مائنس نواز

اکثریت کو اقلیت میں یا اقلیت کو اکثریت بدلنے کی کوئی بھی کوشش ہمیشہ ایسے بھیانک نتائج سامنے لاتی ہے جو صدیوں تک اپنا اثر دکھاتے ہیں اور اگلی کئی نسلیں اگر ازالہ کرنا بھی چاھیں تو نہیں کر سکتی ۔ دنیا کے جس خطے میں بھی ایسی نا انصافی ہوئی اس خطے کے لوگ کئی نسلوں سے اس کے نتائج بھگت رہے ہیں جو نا انصافی اقرپا پروری لا قانونیت اوربد امنی جیسی خطرناک بیماریوں کو ان معاشروں کی جڑوں میں پیوست کر دیا کرتی ہے اور ہر فرد کی زبان پر دہائیاں اور فریاد ہوتی ہے مگر حل کسی کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ دنیا میں زندگی گزارنے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ لوگوں کو ان کی پسند کے نمائیندے چننے کا حق دیا جاٗے اور کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لوگوں پر اپنی خواہش کو مسلط کرے اور کوئی بھی ایسی کوشش ہمیشہ دنیا میں کشت و خون کا باعث بنی ہے ۔ دنیا میں جتنے انقلاب آج کے دن تک آئے ان کے پیچھے نا انصافی اور طاقتور کا کمزوروں پر جبر اور اپنی مرضی مسلط کرنا ہے ۔ اور طاقت کے نشے میں سرمست متکبر آمروں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ کر لقمہ ء اجل بن جانے والوں کی روحیں آج بھی بے چین ہیں اور روز قیامت زمینی خدا جب مالک روز مکافات کی بارگاہء عالیہ حاظر ہونگے میرا ایمان ہے وہاں کسی گواہی یا گواہ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ جس رب نے ان مظلوموں کو طاقتوروں کا محکوم بنایا تھا وہ ایک ایک ظلم کا خود حساب لے گا ۔ طاقتوروں کی کمزوروں پہ زور آزمائی ہمیشہ نفرت کو جنم دیتی ہے اور نفرت دنیا کا وہ خطرناک بیج ہے جو کسی بنجر زمین میں بھی بو دیا جائے تو ایک نہ ایک دن تن آور درخت بن جاتا ہے جس کے ایک ایک پتے مسے بغاوت کے شعلے بھڑکتے ہیں جو طاقت کے نشے میں چور متلق العنان بادشاہوں کی رعونت کو بھسم کر دیا کرتی ہے اسلیے کہ محروموں کے زہر پی پی کر زندگی گزارنے والوں کی زندگیاں اتنی تلخ ہو جاتی ہیں کہ جب بغاوت پہ اتر آئیں تو موت انکی آرزو ء بن جاتی ہے اور جان ان کا ہتھیار ۔یہی وہ سٹیج ہے جس سے دنیا کا ہر ظالم خائف رہتا ہے کیوں کہ دوسروں پر ظلم ڈھانے والوں اور کمزوروں پہ زور آزمائی کرنے والوں کو اپنی زندگی بہت عزیز ہوتی ہے جسکا ایک ایک لمحہ وہ طاقت و اختیار کو استعمال کرتے گزارنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور جھوٹی انا کی تسکین کے لیے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تک بنوا دیا کرتے ہیں مگر زندگیوں سے تنگ آئے لوگوں کی بغاوت کے طوفان میں خس و خاشاک کی مانندبہہ جایا کرتے ہیں ۔
بلوچستان کا احساس" محرومی "ختم کرنے کے لیے پونے پانچ سال سے چلتی جمہوری حکومت کو عام انتخابات میں 500ووٹ لینے والے کے نیچے دے دیا گیا کیونکہ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے سب سے زیادہ " زرخیز"بلوچستان اسبلی ہی تھی جسکا نیاقائد ایوان عبدالقدوس بزنجو وہ اشرف مخلوق ہے جسکی چوکھٹ پہ ملک کی دو بڑی اور کئی چھوٹی جماعتوں کے سربراہان حاضری کا شرف حاصل کر نے کے بعد اپنے منتخب نمائندوں کو ان کے دست" حق پرست" میں دینے کا بر ملا اعلان کرنے پہ مجبور ہو گئے ۔ یہی نہیں بلکہ ایک جماعت جس کے سربراہ عمران خان ہیں جو تقریر کرتے ہوئے یورپ سے کم تر کسی ملک کیا براعظم کی مثال دینا بھی اپنے انقلابی پروگرام کی توہین سمجھتے ہیں کی مثالی جماعت کے انقلابی ارکان اسمبلی تھوک کے حساب سے ایک دوسری جماعت جسکے سربراہ آصف زرداری ہیں جو عوام کے بجائے طاقت کے اصل" سرچشمے " کے ہاتھوں پر بیعت کر چکے ہیں کے ہاتھوں فروخت ہوئے جسکا بر ملا اظہار عمران خان میڈیا پر کر چکے ہیں مگر بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنا ایسا" عظیم مقصد " تھا جسکے حصول کے لیے خان صاحب نے اپنی جماعت کو فروخت کرنے کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ انھوں نے یہ خرید و فروخت صرف نواز شریف کا راستہ روکنے کے لیے کی اور حالات بتا رھے ہیں کہ نواز شریف کا راستہ روکنا ہی وہ "عظیم مقصد" ہے جو ان دونوں کو اگلے الیکشن کے بعد اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے کسی عبدالقدوس کے زریعے کسی صادق سنجرا نی کوو زیر اعظم بنانے پہ مجبور کر دے گا اور یوں بلوچستان کا احساس محرومی بھی ختم ہو جائے گااور نواز شریف بھی اپنے" کیفر کردار تک "پہنچ جائے گا کیونکہ اس کے "جرائم" کی فہرست بہت طویل ہو چکی ہے جو کہ ناقابل برداشت ہی نہیں قابل تعزیر بھی ہیں ۔ 2002 میں پرویز مشرف نے بھی بلوچستان کا احساس" محرومی " ختم کرنے کے لیے اپنے دور کا صادق سنجرانی ظفراﷲ جمالی کی شکل میں قوم پہ مسلط کیا تھا اور پھر اکبر بگٹی جیسے "غدار" کو صفحہ ہستی سے مٹا کر بلوچستان کے لوگوں کے دلوں پر وہ زخم لگایا تھا جوکئی نسلوں تک ناسور کی طرح موجود رہے گا مگر طاقت کے نشے میں چور دماغوں میں یہ باتیں جگہ نہیں بنا پاتیں ۔ پرویز مشرف کو اس عظیم مقصد میں کامیابی دلوانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے کچھ" مجاہدیں" راؤ سکندر اقبال مرحوم کی قیادت میں مہیا کیے تھے جنکو پیٹریاٹ (Patriot)کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اپنے" مشن" کی تکمیل کے بعد کم و بیش سارے ہی اپنی ا صلی جماعت میں واپس جا چکے ہیں اور اگلے مشن پہ روانگی کے لیے بے چین ہیں ۔ دوسری طرف 22سالہ سیاسی محنت سے مایوس عمران خان نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کے بعد نواز شریف کا راستہ رو کنا اپنا مقصد بنا لیا ہے جسکے حصول کے لیے مستقبل قریب میں وہ ایسی ایسی" قربانیاں " دینے والے ہیں کے دنیا حیران رہ جائے گی ۔

