یمن کی بندرگاہ الحدیدہ پر "شدید دباؤ” سعودی عرب اور
متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کا کڑا امتحان تصور کیا جاتا ہے جبکہ دوسری
طرف اس صوبے میں "مزاحمت” اور اس کی حفاظت یمنی عوام کیلئے ایک اہم سیاسی
باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بنیاد پر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور حتیٰ اقوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا نمائندہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی افواج
کے وحشیانہ اقدامات کو نتیجہ خیز کرنے اور سعودی حکومت کو اس دلدل سے باہر
نکالنے کیلئے میدان میں اتر چکے ہیں۔ اس دوران انصاراللہ یمن الحدیدہ میں
فوجی کاروائیوں کے ذریعے ملک کے خلاف اس عربی – مغربی سازش کو ناکام بنانے
کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ کسی کو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یمن کے خلاف جنگ آل سعود رژیم کے
کندھوں پر بھاری بوجھ ہے۔ اسی طرح سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ریاض کے
پاس صنعاء پر قبضے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ اس کے باوجود سعودی حکام نے
جنگ کے خاتمے پر مبنی ہر منصوبے کو مسترد کیا ہے اور یوں کویت، عمان اور
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے کی کوششیں ناکامی کا شکار ہو چکی
ہیں۔ ان تمام کوششوں کے دوران سعودی حکام انصاراللہ یمن کی جانب سے مکمل
طور پر غیر مسلح ہو کر ملکی دارالحکومت اور تمام صوبوں کے مراکز اسے تحویل
دیئے جانے پر بضد نظر آئے ہیں۔ یہ اصرار درحقیقت "انصاراللہ” نامی حقیقت
کا صاف انکار محسوب ہوتا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے گذشتہ
چند ماہ کے دوران درپیش رکاوٹیں توڑ کر انصاراللہ یمن کی طاقت ختم کرنے کی
بھرپور کوشش کی ہے۔
اس بنیاد پر گذشتہ ایک ماہ کے دوران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ،
برطانیہ اور فرانس کی جانب سے زیادہ شدید معرکہ آرائی اور بڑے پیمانے پر
کرائے کے فوجیوں سے بہرہ برداری کرتے ہوئے فوجی کاروائی ایک مخصوص نکتے پر
مرکوز کرنے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کاروائی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب
امارات کے فوجیوں کے علاوہ سوڈانی جنگجووں کی ایک بریگیڈ، یمن کے سابق صدر
علی عبداللہ صالح کے چیف آف آرمی اسٹاف علی محسن الاحمر کے وفادار فوجیوں
کے پانچ بریگیڈز، سلفی وہابی گروہ اصلاح کی ایک بریگیڈ، امریکی نیوی کی ایک
بٹالین، برطانوی اور فرانسوی نیوی کی ایک ایک بٹالین، انصار السند نامی
القاعدہ گروہ کی ایک بٹالین اور بعض یورپی اور افریقی ممالک کی فورسز بھی
شریک ہیں۔ ان سب کا مقصد الحدیدہ اسٹریٹجک بندرگاہ کو انصاراللہ یمن کے
کنٹرول سے خارج کرنا ہے۔
اس سے پہلے تک امریکہ یمن کی جنگ میں اپنے کردار پر پردہ ڈالتا تھا لیکن
تقریباً گذشتہ دو ہفتے سے امریکہ نے کھلم کھلا سعودی جارحیت کی فوجی حمایت
کرنا شروع کر دی ہے۔ مثال کے طور پر چند دن پہلے پینٹاگون کے ایک اعلی سطحی
عہدیدار نے واضح طور امریکی چینل "الحرہ” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
"امریکی فورسز یمن میں تعینات ہیں اور وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات
کی فورسز کو انٹیلی جنس تعاون فراہم کر رہی ہیں۔” اسی طرح امریکی وزیر دفاع
جیمز میٹس نے گذشتہ ہفتے بدھ کے روز واضح کیا: "امریکہ کو الحدیدہ آپریشن
میں شریک ہونا چاہئے اور انصاراللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا چاہئے۔”
اس دوران برطانوی شہریت کے حامل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے
مارٹین گریفتھ کی غیر معمولی فعالیت دکھائی دی۔ اس نے متحدہ عرب امارات کی
کمان میں سعودی اور اماراتی فورسز کی یمنی عوام کے خلاف شدید فوجی جھڑپوں
کے دوران انصاراللہ سمیت یمن کے مختلف گروہوں سے مذاکرات کئے اور کہا کہ ان
