انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں نبی صلی اللہ
علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ، اہل مدینہ کے لیے دود ن ایسے تھے جس میں وہ
زمانہ جاہلیت میں کھیل کود کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"
میں تم لوگوں کے یہاں آیا اس حال میں کہ تمہارے پاس دودن ایسے تھے جس میں
تم لوگ زمانہ جاہلیت میں کھیلاکرتے تھے،اب اللہ نے تم لوگوں کو اس دو دن کے
عوض ا س سے بہتر دو دن عطاء کیا ہے وہ قربانی اور عید الفطر کا دن
ہے"۔[صحیح، ابوداود،حدیث رقم،۱۱۳۴]
شیخ احمد عبدالرحمن بنا فرماتے ہیں:' اس لیے کہ عید فطر اور عید قربان کے
دو دن اللہ تعالی کی جانب سے تشریعی حکم رکھتا ہے،جسے اللہ نے اپنی مخلوق
کے لیے اختیار کیا ہے۔ اور اس لیے کہ دونوں [ عید الفطر اور اضحی] ارکان
اسلام کےدو عظیم رکن کی ادائیگی کے بعد آتے ہیں، اور وہ ہے، حج اور روزہ،جس
میں اللہ تعالی حجاج اور روزے داروں کی مغفرت فرماتا ہے اور اپنی رحمت کو
اپنے تمام مطیع وفرماں بردار مخلوق پر نچھاوڑ کردیتا ہے۔۔۔"۔[الفتح
الربانی،۹[۶/۱۱۹]
عیدکی نماز کے لیے زیب وزینت اختیار کرنا:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:{{ یآایھا الذین آمنوا خذوا زینتکم عند کل مسجد}}
اے ایمان والو مسجد کے لیے خود کو زیب وزینت سے آراستہ کرو۔
معلوم ہوا کہ جب پنجوقتہ نماز کے لیے زیب وزینت اختیار کرنا اللہ تعالی کے
نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے ،پھر عیدین کے لیے تو بدرجہ اولی ایک مسلمان کو
اچھی ہیئت وشباہت میں عید گاہ کا رخ کرنا چاہئے ، اس لیے کہ یہ خوشی کا دن
ہے۔زیب و زینت میں ، غسل، اچھے لباس زیب تن کرنا، خوشبو لگانا، سرمے کا
استعمال وغیرہ شامل ہے۔
غسل کرنا :
ابن عمر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے دن نماز کے لیے نکلنے سے پہلے غسل کرتے
تھے۔
سعید بن مسیب فرماتے ہیں:" عید الفطر کی تین سنتیں ہیں: مصلی[عید گاہ]
جانا، نکلنے سے پہلے [کھجوڑیں] کھانا اور غسل لینا۔
خوشبو لگانا:
ابن عمر رضی اللہ عنہ عید الفطرکے دن غسل لیتے اور خوشبو لگاتے۔
عمدہ پوشاک زیب تن کرنا:
ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: عمر [رضی اللہ عنہ] نے ریشمی جبہ لیا
جو کہ بازار میں فروخت کیا جارہا تھا،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی خدمت
میں آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول اسے خرید لیجیے ،عید اور وفود [سے ملاقات
]کے وقت اس سے آراستہ ہوئے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ
ان لوگوں کا لباس ہے جس کا [آخرت] میں کوئی حصہ نہیں"۔[بخاری،حدیث
رقم،۸۸۶]،[مسلم،حدیث رقم،۲۰۶۸]
علامہ سندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس سے معلوم ہوا کہ عید کے دن زیب وزینت
اختیار کرنا ان کے درمیان ایک ثابت بات تھی،جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے نکیر نہیں کی،یہ اس عادت کے باقی ہونے پر دال ہے۔[حاشیہ سندی علی
النسائی،۳/۱۸۱]
