رمضان بے شک وداع لے ۔۔ مگر روزہ باقی رہے

پابند نہیں گردشِ ایام کا ایمان

 کہا جاتا ہے کہ گیا وقت کبھی واپس نہیں آتا ۔اور گزرتے وقت کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ کیونکہ وقت ایک ایسی شئے ہے کہ جس پر موت کی مانند کسی کا بھی زور چلتا نہیں ہے۔اس کے سامنے بلا لحاظِ منصب و مشرب، جنس وذات ہر ایک انسان مجبورِ محض ہے۔ بات کھل کر کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہاں بادشاہ و فقیر ،امیر و غریب، حاکم و محکوم ،عالم و جاہل ،قوی و کمزور اور عاقل و احمق غرض ہر کوئی ایک ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ہر شخص اپنی بساط وظرف کے مطابق وقت سے استفادہ کرتا ہے۔دوسری بات یہ کہ جو کوئی اچھا یا برا عمل ایک انسان اس گزرتے وقت میں سر انجام دے وہ اس کے ساتھ ضرور بضرور رہے گا بشرطیکہ برے کام کی تلافی ہو اوراچھے کام کی حفاظت۔جی ہاں کسی بھی کام کا دوام اس کی مطلوبہ حفاظت پر منحصر ہے۔ ورنہ کام کتنا بھی اہمیت کا حامل ہو اسکی تاثیر ہر گزرتے ساعت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔اپنی تمام برکتوں ،رحمتوں اور مغفرتوں کے باوصف ماہِ مبارک رمضان بھی اس سنتِ الٰہی سے مثتثنیٰ نہیں ہے۔ٹھیک اسی طرح جس طرح خدا نے اپنے محبوب ترین بندوں کوبھی تمام بنی آدم کی طرح موت سے اثتثنیٰ نہ دیا ہے۔ اس طرح اس ماہ مبارک کو بھی جسے اﷲ نے شہراﷲ کہہ کر اپنے ساتھ منسوب کیا ہے ۔وقت کے عمومی اصول و قوانین کا پابند بنایا ہے ۔یعنی جتنے گھنٹے جتنے ساعتیں جتنے منٹ اور سیکنڈ دیگر مہینوں میں ہوا کرتے ہیں۔اتنے ہی اس خاص مہینے میں بھی ہوتے ہیں یہ بات اور ہے کہ معنویت اور تاثیر کے اعتبار سے یہ ماہِ سعید سالوں بلکہ صدیوں پر بھاری ہوتا ہے۔

بہر حال ہر سال دیگر مہینوں کی مانند ماہ رمضان آتا بھی ہے اور چلا بھی جاتا ہے۔اور مسلم معاشروں میں اس کی اثر آفرینی اور معنوی جلالت واقعاً دیدنی ہوا کرتی ہے۔ماہ ِ مبارک کی آمد سے ایک مسلمان فردی سطح پر بھی اور معاشرتی سطح پر بھی اپنے تئیں ایک مثبت تبدیلی ضرور محسوس کرتا ہے ۔ اسے ایک قسم کے روحانی کیف و سرور کا ماحول فراہم ہوتا ہے۔ٹھیک اس طرح جیسے موسم ِ خزاں کے چلے جانے اور موسمِ بہار کی آمدپر تمام نباتات و حیوانات ، چرند و پرند ،لالہ زار و کہسار ایک خاص قسم کے وجد کی کیفیت میں آجاتے ہیں۔ جس کی تصویر کشی شاعر مشرق نے اپنے مخصوص انداز میں کچھ یوں کی ہے۔
ہوا خیمہ زن کاروان ِ بہار ارم بن گیا دامن کوہسار
گل و بلبل و سوسن و نسترن شہیدِ ازل لالہ خونین کفن
فضا ء نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