مذاکرات میں بہت زیادہ پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ لیکن جب ہم اس کے بیانات کا
جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کی تمام تر توجہ انصاراللہ یمن کو
ہتھیار پھینکنے پر مجبور کرنے پر مرکوز رہی ہے۔ انصاراللہ یمن کے غیر مسلح
ہونے کا مطلب تمام صوبوں کے مراکز اور ملکی دارالحکومت دشمن کے حوالے کرنا
ہے جس کا نتیجہ فوجی طاقت ختم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طاقت کا بھی خاتمہ
ہے۔ دوسری طرف گذشتہ ایک ماہ کے دوران امریکی سعودی اتحاد کی جانب سے شدید
فوجی جھڑپوں کے نتیجے میں انہیں بہت معمولی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ وہ
ابھی تک صوبہ حدیدہ پر کنٹرول قائم نہیں کر سکے اور صرف بعض جنوبی حصوں پر
قبضہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
2)۔ انصاراللہ یمن ہمیشہ ایسے سیاسی راہ حل کو بھی قبول کرنے پر تیار نظر
آئی ہے جس میں اس کے مخالف سیاسی گروہوں کی حیثیت تسلیم کی گئی ہو۔ اسی
طرح انصاراللہ نے کوئی ایسا امن منصوبہ مسترد نہیں کیا جس میں یمن کی
خودمختاری اور وقار کا لحاظ کیا گیا ہو۔ لہذا انصاراللہ یمن کے عہدیداروں
جیسے مہدی المشاط اور محمد علی الحوثی اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے
نمائندے کے درمیان انجام پانے والی ملاقاتوں میں مذاکرات اور معاہدوں کی
ترتیب یوں کی جا سکتی ہے: انتخابات، قومی حکومت کی تشکیل اور انصاراللہ کے
پاس موجود اسلحہ کے بارے میں فیصلہ۔ انصاراللہ یمن اس بات پر زور دیتی ہے
کہ کسی بھی امن منصوبے کا مقدمہ یمن کے خلاف جاری سعودی جارحیت روکے جانے
سے آغاز ہونا چاہئے۔ البتہ یہ ایک واضح امر ہے کہ نہ تو سعودی حکام اور نہ
ہی منصور ہادی کی وفادار فورسز ایسے منصوبے کو قبول کرنے پر تیار نہیں جس
میں انتخابات کا انعقاد شامل ہو۔
3)۔ یمن کے ساحلی صوبے الحدیدہ پر امریکہ، برطانیہ، فرانس، متحدہ عرب
امارات، سعودی عرب اور ان کے یمنی پٹھووں کی مشترکہ اور وسیع فوجی کاروائی
کے چار بنیادی اہداف ہیں:
الف)۔ یمن کے مغربی ساحل پر کنٹرول پیدا کر کے یمنی عوام کے خلاف جاری غیر
انسانی محاصرے کو مزید شدید بنانا۔ الحدیدہ بندرگاہ انصاراللہ کے زیر
کنٹرول واحد راستہ ہے جہاں سے یمنی حکومت اور انصاراللہ یمن اپنے خلاف
محاصرے کے باوجود محدود پیمانے پر روزمرہ ضرورت کی اشیاء اور ادویات وغیرہ
درآمد کرتی ہے۔ سعودی حکام اور اس کے اتحادی اس بندرگاہ پر قبضہ کر کے
انصاراللہ اور اس کے حامی یمنی عوام کا گلا مکمل طور پر گھونٹ دینا چاہتے
ہیں تاکہ اس طرح محمد علی الحوثی اور مہدی المشاط کی سربراہی میں یمنی
حکومت کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکیں۔
ب)۔ سعودی عرب اور اس کی اتحادی قوتیں الحدیدہ پر قبضہ کر کے یمن میں فرقہ
وارانہ مذہبی جنگ شروع کروانا چاہتی ہیں۔ یاد رہے یمن کے کل 18 صوبوں میں
سے 12 صوبے اس وقت انصاراللہ کے زیر کنٹرول ہیں۔ صنعا، صعدہ، الحجہ اور
عمران، زیدی اور الحدیدہ صوبوں کی اکثر آبادی اہلسنت شافعی مسلمانوں پر
مشتمل ہے جو آل سعود کی وہابی رژیم کے خلاف انصاراللہ اور حوثی قبائل کا
ساتھ دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اب تک یمن میں فرقہ وارانہ ٹکراو سامنے نہیں
آیا۔ اب امریکہ، مغربی طاقتیں اور سعودی رژیم سنی اکثریتی صوبے الحدیدہ پر
قبضہ کر کے یمن میں فرقہ واریت پھیلانے کی منحوس سازش پر کاربند ہو چکے
ہیں۔ آل سعود رژیم اور اس کی حامی مغربی طاقتیں تصور کرتی ہیں کہ الحدیدہ
کو انصاراللہ کے کنٹرول سے خارج کر کے اور سعودی، اماراتی، امریکی، برطانوی
اور فرانسوی مشترکہ فورسز کی جانب سے سمندری محاصرے کے ذریعے انصاراللہ کے
زیر کنٹرول علاقوں میں مقیم شہریوں کو شدید اقتصادی دباو کا شکار کیا جائے
تاکہ وہ حوثی انتظامیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اس طرح یمن میں شیعہ سنی
جنگ شروع ہو جائے۔
ج)۔ الحدیدہ پر قبضے کا تیسرا مقصد انصاراللہ یمن کو کمزور ظاہر کرنا ہے
تاکہ اس طرح ایسے صوبوں میں عوامی بغاوت کا زمینہ فراہم کیا جا سکے جہاں