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابن ابی الدنیا اور بیھقی نے صحیح سندوں کے ساتھ ابن عمر سے روایت کیا ہے
کہ وہ عیدین کے دن سب سے اچھا لباس زیب تن فرماتے تھے۔"فتح الباري" (2/439)
لباس سے متعلق چند ضروری ہدایات:
• اس طرح کے لباس سے بچنا چاہیے جسے عام طور پر اس سماج کے لوگ زیب تن نہ
کرتے ہو، اس لیے کہ بعض اوقات یہ لباس ہی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے، اور
ایسے لباس کو فقہاءکرام نے"لباس الشہرہ" سے تعبیر کیا ہے۔
• اسی طرح غیر مسلموں کے مذہبی لباس سے بھی احتراز ضروری ہے جسے ان کے کچھ
خاص طبقے کے لوگ استعمال کرتے ہوں، جیسے کرسچن کے پادریوں جیسا لباس،
ہندووں کے پنڈتوں جیسا لباس ،شیعوں جیسا جبہ ودستار اور پگڑی۔
• ایسا لباس بھی ممنوع ہے جس میں جاندار کی تصویرہو۔
• اسی طرح چست پوشاک جس سے جسم کی بناوٹ نمایاں ہوتی ہو۔ یا جس کی بناوٹ
ایسی باریک ہو کہ جسم برہنہ نظر آتا ہو۔
• ریشم یا سونے کی کاریگری سے تیار کیا گیا لباس ۔
• مردوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ ٹخنے سے نیچے لٹکا ہوا ازار پہنے۔پاجامہ
،لنگی یا اس سے مشابہ کوئی لباس جسے کمر سے نیچے باندھتے ہیں یا پھر کوئی
ایسا لباس جو اوپر سے نیچے تک لٹکا ہو اور ٹخنے سے نیچے جاتا ہو، جیسے
شیروانی، جبہ وغیرہ۔
مذکورہ لباس ایسے زمرے میں شامل ہے جسے یاتو تشبہ بالکفار کہا جائے گا،یا
پھر اس سے ستر پوشی ممکن نہیں، اور اگر ممکن ہے بھی تو وہ جاندار کی تصاویر
یا ممنوع دھاگے کی بناوٹ کی وجہ سے حرام ہے۔
اور جن چیزوں کو شریعت نے ممنوع ٹھہرایا ہے بہر حال وہ تمام چیزیں ایک
مسلمان کے لیے زیب وزینت کا سامان نہیں بن سکتیں۔بلکہ اس قسم کی اشیاء کا
استعمال شریعت کی مخالفت ہے ، جس میں بہت سے لوگ عید کے دن شامل دکھائی
دیتے ہیں۔
بدبودار اشیاء کے ساتھ مسجد یا اس جیسے مقامات سے قریب ہونا:
لہسن ،پیاز یا ان جیسی کوئی خوردو نوش کی اشیاء کا استعمال۔یعنی جب مسجد یا
عید گاہ یا اس جیسی جگہ کسی مصلے سے قریب ہوں تو اس قسم کی چیزوں کا
استعمال کرکے نہ آئیں، اور اگر استعمال کیا بھی ہو تو اچھے سے منھ کو صاف
کریں تاکہ اس کی بدبو زائل ہوجائے، بہتر ہے کہ سرے سے استعمال نہ کریں ، اس
لیے کہ بارہا بدبو کا شائبہ باقی رہ جاتا ہے،جو کہ فرشتوں کو تکلیف دینے کے
ساتھ نمازیوں کے ایذاء کا بھی باعث ہے۔اور یہی علت حدیث کے اندر بیان کی
گئی ہے۔
جملہ قسم کا تمباکو جیسے سگریٹ ،بیڑی، کھینی، گٹکھا وغیرہ کا استعمال۔ اس
کے استعمال کی ایک صورت تو سابقہ اشیاء کے استعمال جیسی ہے کہ آپ اس کے
استعمال کے بعد مسجد یا اس جیسی جگہوں میں آتے ہیں،اور دوسری صورت یہ ہے کہ
ان چیزوں کو مسجد یا اس جیسے مقامات پر استعمال کرتے ہیں، جو کہ پہلی صورت
سے کہیں زیادہ بڑا اخلاقی جرم ہے ،ساتھ ہی اس مقدس جگہ کی پامالی ہے۔
رہی بات اس کے حکم کی تو اس کا حکم سابقہ اشیاء کے حکم سے بہت مختلف ہی
نہیں بلکہ چند وجوہ کی بنیاد پر اس کا استعمال حرام ہے۔
• یہ مخدرات ہیں جن کا استعمال ہر جگہ اور وقت میں حرام ہے۔
