امریکا کو ایک بار پھر افغانستان میں امن مذاکرات کی پیش
کش کی گئی ہے۔ یہ پیش کش افغانستان کے سب سے بڑے مسلح مزاحمتی جماعت امارات
اسلامیہ کی جانب سے کی گئی ہے۔ اس سے قبل بھی افغان طالبان نے کابل حکومت
کے بجائے براہ راست امریکا کو مزاکرات کی دو بار پیشکش کیجاچکی ہے لیکن
امریکا نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اُس کابل حکومت کو آگے کردیتا
ہے۔جس کے پاس اپنے اقتدار کے استحکام کے لئے واجبی اختیارات بھی نہیں ہیں۔
عید الفطر کے موقع پر افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اﷲ اخند زادہ نے
اپنے پیغام میں ایک بار پھر افغانستان میں امن کے قیام کے لئے امریکا کو
براہ راست مذاکرات کی پیش کش کی ہے ۔ کیونکہ کابل حکومت کے پاسل اختیارات
نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان اور دیگر مسلح مزاحمتی جنگجو گروپوں کو یقینی
ضمانت دے سکے۔ دوئم خطے کی موجودہ صورتحال میں کابل حکومت کی جانب سے
مذاکراتی عمل کے اہم کردار پاکستان کے خلاف جو وتیرہ اختیار کیا ہوا تھا وہ
بھی قیام امن کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا ۔ کابل حکومت کو اپنی غلطیوں کا بھی
اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف کھوکھلی دھمکیوں اور عالمی دباؤ بڑھا
کر من پسند نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں اس لئے کابل حکومت کی جانب سے
پاکستان کے اعلیٰ عسکری وفد کو باقاعدہ سرکاری دورے کی دعوت دی گئی ۔
پاکستانی عسکری قیادت نے خطے میں قیام امن کے لئے ہر ممکن تعاون کا یقین
دلایا۔ قیام امن دونوں ممالک کے ساتھ پورے خطے کے لئے اہم ہے ۔ افغان
طالبان ، کابل حکومت کی جانب سے دی گئی لائن پر امریکا کے بجائے کابل حکومت
سے مذاکرات کرنے سے اس لئے بھی مانع ہے کیونکہ افغان طالبان کابل حکومت کو
افغانستان پر جبراََ مسلط کردہ کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں۔افغانستان میں
امن ایک ایسا خواب ہے جو شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا۔افغانستان میں امریکا
اوافغان سیکورٹی فورسز کے خلاف افغان طالبان ایک مضبوط عسکری پوزیشن میں
ہیں۔بین السطور افغانستان میں امریکا اور افغان سیکورٹی فورسز کی ناکامیوں
کے محرکات کا جائزہ ہے کہ عالمی طاقتیں آخر افغانستان میں کھربوں ڈالرز خرچ
کرنے کے باوجود کامیاب کیوں نہیں ہو رہی ۔ امریکا مخالف مزاحمتی تحریک کی
کامیابی کے چند اہم نکات کو بھی زیر بحث لانا مقصود اس لئے ہے تاکہ امریکا
اور افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ امریکی اتحادی اس بات کو سمجھ سکیں کہ
امریکا کے ساتھ افغان طالبان کا براہ سراست مذاکرات کرنا کیوں ناگزیر ہے۔
افغانستان کے صوبوں میں شمالی اتحاد اور افغان سیکورٹی فورسز کو افغان
طالبان کی جانب سے زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔ماضی کے مقابلے میں شمالی
اتحاد اور افغان سیکورٹی فورسز کو موثر کامیابی نہیں مل رہی۔ اس کی بنیادی
وجہ افغان طالبان کی جانب سے مربوط جنگی حکمت عملی کا لائحہ عمل قرار دیا
جاتا ہے جس کی وجہ سے شمالی اتحاد اور افغان سیکورٹی فورسز کو دشواریوں کا
سامنا ہے۔شمالی افغانستان میں جہاں داعش کی شدت پسند کاروائیاں شد ومد کے