چنانچہ بہارِ رمضان میں بھی ہر طرف روحانی چمن زار کھل اٹھتے ہیں۔ بندگی و بندہ پروری کے کوہسار و لالہ زار جنت کا سا سماں باندھتے ہیں۔ گلشن اسلام کی بلبلیں کلام ِ الٰہی کی چہک سے پوری فضاء کو ہمہ تن گوش بناتی ہیں۔طائران ِعبودیت یعنی فرشتے اس معنوی فضاء کو دیکھ کرعالمِ ملکوت کو چھوڑ کرعالمِ ناسوت میں بلا ناغہ آجاتے ہیں۔ اور پھر اس روحانی فضاء میں محو ِ پرواز ہو جاتے ہیں۔عبودیت کی اس بہار کی تاثیر سے ہر مومن کی روح رقص کرنے لگتی ہے۔شیطان اور شیطان صفت عناصر کا ایسے ماحول میں دم گھٹنے لگتا ہے۔المختصر ان روح پرورایام میں ایک بندہ ٔخدا الٰہی نعمتوں اور برکتوں سے جس قدر فیض یاب ہو سکتا ہے دیگر ایام میں ہونا ممکن نہیں۔البتہ جیسا کہ مضمون کی تمہید میں ہی کہا گیا ہے۔ کہ ماہ مبارک رمضان باقی مہینوں سے فضیلت کے اعتبار سے افضل و اعلیٰ تو ہے مگر دیگر مہینوں اور ایام سے مربوط ضرور ہے۔اور بہارِ رمضان میں جو فیوض و برکات ایک بندہ مومن حاصل کرے لازم ہے کہ سال کے باقی مہینوں میں اس کی حفاظت کرے اور ان سے مسلسل استفادہ کرے۔ جو سحر خیزی ،انسانی ہمدردی ،فروتنی ،تحمل و برداشت ،تلاوتِ قرآن کی عادت ،پابندیٔ صلوٰۃ ،شب بیداری ،جیسی نعمتیں ایک روزہ دار نے ماہ مبارک میں سمیٹی ہوں۔ان سے سال بھر مستفید ہو نے کی ضرورت ہے بصورت دیگر اس کی مثال اس شخص کی سی ہو گی کہ جس نے کسی اچھے کارنامے پر اعلیٰ پایہ کی محفل میں ایک عظیم انعام حاصل کیا ہو مگر جوں ہی اس محفل سے باہر آگیا۔ وہ اس انعام کی قدر و قیمت اور حفاظت سے قدرے غفلت کا شکار ہو گیا اور صدر دروازے پر اس کی تاک میں بیٹھا چور وہ قیمتی انعام و اثاثہ اسے چھین کر بھاگ کھڑا ہو ا۔یوں ہی ایک مومن کو معلوم ہونا چاہئے کہ محض رمضان المبارک میں اعمال و عبادات کوذخیرہ کرنا کافی نہیں ہے۔ سال بھر شیطانِ رجیم کے شر سے اس ذخیرے کو بچانے کا اہتمام بھی ضرور کر لینا چاہئے۔اور بقیہ ایام میں اس سے استفادہ بھی کرنا چاہئے۔وہ کسان کس قدراحمق اور بد بخت ہے کہ جو خاص ایام میں محنت و مشقت کرکے ایک بڑا ذخیرہ ٔاناج جمع کرلے اور پھر اس ذخیرے سے غافل ہو کر اپنے خون پسینے کی کمائی کو اپنے ہی ہاتھوں تلف کردے۔اس روزے دار کی مثال بھی اسی کسان جیسی ہے جو ماہ رمضان میں تمام تر سختیوں کو برداشت کر کے اعمال کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کرلے ۔اور ماہ صیام کے رخصت ہوتے ہی پھر سے گناہ و بازار ِمعصیت کے جھمیلے میں اس معنوی ذخیرے کو گم کردے۔کہا جاتا ہے کہ بلندی تک پہنچ جانا اس قدر مشکل نہیں ہوتا جتنا وہاں پر ٹھہرے رہنا ۔اس لحاظ سے جس معنوی بلندی پر ماہِ صیام میں ایک مسلمان خیمہ زن ہوتا ہے اسے چاہئے کہ وہ وہاں پر قدم جمائے رکھے۔کسی بھی صورت استقامت و پامردی کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔

در اصل ماہِ مبارکِ رمضان ماہِ تربیت ہے ۔اور تربیت فعالیت وعملیت کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ اور ہر تربیت کا لازمہ ہوتا ہے کہ اس تربیت کا عملی طور پر استعمال ہو۔بصورتِ دیگر تربیت کا مد عا و مقصد فوت ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس تربیت کا گوہر ِ مقصود بھی زائل ہونے لگتا ہے ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تربیت یافتہ ڈاکٹر اپنی سندِ تربیت کو سرہانے رکھ کر گہری نیند سو جائے۔کوئی شخص استادی کے ٹرائنگ کورس سے مستفید ہو لیکن پھر درس و تدریس سے اسے واسطہ نہ پڑے۔کسی نے پولیس کی بنیادی ٹرائننگ لی اور پھر کبھی بھی پولیس فورس جوائن نہیں کیا۔اور کبھی بھی عملی میدان میں اپنی تربیت کو استعمال میں نہ لایا۔اسے بھی افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایک تربیت یافتہ ڈاکڑ ڈرگ مافیا بن جائے۔ ایک ماہر استاد بچوں کو پڑھانے کے بجائے انسانی اسمنگلنگ کے دھندے کا حصہ بنے اور تربیت یافتہ پولیس والا جرائم کا قلع قمع کرنے کے بجائے جرائم پیشہ گروہ میں شامل ہو جائے۔جسے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ محض تربیت یافتہ ہونا کافی نہیں ہے تربیت کی کوئی نہ کوئی ٹھوس غرض و غایت ہوا کرتی ہے۔ اس غرض و غایت سے اعراض اس محنت و مشقت پر بھی پانی پھیردیتا ہے کہ جس کا سامنا ایک تربیت پانے والا شخص دوچار ہوتاہے۔

اگر ماہِ مبارک رمضان میں تمام حرام کاموں سے بچنے اور نیک کاموں کی رغبت کی مشق ہوتی ہے کہ تو لازم ہے کہ اس مشق کا فائدہ سال بھر اٹھایا جائے۔لیکن ہمارے معاشرے کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم ماہِ رمضان میں عبادات و اعمال کا اہتمام بڑے زورو شور سے کرتے ہیں مگرایک جانب رمضان المبارک رخصت کیا ہو اکہ دوسری جانب ہم اپنی سابقہ روش پر پھر سے گامزن ہوئے۔ایسے افرادکی کوئی کمی نہیں کہ جو رماہِ صیام میں پابند ِ صوم و صلوٰۃ ہو گئے لیکن ادھر رمضان رخصت ہواادھر انہوں نے بھی عبادتِ خداوندی سے سال بھر کے لئے رخصت لی ۔جبکہ خدا کی بندگی سے ایک لمحے کے لئے بھی رخصت ملنا محال ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ماہِ صیام میں نمازیوں سے مسجدیں کھچا کھچ بھرجاتی ہیں اوربعض مسجدوں میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی لیکن اس کے بعد ان مسجدوں کا اﷲ ہی حافظ۔بات کس قدر مضحکہ خیزہے کہ ماہِ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو مسجد اقصیٰ کی آزادی کے حق میں جلوس میں پیش پیش افراد سال بھر اپنی مقامی مسجد کی جانب بھول کر بھی رخ نہ کریں۔مقامی محلہ مسجد وں یا جامع مسجدوں کو سال بھر غیر آباد رکھنا اور پھر اس ایک جمعہ کو اسرائیل کے مسجدِ اقصیٰ کے قبضے کے خلاف جلوس نکالنا عملی تضاد نہیں تو پھر کیا ہے؟ان جوشیلے جیالوں کو کون بتائے کہ مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمان جوق در جو ق اس عظیم عبادت گاہ میں آزادانہ طور ہر روز سجدہ ریز ہو سکیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو مقامی مسجد کی حرمت اور حق سے نا آشنا ہو وہ محض سال میں ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوا وہ سراسر خود فریبی میں مبتلاہے۔

ماہ صیام کے دوران معاشرے میں بھی مختلف قسم کی مثبت تبدیلیاں جابجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بعض رشوت خور ماہِ صیام کے احترام میں رشوت سے ہاتھ کھینچ لیا کرتے ہیں اور اختتام ِ رمضان پر پھرنہ صرف اپنی سابقہ ڈگر پر آجاتے ہیں بلکہ اس کی بھرپائی سال کے بقیہ ایام میں کرتے نظر آتے ہیں۔حیرانگی تو اس وقت انتہاء تک پہنچ جاتی ہے جب ماہ مبارک کے آغاز میں ہی ہمارے یہاں شراب خانے کے صدر داروازے پر یہ تختی آویزان ہو کہ ماہِ رمضان میں وائن شاپ بند رہے گا۔کیا شراب کی تحریم و حرمت میں رمضان اور غیر رمضان میں کوئی کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔؟ام الخبائث تو ام الخبائث ہے چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان۔اس کی مضرت رساں اثرات بہرحال یکسان رہتے ہیں۔اور اس کی حرمت کے گراف میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی یا زیادتی ہر گز ہرگزواقع نہیں ہوتی۔

ماہ مبارک رمضان کا اصل تقاضہ یہ ہے کہ ایک روزہ دار سال بھر روزے سے ہو۔اور روزہ فقط کھانا پینا ترک کرنے کا نام نہیں ہے۔ کیونکہ چند ایک جزوی پابندیوں کو ہٹتا دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ تمام قسم کی پابندیاں اٹھ گئیں۔تو وہ روزے کی روح سے ناواقف ہے۔قرآن مجید کی رو سے روزے کا مقصد ایک مسلمان کو تقویٰ شعار بنانا ہے۔تو کیا تقویٰ شعاری کی اہمیت و ضرورت فقط ماہ صیام تک محدود ہے؟نفس امارہ کے ساتھ مبارزہ کبھی نہیں تھمتا لہٰذا ایک مومن کو ہر لحظہ اور ہر آن تقوے کی سپرزیب ِ تن رکھنی چاہئے۔ کیونکہ نفس اور شیطان دو ایسے اندرونی اور بیرونی دشمن ہیں جو انسان کے ساتھ ہر وقت آمادہ بہ پیکار رہتے ہیں۔ماہ مبارک کے بعد کوئی بھی غیر شرعی اور حرام مطلق چیزیکایک شرعی اور حلال نہیں ہو جاتی ہے۔دیکھا جائے تو ماہ ِ صیام کے ننانوے فی صد نہی و منکرکے متعلق اسلامی شریعت کے احکام باقی ایام میں تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ تو پھر ہم یہ کیسے سمجھ جاتے ہیں کہ شریعت کی پابندی فقط اسی ایک مہینے کے لئے مخصوص ہے۔غیر محرم کو دیکھنا ، غیبت کرنا، ذہن میں گندے خیالات کو جگہ دینا ،انٹرنیٹ پر فحش مواد کو دیکھنا ،معمولی معمولی باتوں پر غصے سے لال پیلا ہونا،رشوت لینا،نماز کو سبک سمجھنا،دوسرے کے حق پر ہاتھ صاف کرنا،زبان پر گندے الفاظ لانا،اپنے وعدوں سے مکر جانا جیسی برائیاں جس طرح ماہ مبارک میں حرام ہیں اسی طرح بقیہ مہینوں میں بھی ان کی حرمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔اس لئے ہمیں چاہیے کہ ماہِ رمضان کی رخصت کے بعد بھی روحِ رمضان کو اپنے دل سے نکال باہر نہ کریں۔یہ

اسلامی شریعت نے جس طرح تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کیا ہوا ہے اسی طرح یہ شریعت سال کے بارہ مہینے میں نافذالعمل ہوتی ہے ۔ اس کی اہمیت و افادیت میں گردشِ ایام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔اس لئے ماحول کے ساتھ بدل جانا مومنانہ شعار نہیں ہوتا۔ مومن ماہ صیام میں کچھ اور اس کے بعد کچھ اور نہیں ہوتا۔اسلام کی رو سے موسم او ر ماحول دیکھ کر تبدیل ہونے والا حقیقی مسلمان نہیں ہوتا۔بلکہ حقیقی مومن کی یہ شان ہے کہ وہ ماحول پر اثر انداز ہو۔

اختتام رمضان پرہمارا طرزِ عمل کہیں ایسا نہ ہو جو قید سے چھوٹنے کے بعد قیدیوں کا ہوتا ہے۔بلکہ جو خوشگوار اثر کسی مشک بیز اور خوشنما گلستان کے سیر بعد ایک انسان محسوس کرتا ہے۔ اور پھر اس کے طرز عمل میں بھی صحبت ِ گلستان سے ایک قسم کی خوشنمائی اور عطر بیزی جھلکتی رہے۔یوں ہی خداوند کریم کے سجھائے ہوئے معنوی گلستان میں ایک مسلسل ماہ قیام پزیر رہنے کے بعد ہمارے حسن اخلاق سے پورا سال معطر رہے۔اور ہماری پوری زندگی پھول کی مانند باطنی طور بھی دیدہ زیب ہو اور ظاہر بین نگاہ بھی دلکش ہو ۔

Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 61194 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.