نواز شریف کے تمام سیاسی مخالفیں ووٹ کے زریعے تبدیلی سے مایوس نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں منظر سے ہٹانے کی آج تک کی گئی تمام کوششیں اور ہتھکنڈے کا رگر ثابت نہیں ہو سکے بلکہ انکی مقبولیت دن بہ دن اضافے کے ساتھ انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور عوام" ووٹ کو عزت دو" کے نعرے کو قبول کر چکی ہے جو ہر جلسے میں خاص و عام کی زبان پر ہوتا ہے ور یہی وہ بیانیہ ہے جسنے طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دینے والوں اور نیا پاکستان بنانے والوں کو مایوسیوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے لہذا عوام سے ووٹ مانگنے کے بجائے سب نے اپنی خواہشات اور توقعات کا مرکز اور محور سپریم کورٹ کو بنا لیا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے جو مستقبل قریب میں پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔ پانامہ فیصلے کے بعد نواز مخالف سیاستدانوں کا عدالت عظمیٰ بالخصوص چیف جسٹس کو اپنی تمام تر کبھی نہ پوری ہونے والی خواہشات کا مرکز بنا لینا اور ہر سیاسی معاملے میں عدلیہ کو ملوث کرنا پارلیمینٹ اور عدلیہ دونوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گا ۔
ایک یک رکنی جماعت کے سربراہ شیخ رشید نے تو آیئنی طور پر آیئن و قانون کے سب سے بڑے محافظ چیف جسٹس آف پاکستان کو جوڈیشل مارشل لا جیسی آیئنی بغاوت کرنے کی پرزور اپیل کر دی ہے جو انکی نگاہ میں نواز شریف سے جان چھڑانے کا واحد اور موئثر راستہ ہے حالانکہ آیئن کو توڑنا غداری اور ناقابل معافی جرم ہے جسکی سزا موت ہے مگر ووٹ کی طاقت اور افادیت سے مایوس بنجر زہن ہر اس اقدام کو جو نواز شریف کو منظر سے ہٹانے میں مددگار و معاون ثابت ہو سکتا ہے نہ صرف جائز بلکہ باعث ثواب سمجھتے ہیں اور انکی نگاہ میں ہر وہ شخص جو کسی بھی حوالے سے نواز شریف کا حمایتی ہے جاہل ، پٹواری اور غدار وطن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور آصف زرداری اپنے منشور اور پروگرام پیش کرنے کے بجائے عوام میں منتخب ارکان پارلیمینٹ کی خرید و فروخت کے نت نئے طریقے متعارف کروا رہے ہیں جو اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں اتنے موثر اور کار گر ثابت ہو رہے ہیں کہ ایک نشست والے صادق سنجرانی کو چیرمین سینٹ تک بنوا دیتے ہیں اور ایوان بالا اس" عظیم " کارنامے پر ایک زرداری سب پر بھاری کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے جبکہ عمران خان اس" ش معجزے "کو اپنی " دور اندیش سیاسیی بصیرت "کا ثمرہ قرار دیتا ہے جسکو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے انہی بکاؤ ارکان کو زرداری کے ہاتھ فروخت کر کے 2018میں نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جائے گی ۔ اﷲ پاک پرانے پاکستان کو نیا پاکستان بننے سے محفوظ رکھے ۔

DR ABDUL HAMEED HAMID
About the Author: DR ABDUL HAMEED HAMID Read More Articles by DR ABDUL HAMEED HAMID: 14 Articles with 12292 views Professor Doctor of Biosciences, Quaid e azam University Islamabad.. View More