کراچی 2018 کے انتخابات میں اہم سیاسی شخصیات کے حصہ لینے
کے باعث بڑا انتخابی اکھاڑا بن کر سامنے آیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی
صدر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، تحریک انصاف کے
چیئرمین عمران خان، متحدہ (پاکستان) کی نسرین جلیل، ایم کیو ایم (پی آئی
بی) کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، پاکستان سرزمین پارٹی کے چیئرمین
مصطفیٰ کمال، عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید، جماعت اسلامی کراچی
(ایم ایم اے) کے امیر نعیم الرحمٰن، مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق
احمد سمیت کئی نامور سیاست دان کراچی سے انتخابی دنگل میں حصہ لے رہے ہیں۔
سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ کہ ملک کا اگلا وزیراعظم کراچی سے نشست جیتنے
والا بھی ہوسکتا ہے۔ سیاسی ہلچل میں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا شہر
قائد کے انتخابی میدان میں اترنا خود اہل کراچی کے لیے بھی ایک بہت بڑے
امتحان کا سبب بنے گا۔ ان کے لیے فیصلہ بڑا مشکل ہوگا کہ بڑی جماعتوں کے
قائدین اور قدآور سیاسی شخصیات کو منتخب یا مسترد کریں، تاہم اب کراچی پر
لسانی سیاست کا جبری خوف نہیں کہ جب انہیں ووٹ ڈالنے کی ضرورت بھی نہیں
پڑتی تھی اور انتخابی حلقے میں 99.6 فیصد ووٹ ڈالنے کا عالمی ریکارڈ بن
جاتا تھا۔ دار فانی جانے والے عالم برزخ سے ووٹ ڈالنے آتے تھے ، لواحقین
اپنے متوفی عزیز داروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کا رخ کرتے
تو انہیں ’’فرشتے‘‘ بتادیتے کہ وہ ابھی ابھی اپنا اور آپ کا بھی ووٹ ڈال
کر چلے گئے ہیں۔ آپ کی آمد کا شکریہ۔
پہلی بار کسی سیاسی جماعت نے فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کا مطالبہ
نہیں کیا۔ یہ ایک اچھی سیاسی روایت کا آغاز تھا لیکن ابھی ہمارے جمہوری
ادارے، سیاسی جماعتیں اور ملکی حالات اس قدر مضبوط نہیں ہوئے کہ صاف و شفاف
انتخابات کے ساتھ پُرامن ماحول میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا جاسکے۔
ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق 86 ہزار 436 پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر
پاک فوج کے اہلکار تعینات ہوں گے۔ پولنگ بوتھ کی تعداد 2لاکھ 85ہزار کے
قریب ہے، نیز 20 ہزار انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے
بھی لگائے جائیں گے جو صوبائی حکومت لگائے گی جب کہ حساس اور انتہائی حساس
پولنگ اسٹیشنوں پر اضافی سیکیورٹی اقدامات کیے جائیں گے۔ ترجمان نے بتایا
کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور ترسیل فوج کی نگرانی میں ہوگی، پاک فوج تمام
پرنٹنگ پریسوں کو 27 جون سے 25 جولائی تک فول پروف سیکیورٹی فراہم کرے گی۔
قریباً86 ہزار پولنگ اسٹیشن کے اندراور پاک فوج کے اہلکاروں کی تعداد کم
ازکم تعداد تین لاکھ سے زائد بنتی ہے، تاہم ترجمان نے بتایا کہ ایک عمارت
میں کئی پولنگ اسٹیشن قائم ہوتے ہیں، اس لیے 86ہزار کے بجائے پولنگ اسٹیشن
کی عمارتوں کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہوگی۔ جس کے انتظامات فوج نے سنبھالنے
کی ذمے داری اٹھانے کی یقین دہانی کرادی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو قدرے اطمینان ہوگا کہ ماضی کے مقابلے میں جبری ووٹ اور
جعلی ٹھپے کم لگیں گے۔ اس صورتحال میں ووٹر کے لیے اپنا حق رائے دہی
استعمال کرنے اور قومی دھارے میں بھرپور کردار ادا کرنے کا سنہری موقع ہے۔
چار بڑے انتخابی اتحاد بھی اہل کراچی کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
تین بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین خود کراچی میں الیکشن لڑرہے ہیں۔ اس سے
کراچی کا سیاسی درجۂ حرارت ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ گرم رہنے کی توقع
ہے۔ امسال متحدہ قومی موومنٹ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بھی ہونے جارہا ہے
کہ اس کے بانی کو مائنس کرنے کے بعد ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کا نعرہ
ہمیشہ کے لیے دفن ہوگا یا پھر ایم کیو ایم کے موجودہ دھڑے ’پتنگ‘ کے
استعارے کو لے کر کراچی میں پھرکامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہیں۔ کراچی پورے ملک
اور عالمی میڈیا کی اہم توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ چار عشروں کی بلاشرکت
غیرے پارلیمانی سیاست کے بے تاج بادشاہ کا ہُما اپنے سر بٹھانے والے، اب
سرجوڑ کر بیٹھے ہیں کہ کس طرح ماضی کی طرح دوبارہ ’کنگ میکر‘ بن سکیں۔ واضح
رہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ماضی کے مقابلے میں سخت مقابلے کا سامنا ہے اور
