دوسری
وجہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے یہاں سے مال ا
فغانستان جاتا ہے۔ اس لئے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ایک بات یہ ہے کہ ہم کام
چور یا آرام طلب بن رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری طلب بڑھ رہی ہے اور رسد میں
کمی ہو رہی ہے۔مگر بجلی کے بارے میں ایک اچھی خبر ہے۔ گزشتہ روز نگران وزیر
توانائی علی ظفر نے کہا کہ ملکی بجلی کی پیداوار میں 10ہزار میگاواٹ کا
اضافہ ہوا۔سسٹم میں 28ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت ہے۔ جب کہ ہماری
طلب 25ہزار میگاواٹ سے زیادہ نہیں۔ ہم تین ہزار سر پلس بجلی تیار کر رہے
ہیں۔دیگر شعبوں میں اگر ہم سمجھتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے ہمیں سب کچھ مل جائے
گا۔ ایسا ناممکن ہے۔یہ درست ہے کہ اﷲ تعالیٰ پتھر میں کیڑے مکوڑے تک کو رزق
دیتے ہیں۔ وہ رزاق ہیں۔ لیکن اﷲ تعالیٰ ہی نے تلاش معاش اور رزق حلال کے
لئے محنت کرنے حکم دیا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ ملکی
پیداوار میں کمی ہے۔ یہ سچائی مسلسل بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ ملکی پیداوار
بڑھانے کے لئے حکومت ہی زمہ دار نہیں ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہر فرد کو کام
کرنا ہے۔ گھر کے ہر فرد کو مصروف ہونا ہے۔ ہماری تعلیم کا نظام بھی عجیب
ہے۔لوگ ماسٹرز، پی ایچ ڈی تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن کام نہیں کرتے۔ ہم پڑھتے
ہی ملازمت کے لئے ہیں۔ ڈاکٹر ، انجینئر بننے کے لئے ڈونیشن دیتے ہیں۔
ڈگریاں خرید کر ڈاکٹر بنیں گے تو انجام یہی ہو گا۔اگر ٹماٹر پیاز کی ملک
میں پیداوار نہ ہو تو ہم اسے باہر سے منگواتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ مہنگی
اشیاء استعمال کی جائیں۔ جو بھی چیز مہنگی ہے۔ ضروری نہیں اسے کھائے بغیر
چین نہیں آئے گا۔ مہنگی چیز کو بھول جائیں ۔ قیمت خود بخود کم ہو جائے گی۔
لیکن یہ کوئی منطق نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے گھروں میں کچن گارڈن
کی روایت ترک کر چکے ہیں۔ ہمارے لوگ گاؤں میں کئی کئی کنال زمین کے مالک
ہیں۔ لیکن کام نہیں کرتے۔ فصل نہیں اگاتے۔ پودے نہیں لگاتے۔ ہم پھل دار
پودوں کے بجائے صدا بہار پودوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ صدا بہار پودے گرمیوں
میں ٹھنڈک دیتے ہیں۔ پھل دار پودے بھی سائیہ دیتے ہیں۔ یہ بھی کسی سے کم
نہیں۔لیکن چونکہ پھل دار پودے پھل بھی دیتے ہیں، اس لئے ہم ان کی اہمیت سے
انکار کر دیتے ہیں۔آج ایک بار پھر شجر کاری کا موسم آ چکا ہے۔ ہم پودے لگا
سکتے ہیں۔ لوگ دیہات سے بلا وجہ شہروں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ سہولیات کی کمی
ایک بہانہ ہے۔ دیہات میں صاف ستھرا ماھول چھوڑ کر شہر کی بھاگم دوڑ، دھواں،
آلودگی۔ ہر قسم کا پولوشن۔ شہر میں سبزیاں، فصل، پھل کی پیداوار کے ساتھ
ساتھ ڈیری یعنی دودھ کی مصنوعات کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں
پال سکتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کا یہ مطلب یہ نہیں کہ آپ کا مقصدصرف نوکری
ہو۔آپ گاؤں میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ صرف لگن کی ضرورت ہے۔ کام کی ضرورت ہے۔
آپ سردیوں اور گر میوں میں فصلیں پیدا کر سکتے ہیں۔ تازہ دودھ، سبزیاں کھا
سکتے ہیں۔ اپنے تازہ میوے خود بھی کھا سکتے ہیں اور انہیں فروخت کر کے اپنی
آمدن میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ملک میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ عید کے ایام ہیں۔ہم عزم کر لیں کہ
پیداوار میں اضافے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔تو اس کا سب کو فائدہ ہو
گا۔ہم اصراف کرتے ہیں۔الیکشن اخراجات ہوتے ہیں۔ سیاست سے زیادہ اہم کام اور
خدمت ہے۔ہر ایک فرد جس کے پاس چند مرلے زمین ہے، وہ ملکی پیداوار میں اضافہ
کر سکتا ہے۔ وہ بوجھ بننے کے بجائے قومی بوجھ کم کر سکتا ہے۔ آگاہی کی
ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ملکی پیداوار میں اضافے کے لئے اپنا حصہ، جس قدر بھی
ہو ، ڈالنے کا عزم کر لیا تو ٹماٹر، انڈے، دودھ، سبزیاں، پھل، آٹا ہی کیا
ڈالر سمیت ہر چیز کی قیمت کم ہو گی۔ کیوں کہ پیداوار میں اضافہ آمدن کو
بڑھا سکتا ہے۔ آپ تازہ اشیاء استعمال کریں گے تو نقلی ڈاکٹروں اور نقلی
ادویات کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔ یہی مہنگے ڈالر کا علاجہے۔پھر ہمیں
امریکی امیگریشن قوانین کی پاکستان پر کسی سختی سے پریشان ہونے کی بھی
ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔ |