آج کی تازہ خبر

ہر روز ایک نئی خبر عوام پر تازیانہ ثابت ہوتی ہے۔ دو دن پہلے خبر آئی کہ چینی کی قیمت میں (یوٹیلیٹی اسٹورز پر) 15روپے فی کلو اضافہ کردیا گیا۔ پھر ایک خبر ملی کہ جون 2011 تک بجلی کے نرخ 30.4 فیصد بڑھادیئے جائیں گے۔ آج پیٹرولیم کی مصنوعات میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا۔ جو کہ پیٹرول بم کی طرح پھٹا ہے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے پیشِ نظرِ، کراچی ٹرانسپورٹ اتحادکے صدر سید ارشاد بخاری نے غیر معینہ مدت کے لئے ہڑتال کا اعلان کیا ہے (اگرچہ وہ ھمیشہ اس معاملہ پر مک مکھا کرلیتے ہیں) اور انتظامیہ گاڑیوں کے کرایوں میں من مانا اضافہ کردیتی ہے اور ہڑتال غیر معینہ وقت کے لیے منسوخ کردی جاتی ہے۔

ہر ایک خبر میں کتنا خوف و ہراس ہوتا ہے اس کا اندازہ تو ایک غریب آدمی ہی لگا سکتا ہے ، بازار میں معمولی اور روز مرہ کے استعمال کی اشیأ خریدنے جائیں تو ہزار پانچ سو کا نوٹ درکار ہوتا ہے ۔ سبزی ترکاری ، دال چاول، آٹا، گھی، چینی حتہ کہ نمک کی قیمت بھی آسمان پر پہنچ گئی ہے بند کمرے میں بیٹھ کر عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو اتنا بھی علم نہیں ہو گا کہ ان کی گاڑی میں روزانہ کتنا پیٹرول استعمال ہوتا ہے، دن میں کتنے سگریٹ پھونک دیتے ہیں کتنی کافی اور چائے میں کتنے پیسے برباد ہوجاتے ہیں صاحب کے مہمانوں کی تواضع کی آڑ میں کتنی فضول خرچی کی جاتی ہے۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایٹم بم کی حامل اس ریاست (جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے موسوم کرتے ہیں) پر ہر قابض حکمران طبقہ ہر جگہ ہی اسلامی اصولوں سے انحراف کرتا نظر آتا ہے۔ جس ملک کو نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا آج اسی ملک کے حکمران اس نظریہ کی دھجیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ جنرل ایوب سے لیکر ضیا الحق تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر زرداری تک ہر دور کے بے حس ، بدگمان بد طینت ظالم و جابر حکمرانوں نے صرف اپنے دور اقتدار کو طول دینے اور اپنی حوسِ دولت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کیا۔

یہ ملک کئی مرتبہ پھانسی پر چڑھایا گیا، پہلی مرتبہ جب ایوب خان نے اس ملک کی نوزایئدہ جمہوریت پر کاری وار کیا اور ملک میں مارشل لأ نافذ کر دیا، ایک آمر کو دوسرے آمر نے ہٹایا اور یحیٰ خان نے دوسرا مارشل لاﺀ لگا دیا اور عوام کو گونا گوں مسائل کا شکار کردیا گیا۔ اسی دور میں اس ملک کی عوام کی قسمت جاگی اور ملک میں انتخابات کرادیئے گئے اس مقابلے میں روٹی ، کپڑا اور مکان دینے کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی مگر ایسا صرف مغربی پاکستان میں ہوا کیوں کہ مشرقی پاکستان یعنی صوبہ بنگال میں عوامی لیگ یعنی مجیب الراحمٰن کو کامیابی ہوئی۔ نہ بھٹو پیچھے ہٹے اور نہ مجیب غرض 16 دسمبر1971 کو سانحہِِ سقوط ڈھاکہ وقوع پذیر ہوا۔ اور یوں پاکستان کا بٹوارہ ہو گیا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی 1977 میں بھٹو صاحب کے بنائے ہوئے آرمی کے سربراہ نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 4 اپریل 1979 کو بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اسی کے ساتھ ملک و قوم کو بھی تختہِ دار پر لٹکا دیا گیا۔

اسلام علیکم کہہ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والا حق حرام کا مردِ مومن (جو کہ مومن کے نام سے نفرت کرتا تھا) 90 دن میں جانے کا وعدہ کر کے 11 سال میں بھی نہ گیا تو اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئی اور موصوف ہوا ہی میں تحلیل ہو گئے۔

عوام شاید یہ سمجھ رہی تھی کہ اب ھماری باری ہے مگر بقولِ شاعر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، آمریت کے جانے کے بعد جو جمہوری حکومتیں آئیں انہوں نے اس ملک کے طول و عرض کو شطرنج کی بساط سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور ہر دو سال بعد اٹھونجہ 2 بی (58/2بی) کا بے دریغ استعمال ہوا اور ایک کے بعد ایک عوام کے ووٹوں کی امانت کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہوئے سمیٹتے رہےاور خود فریبی میں مبتلا اس قوم کو داغِ مفارقت دیتے رہے۔ پھر12 اکتوبر 1999 کا دن آگیا،( ہاں یاد آیا اس ملک کے لیے اکتوبر کا مہینہ ویسے بھی سازگار نہیں کبھی تو اس مہینے اوجھڑی کیمپ جیسا سانحہ ہوا، تو کبھی سی۔ 130 طیارہ گرا کبھی زلزلہ آیا تو کبھی حکمرانوں نے منہگائی کے بم پھوڑے)۔

ایک اور جہاز ہوا میں گرنے والا تھا مگر اوپر والے نے زمینی حکومت گرا دی پھر آمریت شروع ہوگئی 9 سال میں کتنے ہی پیچ و خم آئے کتنے ہی مزید سانحات ہوئے بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی عوام نے عوام کو مارا پھر الیکشن ہوئے اور بھٹو نام پر زرداروں کی حکومت بنی مگر سابقہ حکومت اس جمہوری آمریت سے تو شاید بہتر ہی تھی کہ ۔۔۔۔۔

موجودہ حکومت نے تو بے حسی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے، وہ کونسا شعبہ ہے جہاں اس حکومت کی معرکہ آرائی نہ ہو رہی ہو چاہے عدلیہ ہو یا اسمبلی، احتیساب کا عمل ہو یا جعلی ڈگریوں کا معاملہ۔

اگر حکومت نہیں لڑ رہی تو لینڈ مافیا سے، رشوت خوروں سے ، بھتہ خوروں سے ، جرائم پیشہ افراد سے مہنگائی لانے والوں سے چوروں سے لٹیروں سے۔

شاید ان سے لڑائی ہو بھی نہیں سکتی کیوں کہ جب حکومت میں ہی یہ سب عناصر پائے جائیں تو لڑائی تو کجا بری آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتے۔

رہ گئی عوام تو وہ پھر کسی تازہ خبر کے انتظار میں ہے۔
جعفر حسین
About the Author: جعفر حسین Read More Articles by جعفر حسین: 12 Articles with 18076 views I live in Karachi, I am a banker.. View More