ساتھ جاری ہیں تو افغان طالبان کے حملوں سے افغان سیکورٹی فورسز بے بس ہوتی
جارہی ہے۔اکتوبر کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات متوقع ہیں۔ پارلیمانی
انتخابات کے حوالے سے داعش نے کئی ایسے عوامی مقامات کو بھی نشانہ بنایا جو
افغانستان کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے پوائنٹس مقرر کئے گئے تھے۔
تاہم افغان طالبان نے عوامی مقامات کو نشانہ بنانے یا سیاسی گروپ بن کر
افغانستان میں حصہ لینے کے بجائے مزاحمت تیز کرنے کا فیصلہ کیا اور افغان
سیکورٹی فورسز کو شدت سے نشانہ بنانا شروع کردیا۔
افغان طالبان کے تین صوبوں میدان وردگ، غزنی اور زابل کے فوجی کمیشن کے
انچارج مولوی نوراﷲ منیب کے ساتھ خصوصی گفتگو میں مسلح کاروائیوں سے متعلق
سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنی ایک تفصیلی گفتگو میں بتایا کہ علاقوں کے
دوروں اور صوبائی گورنروں، ضلعی گورنروں اور صوبائی کمیشن کے ارکان، عسکری
قیادت اور جہادی امور کے مختلف عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتیں کرنا اور عسکری
کارروائیوں کے منصوبوں پر تفصیلی گفتگو کرکے تمام بات چیت اور مشاہدات کو
منظوری کے لیے اعلی قیادت کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔ بعدازاں ان منصوبوں کو
عملی شکل دینے اور وسائل فراہم کرنے کے لیے باقاعدہ کام کا آغاز کیا جاتا
ہے۔ عمری آپریشن کی مثال دیتے ہوئے مولوی نور اﷲ منیب کا کہنا تھا کہ ان
تمام صوبوں میں بہت سی کارروائیاں کی گئیں۔ مثلا صوبہ غزنی کے ضلع شلگر میں
دہشت گرد ملیشیا کی طاقت توڑ ی گئی۔ واضح رہے کہ ضلع شلگرمیں مخالفین نے
قبائلی رہنماؤں کو بغاوت پر اکسانے کی بہت کوشش کی تھی۔ اس کے لیے بڑی رقم
خرچ کی گئی اور پروپیگنڈہ بھی کیا گیا، تاہم افغان طالبان نے تمام کوشش کو
ناکام بنا کر ضلعی عمارت کے علاوہ باقی تمام علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم
کیا تھا۔ اسی طرح ضلع گیرو، ضلع واغز،کابل قندھار شاہراہ افغان طالبان کے
کنٹرول میں ہے۔ گزشتہ سا افغان طالبان نے کئی بار اس اہم شاہراہ کو بلاک کر
کے افغان سیکورٹی فورسز کی آمد و رفت روک دی تھی۔ اسی شاہراہ پر کئی بار
افغان سیکورٹی فورسز کے اڈوں اور قافلوں پر حملے کیے جاچکے ہیں۔
کابل حکومت کے صدر اشرف غنی نے افغان طالبان کو سیاسی عمل میں شراکت کی پیش
کش کی تھی لیکن کسی بامعنی مذاکرات کے لئے افغان طالبان میں کوئی تحریک
نہیں پائی جاتی۔امریکی جنرل نیکولسن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ افغان
طالبان کے کچھ رہنما کابلانتظامیہ سے خفیہ مذاکرات کررہے ہیں۔ امریکی وزرات
دفاع میں دیئے جانے والے جنرل نیکولسن کے دعوے کو افغان طالبان نے رد کردیا
تھا۔ امارات اسلامیہ افغانستان (افغان طالبان) کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کا
کہنا تھا کہ امریکی جنرل نیکولسن میڈیا کے سامنے غلط معلومات دے رہے ہیں جس
کا مقصد عالمی برادری کو گمراہ ہے۔ ذبیح اﷲ مجاہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس
قسم کے بیانات کا مقصد افغان طالبان کی مزاحمت سے توجہ ہٹانا اور ٹرمپ کی
ناکامی پالیسی کو کامیاب بنانے کی سعی ہے۔افغان طالبان کا واضح موقف رہا ہے