اکثر آبادی اہلسنت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ، سعودی عرب اور مغربی
ممالک الحدیدہ پر قبضہ کر کے یمن کے اہلسنت شہریوں کو یہ پیغام دینا چاہتے
ہیں کہ انصاراللہ کی پوزیشن کمزور ہو چکی ہے لہذا اس کے خلاف بغاوت کر کے
اس کی حکومت سرنگون کی جا سکتی ہے۔ اس بغاوت کے نتیجے میں صوبوں کے مراکز
پر انصاراللہ کا کنٹرول ختم کیا جا سکتا ہے۔
د)۔ امریکہ، سعودی عرب اور مغربی طاقتوں کی جانب سے الحدیدہ پر قبضے کا ایک
اور مقصد سفارتی میدان میں مذاکرات کی میز پر انصاراللہ یمن کو اپنی شرائط
ماننے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی اتحاد کی جانب سے تمام
تر وحشیانہ اور غیر انسانی اقدامات انجام دینے کے باوجود وہ الحدیدہ شہر
اور اس کے مرکز پر کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ گذشتہ چند
ہفتوں کے دوران انصاراللہ اور الحدیدہ یا دیگر شہروں کے اہلسنت باشندوں کے
درمیان کسی قسم کے تناو یا ٹکراؤ کی علامات بھی نہیں دیکھی گئیں۔ لہذا اس
فوجی کاروائی کی شکست ابھی سے عیاں ہے۔
4)۔ یوم القدس کی مناسبت سے یمن کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی ریلیوں
میں وسیع پیمانے پر یمنی باشندوں کی شرکت اور دارالحکومت صنعا کی ریلی میں
انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین حوثی کا اسٹریٹجک خطاب اور ان
کی جانب سے غاصب اسرائیلی رژیم کے خاتمے پر تاکید سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی
حکام کے تصور کے برخلاف انصاراللہ نہ تو اندرونی مشکلات کا شکار ہے اور نہ
ہی سعودی عرب کے خلاف جنگ میں تھکاوٹ کا شکار ہوئی ہے۔ انصاراللہ کی جانب
سے یمن کی سرحد کے قریب واقع سعودی فوجی ٹھکانوں کو مسلسل درمیانے رینج کے
میزائلوں سے نشانہ بنانے اور حالیہ چند دنوں میں حیس، الخوخہ، نہیم اور
خالد پر سعودی اماراتی حملوں کی ناکامی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عبدالملک
بدرالدین حوثی کے افراد کسی قسم کی مشکلات کا شکار نہیں۔ اسی طرح صحرائی
صوبے الجوف میں سعودی آرمی کو شکست دینے اور مزویہ کا وسیع علاقہ ان کے
قبضے سے آزاد کروانے سے بھی انصاراللہ کی فوجی آمادگی ظاہر ہوتی ہے۔
5)۔ یمن کے زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ وقت سعودی عرب کے نقصان میں آگے
بڑھ رہا ہے جبکہ الحدیدہ میں بے پناہ فوجی طاقت کا اکٹھ بھی ظاہر کرتا ہے
کہ سعودی اتحاد کے پاس وقت کی انتہائی قلت ہے۔ تقریباً ایک ہفتے میں صوبہ
الحدیدہ میں سعودی اتحاد کے 500 افراد کا مارا جانا جن میں ایک سعودی
بریگیڈیئر بھی شامل ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ الحدیدہ میں سعودی،
اماراتی، امریکی، برطانوی اور فرانسوی افواج کی کاروائی کا انجام واضح ہے
لہذا کہا جا سکتا ہے کہ سعودی حکام میدان جنگ کا پانسہ پلٹنے کی طاقت نہیں
رکھتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟
اگرچہ اس سوال کا جواب آسان نہیں لیکن سعودی اور امریکی حکام کے بارے میں
ماضی کے تجربات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہر بار اپنا دباو بے
نتیجہ ثابت ہونے کے بعد ایک عرصے تک پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور کوئی اقدام
انجام نہیں دیتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الحدیدہ کے خلاف مغربی عربی
مشترکہ سنگین فوجی کاروائی کی شکست کے بعد سعودی رژیم پر اندر اور باہر سے
دباو میں اضافہ ہو جائے گا۔ مغربی حکام تقریباً دو ماہ پہلے تک یہ دعوی
کرتے نظر آتے تھے کہ سعودی حکام یمن کے خلاف جنگ کو نتیجہ خیز نہیں بنا
سکتے لیکن اس کے باوجود سعودی حکام نے انہیں ایک بار پھر یمن کے خلاف فوجی
جارحیت میں شرکت پر راضی کر لیا۔ حالیہ فوجی کاروائی کی شکست انہیں اس حتمی
نتیجے تک پہنچا دے گی کہ یمنی عوام پر دباو میں اضافے کا نتیجہ ان کے
انصاراللہ کے گرد اتحاد کی مضبوطی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ |