پاکستان میں جو انتخابی نظام رائج ہے اس میں کوئی غریب
اور نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا تو درکنار اونچے متوسط طبقہ کا شخص
بھی اگر انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ لے تو اسے پاگل یا مجنوں سمجھا
جائیگا کیونکہ اس نظام کے تحت تو یونین کونسل کی سطح کے انتخابات میں بھی
لاکھوں روپے کا خرچہ برداشت کرنے والا حصہ لے سکتا ہے قومی اور صوبائی
اسمبلیوں کے انتخابات تو کروڑوں کی حدوں کو چھوتے ہیں۔ملک کاپتہ پتہ بوٹا
بوٹا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ انتخابات کے ذریعہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے
ارب پتی اور کروڑ پتی لوگ ہوتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی
معیشت کو چلانے والے ہی کھرب پتی ہیں تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتی۔
ابھی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف نواز شریف اینڈ کمپنی اور زرداری کے
بیرون ملک اثاثوں کا تخمینہ 8 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ پی ایم ایل کیو کے
چوہدری برادران کے بھی بیرون ملک اثاثے موجود ہیں۔انکے علاوہ اسفند یار
ولی، رحمان ملک سمیت بہت سے سیاستدان ایسے ہیں جن کے اثاثے بیرون ملک موجود
ہیں جبکہ ان سب میں جوچیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ انکے بچے اور پھر اُنکے بچے
بھی بیرون ملک رہتے ہیں۔ وہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہیں شادیاں کرتے ہیں
اور وہیں کی شہریت حاصل کرتے ہیں، حیرانگی تو اس بات کی ہے کہ جو سیاستدان
امریکی پالیسیوں کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور دن رات اس کیخلاف نعرے بازی
کرتے ہیں اُنکے اپنے بچے وہی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ انکے علاوہ بہت
سی کاروباری شخصیات بھی وطن عزیز میں موجود ہیں جن کے بیشتر کاروبار ملک سے
باہر موجود ہیں اور یہی شخصیات سیاستدانوں کیلئے نت نئے طریقے تلاش کرتی
ہیں کہ کیسے ملک سے باہر پیسہ لے کر جایا جائے۔
2018ءکے الیکشن کے حوالے سے ابھی کاغذات کی جانچ پڑتال جاری ہے، 2013ءکے
الیکشن کمیشن کی رپورٹ کےمطابق چند سیاستدانوں کی اثاثہ جات کا جائزہ لیا
جائے تو سابق نااہل وزیر اعظم نواز شریف اور انکے زیر کفالت کے اثاثوں میں
چوہدری شوگر مل، حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی ، حدیبیہ پیپر ملز، محمد بخش
ٹیکسٹائل مل، حمزہ سپننگ مل، کلثوم ٹیکسٹائل مل میں بھی کروڑوں روپے کے
شئیرز ظاہر کئے گئے ۔انکے پاس تین گاڑیاں اور ایک ٹریکٹر بھی ھے۔خورشید شاہ
کے اثاثوں میں کروڑوں روپے کے قیمتی پلاٹ اورزرعی اراضی بھی شامل ہے۔ آفتا
ب شیر پاؤ بھی 5کروڑ روپے سے زائد کے اثاثوں کے مالک ہیں، انکے اثاثوں میں
چارسدہ میں دکانیں اور مارکیٹ اور اسلام آباد میں بھی قیمتی بنگلے شامل
ہیں۔ شیر پاؤ کے پاس35لاکھ روپے کی 2004ءماڈل لینڈ کروزر بھی ہے۔ ایاز صادق
کے 17کروڑ روپے کے اثاثوں میں لاہور ، جڑانوالہ میں کروڑوں روپے کے قیمتی