کہ جب تک امریکی و غیر ملکی افواج افغانستان میں موجود ہیں کسی با
مقصدمذاکرات کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ افغان طالبان نے الخندق جہادی آپریشن
کے نام سے ایک مسلح مزاحمت کا نیا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ الخندق جہادی
آپریشن کو افغان طالبان کی جنگی پالیسی سازوں نے ماضی میں کئی آپریشنز کے
تجارب کے بعد مہارت سے ترتیب دیا ہوا ہے۔اسے افغان طالبان کا فوجی کمیشن
بھی کہا جاتا ہے۔ الخندق جہاد ی آپریشن نامی اس جنگی حکمت عملی کو گنجلگ
منصوبہ بندی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ جنگی حکمت عملی کے تحت امریکی
فوجیوں کو نشانہ بنانا، امریکی انٹیلی جنس کو(جو کہ بیرونی و داخلی افراد
پر مشتمل ہے انہیں)سبوتاژ کرنا اور افغان طالبان کے درمیان محفوظ رابطوں کے
ذریعے جدید اور پیچیدہ حکمت عملی کے تحت چھوٹے بڑے حملے کرناشامل ہیں۔ اس
بار افغان طالبان نے اپنی توجہ اس امر کی جانب بھی رکھی ہوئی ہے کہ کسی بھی
حملے میں امریکی اہلکاروں یا افغان سیکورٹی فورس کی اعلیٰ شخصیت کی زندہ
گرفتاریوں کو بھی ممکن بنایا جائے۔ اس نئی حکمت عملی کا واضح جنگی حکمت
عملی کی پیش بندیاں ہیں۔
امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے افغان طالبان کے خلاف زمینی اور
فضائی آپریشن بھی جاری ہے جس میں عمومی طور پر عام شہریوں کی بڑی تعداد
ہلاک ہو رہی ہے۔ قندوز میں ختم قرآن کی ایک تقریب پر حملے کے بعد افغانستان
میں افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف مخالفت کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی تھی اب
افغان طالبان کے ذرائع بتاتے ہیں کہ’ بدلے ‘ کی تحریک پر نوجوانوں کی کثیر
تعداد نے امریکا اور افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف لڑنے کے لئے افغان طالبان
میں شمولیت کرکے باقاعد ہ فدائی تربیت لینا شروع کردی ہے۔(افغان طالبان کو
افرادی قوت کے لئے پہلے بھی کسی کمی کا سامنا نہیں رہا ہے) دوسری جانب
افغان طالبان کے امیر شیخ ہیبت اﷲ اخند زادہ اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ
عسکریت پسندوں کی بہت بڑی تعداد کو کنٹرول کرنے میں عام طور پر بڑے
اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اس لئے کم تعداد کے ساتھ بڑے نقصانات پہنچانے کی
پالیسی اپنائی گئی ہے۔ یہاں افغان طالبان کے لئے اہم مسائل بھی دشواری پیدا
کرتے رہتے ہیں۔ جس میں امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز سے مقابلہ کرنے کے
لئے جدید اور وافر ہتھیاروں کا حصول بھی شامل ہے۔ گوکہ افغان طالبان کی
جانب سے متعدد چیک پوسٹ پر قبضے کے بعد مال غنیمت کے طور پر اسلحہ بھی ملتا
ہے لیکن جاری جنگ میں یہ افغان طالبان کی ضروریات کے لئے ناکافی رہا ہے۔ اس
حوالے سے افغان طالبان امریکی مخالف قوتوں سے کئی ایسے معاہدے پر کاربند ہے
جس پر عمل درآمد ہونے کی وجہ سے بھاری اسلحہ افغان طالبان کو مل رہا ہے۔
ازبکستان، تاجکستان،ترکمانستان اور قزاقستان داعش کی افغانستان آمد سے اپنے
لئے خطرات محسوس کررہے ہیں۔ دوسری جانب ایران بھی داعش کو افغانستان میں
مضبوط ہونے پر اپنے لئے شدید خطرہ محسوس کرتا ہے۔ پہلے شمالی اتحاد پر ان
ممالک کا کافی اعتماد رہا ہے لیکن اب ان ممالک کے نزدیک افغان طالبان ہی
