میں 2008 سے پارٹی کا رکن ہوں۔ کبھی خودنماٸی کی کوشش
نہیں کی مگر شامل ہونے والے رکن کو نمایاں کر کے پارٹی کو پرکشش بنانے کا
قاٸل ہوں۔ باوجود کہ خود 1969 سے سیاست میں ہوں اور 1988 کے عام انتخاب میں
مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کے سیاسی ہمسفر کے طور ایم پی اے کا امیدوار
رہا۔ علاقاٸی مساٸل سے متعلق ایک تنظیم ”تحریک انسداد استصال“ کا بانی و
علاقاٸی اخبار صداۓ عام کا مدیر و ناشر ہوتے ہوۓ حلقہ کے حالات سے بخوبی
آگاہ ہوں۔ اس وقت کسی حلقہ انتخاب سے کسی انتخابی امیدوار اور ٹکٹ کے
درخواست گزار کا تجویز اور تاٸید کنندہ نہیں اور نہ ہی خود امیدوار یا
خواہش مند ہوں۔
تجزیہ میں میرا زاتی مفاد نہیں بلکہ فقط پارٹی و عوامی مفاد ہے۔ لہذا درج
ذیل وجوہات کی بنا۶ پر تحفضات ہیں
وجوہات۔
موجودہ قومی حلقہ تحصیل پسرور کی حدود کے اندر واقع ہے۔ یہ حلقہ قبل ازیں
نصف تحصیل پسرور اور نصف تحصیل نارووال پر مشتمل تھا ۔ ضلع نارووال کے قیام
کے بعد اٹھارہ سال قبل تبدیل ہو گیا تھا۔ سابقہ حلقہ میں منصور سرور صاحب
کے والد محترم کامیاب ہوتے رہے۔
ضلع نارووال کے قیام کے وقت منصور سرور صاحب کے خاندان نے انتخابی حلقہ
برقرار رکھنےکے زاتی مفاد میں نصف تحصیل پسرور کو سیالکوٹ سے نکال کر
نارووال میں شامل کرنے کی سمری تیار کراٸی جو شدید عوامی مزاہمت پر منسوخ
ہوٸی۔ اس واقعہ کی وجہ سے نصف تحصیل پسرور کے عوام ناراض ہوۓ اور منصور
سرور صاحب کا خاندان پسرور کی سیاست سے خارج ہو گیا۔ منصور سرور صاحب کی
برادری والے حلقہ کی سیاسی سربراہی ڈاکٹر تنویر الاسلام سابق صوباٸی وزیر
اور رانا لیاقت علی سابق ایم پی اے کی فیملی کو منتقل ہو گٸی۔ ۔ موجودہ
حلقہ میں شامل بقیہ نصف تحصیل پسرور میں منصور سرور صاحب کا کوٸی تعارف
نہیں۔
منصور سرور صاحب کی شخصیت میں ایسی صفات نمایاں نہیں کہ حلقہ کے عوام انہیں
پارٹی ٹکٹ کی وجہ سے سر آنکھوں پر بٹھاٸیں۔ ایسی صورت میں نون کو شکست دینے
کی خاطر تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے خواہش مند کسی آزاد امیدوار کی جانب
متوجہ ہو جاٸیں گے۔
اندریں حالات بالا منصور سرور صاحب کو بوجہ قدیم و سرگرم رکن پارٹی انتخابی
ٹکٹ سے نوازنا کوٸی معقول جواز نہیں ہے۔
بتاریخ ۔ ١٤ جون ٢٠١٨ |