بنگلے اور ایک گاڑی جسکی مالیت 8لاکھ روپے ہے، انکے اثاثوں میں 22لاکھ روپے
مالیت کے 40تولے زیورات بھی ظاہر کئے گئے ہیں۔یہ وہ اثاثہ جات ہیں جو صرف
ظاہر کیے گئے ہیں، انکی فیملیز کے نام پر کیا کیا ہے، یہ سب کچھ الیکشن
کمیشن سے چھپا لیا جاتا ہے۔ مریم نواز کو دیکھ لیجئے جسکا مشہور بیانیہ
تھاکہ اسکی بیرون ملک تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں اور وہ اپنے
والد کیساتھ رہتی ہیں اب انہوں نے الیکشن کمیشن میں جو تفصیلات جمع کرائیں
اس تضاد پر مریم نواز پر آرٹیکل 62،63 لاگو ھوتاھے جبکہ کیپٹن (ر)صفدر نے
بھی اپنے بھاری اثاثے الیکشن کمیشن میں شو کرائے اور کچھ عرصہ قبل جوڈیشل
اکیڈمی میں انہوں نے بیان دیاتھاکہ انکو 1500 ریال، درھم ماھانہ خرچ میاں
شریف دیاکرتے تھے جو ابھی تک جاری ھے اس تضاد پر کیپٹن (ر) صفدر بھی آرٹیکل
62، 63 کی زد میں آتے ہیں علاوہ حمزہ شہباز نے اپنی دو عدد اہلیہ کا ذکر
انتخابی کاغذات میں کیا جبکہ عائشہ احد ملک بھی انکی بیوی ھونے کی دعویدار
تھی جسے چیف جسٹس نے عدالت بلایا اور معاملہ ختم کرانے میں مبینہ اھم کردار
اداکیا اگر عائشہ احد کو حمزہ نے بیوی تسلیم کرلیا اس صورت میں بھی وہ
آرٹیکل 62.63 کی زد میں آتے ہیں اور یوں شہبازشریف نے بھی اپنی دو عدد
بیویوں کا اعتراف کیا کہ انکی نصرت شہباز اور تہمینہ درانی بیوی ہیں جبکہ
انکی ایک بیوی عالیہ ھنی نامی خاتون بھی تھی جسے بعدازاں طلاق دیدی گئی تھی
اس مطلقہ بیوی کے ھاں شہبازشریف کی "خدیجہ" نامی بیٹی موجود ھے جسے رمضان
شوگر ملز کیطرف سے ماھانہ ایک بڑی رقم ابھی بھی ادا کی جارہی ھے اب اس بیٹی
کا ذکر الیکشن کمیشن میں جمع ھونے والے پیپرز میں ھے یا نہیں؟ اسکا کسی کو
بھی شاید علم نہیں اور اگر اسکا ذکر نہیں تو شہبازشریف پر بھی آرٹیکل 62،63
لاگو ھوتاھے۔ نگران حکومت وجود میں آچکی مگر بلدیاتی ادارے جو خالصتا سیاسی
پارٹی کی بنیادوں پر اسوقت بھی میئر، ڈپٹی میئر، چیئر مین، وائس چیئرمین،
جنرل کونسلران ھزاروں کی تعداد میں عام انتخابات کے حوالے سے جانبدار کردار
ادا کررھے ہیں انہیں ابھی تک نگران حکومتوں نے معطل نہیں کیا اسطرح عام
انتخابات کے نتائج شفاف قرار نہیں دیئے جا سکتے اس وقت ملک قرضوں کی دلدل
میں پھنسا ہوا ہے، شدید اقتصادی بحران کے باعث حکومتوں کو عالمی مالیاتی
اداروں کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے۔
توانائی کے بحران سے ملک کی اقتصادی ، معاشی ، تجارتی اور سماجی زندگی پر
گہرے اثرات مرتب کررکھے ہیں جس سے غربت اور بیروز گاری میں مسلسل اضافہ
ہورہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جیناحرام کر رکھا ہے کیا یہ اربوں
کروڑوں کے اثاثے رکھنے والے غریب عوام کی مشکلات کم کر سکیں گے انکا ماضی
اس کی توثیق نہیں کررہا۔حد تو یہ ہے کہ یہی لوگ پاکستان کی اکانومی کیلئے
بدترین ثابت ہوتے ہیں جن کے اپنے کاروبار چند سالوں میں اچھا خاصا بزنس کر
رہے ہوتے ہیں وہی ملک کی معیشت کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔ گزشتہ
سال کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے تقریباً 70 ملین (7 کروڑ) عوام خطِ
غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی کہ
پاکستان میں جہاں عوام کی ایک کثیر تعداد نہ صرف غریب ہے بلکہ خط غربت سے
بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اسکے حکمران نہ صرف امیر ترین ہیں بلکہ
اب وہ کروڑ نہیں بلکہ ارب پتی ہیں۔جہاں غریب عوام کو 2 وقت کی روٹی بھی
میسر نہیں۔ لیکن ان کے سابق حکمران نہ صرف ارب پتی ہیں بلکہ انکے سرمائے
میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، جو ناقابل یقین حد تک بڑھتا جارہا
ہے۔اس سارے معاملے میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھ ہیں وہیں
سیاستدانوں نے اپنا کردار خوب ادا کیا، جن کی پالیسیز نے ملک کے غریب عوام
کو غریب سے غریب تر کردیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ امیر کو امیر سے امیر تر کرنے
میں خوب تندہی سے کام کیا ہے اور اس بات کا ادراک ہی نہیں کررہے کہ ان کی
وجہ سے نہ صرف عوام بلکہ ملک کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔وطن عزیز
کی بربادی کی انتہا تو یہ ہے کہ گزشتہ روز عالمی بینک کے ادارے انٹرنیشنل
سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس (سرمایہ کاری کے تنازعات نمٹانے کے
بین الاقوامی ادارے) کی جانب سے ترک کمپنی کارکے کارادینز الیکٹرک یورینٹم
اے ایس کی شکایت پر اسلام آباد کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی خلاف ورزی
پر ہرجانے اور یومیہ جرمانے کی مد میں عائد کردہ 950 ملین سے ایک ارب ڈالرز
تک کی ادائیگی پاکستان نہیں کر پائے گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جسٹس (ر) ناصر
الملک کی قیادت میں نگراں حکومت کھائی میں پھنس نظر آتی ہے۔ اگر حکومت نے
800 ملین ڈالرز اور ساتھ ہی یومیہ جرمانے (جس سے کل ملا کر رقم ایک ارب
ڈالرز تک جا پہنچے گی) کی ادائیگی کا فیصلہ کیا تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی
خلاف ورزی ہوگی کیونکہ عدالت عظمیٰ رینٹل پاور پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار
دے چکی ہے۔ اور اگر یہ ادائیگی نہ کی گئی تو رواں ہفتے میں ملک کو دیوالیہ
قرار دیا جائےگا۔ اس طرح ترک کمپنی کارکے دنیا کے کسی بھی ایسے ملک میں
پاکستان کیخلاف اثاثوں کی ضبطی کا مقدمہ دائر کرنے کی اہل ہوجائیگی جہاں
پاکستان کے اثاثے موجود ہیں۔ اب تعین کیا جانا ضروری ھےکہ قومی خزانے کوکس
نے اور کب کب نقصان پہنچایا؟کب کب وطن عزیز کے عوام کے خون پسینے کی کمائی
باہر لے جائی گئی اور ملکی معیشت جو آج 200ارب ڈالر کے گرداب میں آچکی ہے،
اُس کا ذمہ دار کون ہے؟ وقت بدل رہا ہے، زمانہ بدل چکا ہے۔ پاکستان بدل رہا
ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو بدلنا ہوگااور صرف اور صرف پاکستان اور عوام
کیلئے سوچنا اور کرنا ہوگا، لہٰذاعام انتخابات میں جس قدر ہو سکے ان
سیاستدانوں سے بچا جائے جنہوں نے اس ملک کو لوٹا ہے۔ |