ایسی قوت ہے جو داعش کو افغانستان میں جڑ مضبوط کرنے سے روک سکتی ہے۔ گو کہ
افغان طالبان کو بھی یہ ممالک اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔لیکن اہم پیش
رفت یہ ہوئی ہے کہ انہیں امارات اسلامیہ افغانستان (افغان طالبان) کی قیادت
کی جانب سے مکمل یقین دہانی کرائی جاچکی ہے کہ وہ پڑوسی ممالک میں مداخلت
کی کسی قسم کی پالیسی نہیں رکھتے۔ افغان طالبان کی قیادت انہیں باور کراچکی
ہے کہ جتنا خطرہ افغان عوام کو امریکا اور اس کے اتحادیوں سے ہے اتنا خطرہ
ان ممالک کو بھی ہے۔ افغان قیادت کی یہ پالیسی ملا منصور کے وقت سے وضع کی
گئی ہے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ پاکستان پر مسلسل دباؤ
اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ مربوط خارجہ پالیسی اور بدلتے حالات کے
مطابق پاکستانی موقف کی تبدیلی کے سبب افغان طالبان نے پاکستان پر اپنا
انحصار کم کردیا ہے۔ افغان طالبان کا پہلا انحصار امریکا مخالف قوتوں پرہے
جہاں پاکستان کی با نسبت افغان قیادت و رہنماؤں کو خطرات کا کم سامنا ہے۔
ایران بھی امریکا مخالف پالیسی رکھتا ہے اور ایران کی داخلی اور خارجہ
پالیسیاں بھی امریکا مخالف ہیں اس لئے افغان قیادت ایران میں خود کو زیادہ
محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
ذرائع کے مطابق امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ امارات اسلامیہ کا ایک غیر
اعلانی سمجھوتہ بھی طے پا چکا ہے جس میں افغان طالبان کو داعش کے فتنے کو
روکنے اور امریکی فوجیوں کو زچ کرنے کے لئے بھاری ہتھیار فراہم کئے جاتے
ہیں۔ مثال کے طور پر افغان طالبان کے طیب آغا اس سے قبل تہران کا دورہ بھی
کرچکے تھے۔ امریکا ایران کی جانب سے افغان طالبان کو ہتھیاروں اور اسلحہ
بارود کی فراہمی پر سخت احتجاج بھی کرتا رہا ہے لیکن اس کے باقاعدہ ثبوت
فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم بامیان میں افغان سیکورٹی فورسز کی ایک
کاروائی میں کافی مقدار میں ایرانی اسلحہ برآمد ہوا تھا۔ جس پر کابل حکومت
نے سخت احتجاج بھی کیا لیکن ماضی کے مقابلے میں ایران افغان طالبان کی کس
طرح مدد کر رہا ہے اس حوالے سے قیاس آرائیاں زیادہ ہیں۔ تاہم اس بات سے
انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملا عمر کے حکومت کے وقت مزار شریف میں ایرانی
سفارت کاروں کے قتل کے بعد کشیدہ تعلقات کو ملا امیر منصور نے ختم کرائے
اور افغان طالبان رہنماؤں کے لئے دستاویزات کے حصول کے لئے کافی مراعات بھی
حاصل کیں۔ ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے خاتمے کے لئے ملا منصور کو شوریٰ
کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں ایران شمالی اتحاد کی
فرقہ وارنہ بنیادوں پر کھلی حمایت کرتا رہا ہے لیکن موجودہ شمالی اتحاد کا
افغان حکومت میں شامل ہوکر امریکی مفادات کو توقعت دینے کے معاملے سے ایران
مطمئن نظر نہیں آتا۔ اس لئے ایران کا جھکاؤ فطری طور پر افغان طالبان کی
جانب ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایران کے نزدیک مسلک کی جنگ افغان طالبان نے اُن پر
مسلط نہیں کی ہے اور ان دونوں کا مقصد امریکی مفادات کو نقصان پہنچانا ہے