وفاق میں کسی بھی سیاسی جماعت کو عددی اکثریت حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے۔
اس صورت حال میں متحدہ اگر اپنے اختلافات ختم کرکے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز
کو دوبارہ قائل و راضی کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ
ممکنہ وفاقی حکومت، متحدہ کی حمایت کے بغیر نہ بن سکے۔ پاکستان کی کنگ میکر
جماعت بننے کا دوبارہ ایک سنہرا موقع انہیں مل سکتا ہے۔
لیکن ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کے (ممکنہ) یکجا ہونے کے باوجود پاک
سرزمین پارٹی کراچی و حیدرآباد کے قلعے میں دراڑیں ڈالنے کا مصمم ارادہ
کرچکی ہیں۔ تحریک انصاف اور سندھ کے نئے سیاسی اتحاد گرینڈ ڈیمو کریٹک
الائنس کے ساتھ ممکنہ سیٹ ایڈجسمنٹ اتحاد سے بھی ایم کیو ایم (متحدہ) کو
پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہاں پی ایس پی کا بڑا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ
وہ کراچی میں کلین سوئپ کریں گے۔ بلاشبہ متحدہ کا اہم تنظیمی ڈھانچہ اس وقت
پاک سرزمین پارٹی کے زیر سایہ ہے، لیکن نشستیں جیتنے میں کتنا کامیاب ہوں
گے، اس پر قیاس آرائی کی جاسکتی ہے لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
میرے نزدیک مصطفیٰ کمال اپنی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہی بڑی بات
ہوگی۔ کراچی میں ہمیشہ ملک کے دوسروں حلقوں کی بہ نسبت ٹھپے اور جعلی ووٹوں
کا اندراج بلند ترین سطح پر رہا ہے، لیکن اس بار ایک ہی جماعت کے انتخابی
گروہ، زیادہ سے زیادہ تین اور کم ازکم دو حصوں میں تقسیم ہوںگے اور کسی بھی
گروپ کے لیے ماضی کے مقابلے میں باآسانی جعلی ٹھپہ لگانا ممکن نظر نہیں
آتا۔ ٹھپہ ماہرپولنگ ایجنٹ ووٹ کے لیے جن ’فرشتوں‘ کا استعمال کیا کرتے
تھے، ممکن ہے کہ اس بار ان کی خدمات استعمال کرنے میں دشواری ہو، تاہم پی
پی پی اور متحدہ کے درمیان اُن سرکاری عملے کا مقابلہ بھی ہے جنہیں ان کی
سیاسی جماعتوں نے ماضی میں بھرتی کیا تھا اور یہ ملازمین ہر بار انتخابی
عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ ’بیلٹ پیپر بک‘ کا امیدوار کے پاس پہنچ جانا عام سی
بات رہی ہے۔ راقم ایسے کئی واقعات کا چشم دید گواہ ہے، یہاں تک کہ بیلٹ
پیپر پر لگائی جانے والی مہریں بھی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے ورکرز کے
پاس دیکھ چکا ہے۔ پولیس اہلکاروں کو بھی بیلٹ پیپر پر جعلی ٹھپے لگانے کے
کارخیر میں حصہ لینے کا راقم چشم دید گواہ ہے۔ذاتی خوش فہمی ہے کہ فوج کی
موجودگی میں اب یہ سب غالباً ممکن نہیں ہوگا۔
قصہ مختصر کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں اور
قربانیوں کے بعد کئی عشروں بعد امن قائم ہوا ہے۔ مختلف مافیا ز و گینگ وارز
کی کمزوری کے بعد کراچی میں ایک ایسا انتخابی ماحول بن چکا ہے کہ پی پی پی
کو بھی لیاری میں اپنی حمایت حاصل کرنے کے لیے گینگ وار کی ضرورت نہیں پڑے
گی اور لیاری سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کو قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر
گینگ وار سے حلف وفاداری اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ عوامی نیشنل پارٹی
سندھ کے صدر شاہی سید بھی کراچی کے دو حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یہ شہر
قائد میں امن کے بعد اے این پی کا سب سے بڑا امتحان ہوگا کہ وہ اپنے ناراض
رہنمائوں اور کارکنان کو دیگر سیاسی جماعتوں سے واپس لانے اور گھر بیٹھنے
والوں کو دوبارہ راضی کرپائیں گے یا نہیں۔ مجھے اے این پی کی نشستیں جیتنے
کی کوئی خوش فہمی نہیں، بلکہ دیکھنا یہ مقصود ہے کہ کیا عوامی نیشنل پارٹی
کراچی میں اپنا سابقہ مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ عوامی
نیشنل پارٹی نے جب کراچی سے دو نشستیں حاصل کرکے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ
کیا تھا تو توقع تھی کہ شاید اے این پی اپنے عروج کو قائم رکھ پائے گی،
لیکن اس کے رہنما و کارکنان کی کثیر تعداد نے کارکردگی سے مایوس ہو کر دیگر
سیاسی جماعتوں کا رخ کیا یا پھر خاموش ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ حالیہ الیکشن اے
این پی کی صوبائی قیادت کا امتحان ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد ایک
بارپھر قسمت آزمانے نکلے ہیں۔ کراچی میں مہاجر ازم کا فلسفہ ایم کیو ایم
اٹھانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے، اس لیے یقین ہے کہ ان کی دال نہیں گلے گی۔
سندھ کی تقسیم کا نعرہ بے جان ہوچکا ہے۔ تمام تر تحفظات کے باوجود امید ہے
کہ اہل کراچی اپنے مستقبل کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں گے۔ اس کے لیے کراچی
کو اپنے تشخص کی دوبارہ بحالی کے لیے فروعی مفادات کی قربانی دینا ہوگی۔ |