• یہ فرشتوں کو تکلیف دینے کے ساتھ نمازیوں کے ایذاء کا بھی باعث ہے۔ اس
لیے کہ اس قسم کی اشیاء سے نکلنے والی بدبوئیں ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔
• ساتھ ہی اس کا استعمال کرنے والا مسجد یا اس جیسے مقامات کے تقدس کی
پامالی کا مرتکب ہوتا ہے۔
اسی طرح ایسی خوشبو یا تیل سے بھی پرہیز کرنا چاہیے جو بہت سخت ہو، اور عام
لوگ پسند نہ کرتے ہوں۔
بعض بھائیوں کا پسینہ ایذاء کا سبب ہوتا ہے انہیں چاہیے کہ وہ ایسے غیر مضر
موا د کا ضرور استعمال کریں جس سے پسینے کی بدبو زائل ہوجائے، اور اس طرح
کی چیزیں بازاروں میں دستیاب ہیں۔
نماز فطر کے لیے نکلنے سے قبل طاق کھجوریں تناول فرمانا سنت ہے:
عبداللہ بن بریدہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب عید
الفطر کا دن ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تک کچھ تناول نہ فرمالیتے
[عید گاہ لیے] نہ نکلتے، اور عید الاضحی کے دن ذبح ہونے تک کچھ بھی تناول
نہ فرماتے۔
[ترمذی،حدیث رقم،۵۴۲]،[ابن ماجہ،حدیث رقم،۱۷۵۶]،[احمد،حدیث
رقم،۲۲۹۸۳،۲۳۰۴۲]
زکاۃ فطر کی ادائیگی نماز عید سے قبل ہی اللہ کے یہاں مقبول ہے:
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو
لغو اور واہیات کاموں سے پاک کرنے اور مسکینوں کی خوراک کے واسطے صدقۃ
الفطر کو فرض کیا،اب جس نے نماز سے پہلے اسے ادا کیا تو اس کا صدقہ [اللہ
کے یہاں]مقبول ہے،اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صدقات میں سے
ایک[عام]صدقہ ہے۔[ابوداود،حدیث رقم،۱۶۰۹]،[ابن ماجہ،حدیث رقم،۱۸۲۷]
زکاۃ فطر کی ادائیگی نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے مستحب ہے:
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ
فطر کا حکم دیا کہ اسے لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کیا
جائے۔[بخاری،حدیث رقم،۱۵۰۹]،[مسلم،حدیث رقم،۲۲۸۸]
عید گاہ جاتے ہوئے بلند آواز میں تکبیر کہنا :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ عید کے دن نکلتےتھے اور عید گاہ
پہنچ جانے اور نماز ادا کرلینے تک تکبیر کہتے رہتے تھے، اور جب نماز پوری
کرلیتے تو تکبیر بند کردیتے"۔
[ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور محاملی نے کتاب صلاۃ العیدین میں صحیح سند
سے روایت کیا ہے، لیکن روایت مرسل ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں،سلسلۃ
الاحادیث الصحیحۃ،[۱۷۰]
امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" حدیث میں اس بات کی مشروعیت کی دلیل
ہے کہ عید گاہ جاتے ہوئے راستے میں بآواز بلند تکبیر کہنے پر مسلمانوں کا
عمل رہا ہے ،گرچہ بہت سے لوگ اس سنت سے تساہلی برتنے لگے ہیں ،یہاں تک کہ
[یہ خدشہ ہوچلا ہے کہ یہ] ماضی کی خبر بن کر نہ رہ جائے۔۔
عید گاہ جانے اور لوٹنے میں راستے کی تبدیلی سنت ہے:
عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے
لیے نکلتے کوئی راستہ اختیار کرتے اور جب عید گاہ سے لوٹتے تو دوسرے راستے
سے لوٹتے۔
[ابوداود،حدیث رقم،۱۱۵۶]،[ابن ماجہ،حدیث رقم،۱۲۹۹]،[احمد،حدیث رقم،۵۸۷۹]