اس لئے ایران اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات میں مزید وسعت پیدا ہو رہی
ہے۔افغان طالبان کئی ایک ایسے غیر اعلانی معاہدوں پر بھی سختی سے عمل کررہے
ہیں جو پڑوسی ممالک کو درپیش مسائل کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس
میں سب سے بڑا اقدام جنگجوؤں کا افغانستان میں ہی رہ کر اپنا کیمپ بنانا
اور پڑوسی ممالک میں کیمپ بنا کر جہادیوں کو ٹریننگ نہ دینا ہے۔ یہ افغان
طالبان کے لئے ایک مشکل فیصلہ ضرور ہے لیکن افغان طالبان اچھی طرح جانتے
ہیں کہ اگر بڑے دشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو اس کے دشمنوں کو دوست بنا لیا
جائے تاکہ یکسوئی کے ساتھ بڑی قوت سے لڑا جاسکے۔وسط ایشیا ئی ممالک میں عدم
مداخلت اور ایران کے ساتھ بڑھتی قربت کے سبب افغان طالبان کو اپنی ضروریات
پوری کرنے کے لئے کئی معقول اقدامات سے فائدہ پہنچسکتاہے۔ماضی میں پاکستان
زخمی جنگجوؤں کے علاج معالجے کے حوالے سے کافی محفوظ رہا ہے لیکن امریکی
دباؤ کے سبب پاکستان، افغان طالبان کے لئے مکمل غیر محفوظ ملک بن چکا
ہے۔افغان طالبان کے کئی رہنماایرانی اور وسط ایشائی ممالک کی قانونی
دستاویزات پر نقل و حرکت و علاج کراتے ہیں۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ وسط
ایشائی ممالک کی دستاویزات پر نقل و حرکت میں خطرات کم پائے جاتے ہیں۔
پاکستانی دستاویزات عام حالات میں بھی پریشانی کا سبب بنتی ہے اس لئے تمام
اہم رہنما بیرون ملک محفوظ سفر کے لئے متبادل اور محفوظ دستاویزات کو
استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
افغانستان میں کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے امارات اسلامیہ
افغانستان (افغان طالبان) کی صفوں میں کوئی انتشار نہیں پایا جاتا۔ افغان
طالبان کے درمیان روابط کا ایک ایسا نظام ہے جس کی وجہ سے افغان طالبان
رہنما کے درمیان کسی منفی پروپیگنڈے کا کامیاب ہونا مشکل امر ہے۔تاہم ایسے
گروپس جو پہلے بھی افغان طالبان کے امیر ملا عمر مرحوم کی موجودگی میں
اقتدار کے حصول کے لئے خانہ جنگیوں میں مصروف تھے۔ انہیں دوبارہ اقتدار میں
آنے کے لئے مراعات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو وہ کابل حکومت سے رابطے میں
شامل ایسے طالبان سے حاصل کرلیتے ہیں جو کابل حکومت کے ساتھ روز اول سے ہی
رابطے میں ہیں۔ان طالبان نے روس کو افغانستان سے باہر نکالنے کے لئے مسلح
جدوجہد کی تھی لیکن ان کا انحصار مکمل طور پر امریکا پر ہی تھا۔ ان گروپس
کے ایسے روابط کبھی نہیں رہے کہ امریکی امداد کے بغیر سوویت یونین کے خلاف
لڑسکتے۔ اس لئے چند علاقوں پر ان کا کنٹرول کان کنی و معدنیات اور پوست کی
کاشت سے منشیات کی اسمگلنگ تک محدود ہے۔ جبکہ امارات اسلامیہ افغانستان
(افغان طالبان) ایک منظم فوج کے ساتھ زمینی جنگ میں مصروف ہے۔ امریکی اتحاد
کو زمینی جنگ میں افغان طالبان پر فوقیت حاصل کرنے میں دشواری ہے اس لئے ان
کا تمام تر انحصار فضائیہ پر ہے جس میں بمباریاں کرکے اپنی کامیابیوں کے
دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔جیسے کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا کیونکہ افغان طالبان
کی بڑھتی پیش قدمی اور مختلف حصوں میں کامیابی ظاہر کررہی ہیں کہ افغان