عید سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں: جب رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم مصلی [عید گاہ]کو تشریف لاتے تو نہ ہی اس سے پہلے کوئی نماز
پڑھتے اور نہ ہی بعد میں، یہاں تک کہ[عید گاہ سے] لوٹ جاتے۔[ابن ماجہ،حدیث
رقم، ۱۲۹۳]،[احمد،حدیث رقم،۱۱۲۲۶،۱۱۳۵۵]
نماز عیدین خطبہ سے پہلے ہے:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،فرماتے ہیں:" میں نبی صلی اللہ علیہ
وسلم ،ابوبکر،عمر اور عثمان[رضی اللہ عنہم]کے ساتھ عید کی نماز میں شریک
ہوا، اور سبھوں نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز ادا
کی۔[بخاری،حدیث رقم،۹۶۲]،[مسلم،حدیث رقم،۲۰۴۴]
نماز عیدین میں تکبیروں کی تعداد:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،فرماتے ہیں:"[رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم] عید کے دن بارہ تکبیریں کہتے تھے،سات تکبیریں پہلی رکعت میں اور پانچ
دوسری میں۔
[ابن ابی شیبہ،۲/۱۷۶]
نماز عیدین میں جن سورتوں کی تلاوت مسنون ہے:
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم عیدین اور جمعہ میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتاک حدیث الغاشیۃ
کی تلاوت فرماتے تھے،بسا اوقات عید اور جمعہ اکٹھی ہوجاتی تو ان دونوں میں
بھی اسی کی تلاوت کرتے"۔
[مسلم،حدیث رقم،۲۰۲۸،۲۰۲۹]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے أبو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا:" نبی
صلی اللہ علیہ وسلم [نماز]عید میں کیا تلاوت فرماتے تھے؟انہوں نے
فرمایا:[سورۃ]قاف اور اقتربت"۔
[مسلم،حدیث رقم،۲۰۵۹،۲۰۶۰]
عید کاخطبہ سننا واجب نہیں مستحب ہے:
ابن عباس رضی اللہ عنہما عیدالفطر اور یا اضحی کے دن نماز اور خطبہ کے
درمیان کے تعلق سے فرمایا:"میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الفطر
یا اضحی میں شریک ہوا،جب [آپ صلی اللہ علیہ وسلم]نماز سے فارغ ہوئے تو
ہماری جانب اپنا رخ کیا اور فرمایا:" اےلوگوں تم نے بہت سارا خیر کمایا،اب
تم میں سے جوجانا چاہتا ہے وہ جائے اور جو چاہتا ہے کہ وہ کھڑا ہو تاکہ
خطبہ سن سکے تو وہ کھڑا ہوجائَے۔[یہ حدیث گرچہ موضوع ہے لیکن اس کی اصل عبد
الله بن السائب کے طریق سے دیگر کتب احادیث میں موجود ہے]ملاحظہ
ہو:[ابوداود،حدیث رقم،۱۱۵۵]،[نسائی فی الصغری،حدیث رقم، ۱۲۹۰]،[نسائی کبری
،حدیث رقم، ۱۷۷۹]،[ابن ماجہ،حدیث رقم،۱۲۹۰]،[ابن خزیمہ،حدیث رقم، ۱۴۶۲]
مذکورہ حدیث کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خطبہ نہ سناجائے ،بلکہ اس صرف اس کا
صحیح حکم بتانا مقصود ہے۔
عیدین کی تہنئہ پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں:
عمر بن عبدالعزیز کے غلام ادہم فرماتے ہیں کہ ہم لوگ عمر بن عبدالعزیز کو
عیدین کےموقع سے "تقبل اللہ منا ومنک یا امیر المومنین "کہتے تھے، لیکن اس
بات پر انہوں نے منع نہیں کیا ۔
[بیھقی نے الکبری ،حدیث رقم،۶۲۹۶،اور شعب الایمان میں،حدیث رقم،۳۷۲۰ روایت
کیاہے]اس کی سند ضعیف ہے۔
تاہم اس کے اثبات میں ائمہ کرام کے کچھ اقوال درج ذیل ہیں:
صفوان بن عمرو سکسکی فرماتے ہیں: میں نے عبداللہ بن بسر مازنی، خالد بن
معدان، راشد بن سعد، عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اور عبدالرحمن بن عائذ
وغیرہ شیوخ کو دیکھا وہ لوگ یوم عید کے موقع پر آپس میں ایک دوسرے کو "
تقبل اللہ منا ومنکم کہتے ۔۔۔۔"[تاریخ دمشق،۲۴/۱۵۴]
حرب کہتے ہیں:" عیدین کے موقع سے لوگوں کے قول "تقبل اللہ منا ومنکم " کیی
بابت احمد [رحمہ اللہ سے پوچھا گیا،تو انہوں نے کہا:"کوئی حرج کی بات نہیں،
اس[عمل]کو اہل شام ابوامامہ سے روایت کرتے ہیں،پھر کہا گیا:اور واثلۃ بن
الاسقع سے بھی؟فرمایا:ہاں،پھر کہا گیا آپ اس بات کو ناپسند نہیں کرتے کہ
عید کے دن یہ کہا جائے،فرمایا:نہیں۔[المغنی:۲/۲۹۴]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہسے اس بابت پوچھا گیا تو فرمایا:" جہاں تک
عید کے دن بطور تہنئۃ تقَبْلَ الله منَّا وَمِنْكُمْ، وأحاله الله عليك، یا
اسی جیسے کچھ کلمات کی بات ہے جیساکہ لوگ عیدکی نماز کے بعد ایک
دوسرے کو پیش کرتے ہیں تو یہ بات صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ وہ لوگ
ایسا کرتے تھے،اور اس مسئلہ میں ائمہ کرام جیسے امام احمد وغیرہ نے رخصت دی
ہے۔۔۔"۔ [مجموع فتاوی،۲۴/۲۵۳]
عید کے دن کھیل کود کا اہتمام مباح ہے:
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عید کے دن ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے
یہاں آئے،ان کے پاس دو بچیاں کھیل رہی تھیں اور دف پر گا رہی تھیں،اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے،اس پر ابوبکر نے ان کو منع کیا اور
کہا تم لوگ ایسا کررہی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہیں؟ [اس
بات پر] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دعھما یا أبا بکر ،فان
لکل قوم عیدا،وھذا عیدنا"۔اے ابوبکر ان دونوں کو چھوڑ دو، بلاشبہ ہر قوم کی
ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہم سب کی عید ہے۔
[بخاری،حدیث رقم،۹۵۲]،[مسلم،حدیث رقم،۲۰۶۱]
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:" حبشیوں نے عیدکے دن رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے سامنے کھیل پیش کیا،عائشہ رضی اللہ عنہا کھڑی ہوگئیں اور
دیکھنے لگیں، اور وہ اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاندھے مبارک پر
رکھے ہوئی تھیں یہاں تک کہ کھیل ختم نہ ہوگیا۔
[بخاری،حدیث رقم،۴۵۴،۴۵۵]،[مسلم،حدیث رقم،۲۰۶۳]
عید اور جمعہ کے اکٹھاہونے کا حکم:
ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں دو عید[عید اور جمعہ]اکٹھی ہوگئی ،عید
کی نماز ادا کی اور جمعہ نہیں کیا ،اس کی خبر جب ابن عباس کو دی گئی تو
انہوں نے فرمایا: اس نے سنت کو پالیا۔
[صحیح نسائی، حدیث رقم، ۱۵۹۱، امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح
کہا ہے]
اللہ تعالی سے دعا ء وہ ہماری جملہ عبادتوں کو قبول فرمائے ، اور گناہوں کو
بخش دے۔ |