سیکورٹی فورسز کو افغان طالبان کے مقابلے میں ناکامیوں کا سامنا ہے۔افغان
طالبان کی عسکری سرگرمیوں کی کامیابی میں جہاں ان کے سخت موقف کا عمل موجود
ہے تو دوسری جانب مقابلہ کرنے کے لئے بھاری اسلحہ کی کھیپ کا ملنا بھی ہے
جو انہیں با آسانی مہیا ہوجاتی ہے۔ امریکا اور افغان سیکورٹی فورسز سے
مقابلہ آسان عمل نہیں ہے لیکن افغان طالبان کی جنگی حکمت عملی اس انداز میں
مربوط ہوئی ہے کہ ہر مہینے فدائین کا ایک دستہ اپنی ٹریننگ مکمل کرکے میدان
جنگ میں اتر جا تا ہے۔ جدید ترین آلات کے ساتھ دشوار گذار تربیت افغان
طالبان کو سخت گیر جنگجو مہیا کررہی ہے۔ ہر موسم کے ساتھ نئی جنگی حکمت
عملی افغان سیکورٹی فورسز کو پسپا کررہی ہے۔ اہم صورتحال یہ بھی ہے کہ
افغان طالبان اپنے جنگی معاملات میں امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ ایک ایسے
اتحاد سے جڑا ہوا ہے جو ہر نئے دن میں افغان طالبان کی طاقت کو بڑھاتے ہیں
اور امریکی پالیسی کو ناکام بناتے ہیں۔اہم صورتحال یہ بھی ہے کہ افغان
طالبان اپنے جنگی معاملات میں امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ ایک ایسے اتحاد
سے جڑا ہوا ہے جو ہر نئے دن میں افغان طالبان کی طاقت کو بڑھاتے ہیں اور
امریکی پالیسی کو ناکام بناتے ہیں۔ افغان طالبان ایک ایسی حکمت عملی کے تحت
زمینی جنگ میں مصروف ہے جس میں اسے جانی و مالی نقصان کم ملے اور ان کے
مخالفین کو پریشانیاں۔ افغان طالبان کی نئی اسٹریجک پالیسی میں کابل حکومت
سے کسی قسم کے مذاکرات کو اپنی اخلاقی شکست کا سبب بھی نہیں بنا سکتے۔ اگر
کابل حکومت کے ساتھ افغان طالبان اعلانیہ مذاکرات کی میز پر آجاتے ہیں تو
افغان طالبان اپنی جنگ مذاکرات کی میز پر ہی ہار جائیں گے اور ایسا افغان
طالبان کبھی نہیں چاہیں گے۔یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان نے ماضی کی روایتوں
کے برعکس امریکا کو براہ راست مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔ امریکا کو
افغانستان کے زمینی حقائق کا تسلیم کرتے ہوئے بیک ڈور کے بجائے براہ راست
مذاکرات کی پیش کش کو قبول کرکے لاحاصل جنگ سے باہر نکل جانا چاہیے ۔
پاکستان پر امریکا کا دباؤ افغانستان میں امن نہیں لاسکتا ۔ امریکی اقدامات
کی وجہ سے افغان طالبان کی ترجیحات بھی تبدیل ہوچکی ہیں اور پاکستان سمیت
ماضی کے دیرینہ دوست مسلم ممالک پر انحصار بھی کم ہوگیا ہے ۔ ان حالات میں
امریکا ، کابل حکومت سے مذاکرات کرانا چاہتا ہے جبکہ اس حقیقت کو اچھی طرح
جانتا ہے کہ کابل حکومت میں خود عدم اعتماد کی فضا قائم ہے۔حکومتی اراکین
میں اختلافات شدید نوعیت کے ہیں ۔ ان حالات میں ایک غیر مستحکم اور
افغانستان کی عوام کی اکثریت کی حمایت سے محروم کٹھ پتلی حکومت سے کوئی
اسٹیک ہولڈر با مقصد مذاکرات نہیں کرسکتا ۔ امریکا قرار واقعی افغانستان
میں قیام امن کا خواہاں ہے تو پھر ٹرمپ پالیسی میکرز کو افغان طالبان کو
افغانستان کا بڑا اسٹیک ہولڈر مان کر امارات اسلامیہ کا مینڈیٹ تسلیم کرنا
ہوگا ۔ پاکستان ، چین اور روس مزاکرات کی با مقصد عمل میں اہم کردار ادا
کرسکتے ہیں۔ افغان طالبان بار بار گیندامریکی کورٹ میں پھینک رہی ہے لیکن
ٹرمپ انتظامیہ سبکی کے خوف سے براہ راست مزاکرات سے گریز کی راہ اختیار
کررہا ہے۔
|