مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز
شریف نے پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت کو کڑی
تنقید کا نشانہ بنایا وہیں عوام کو عیاریوں اور لغاریوں سے نجات کی نوید
بھی سنادی ہے۔ میاں نواز شریف چونکہ ایک ذمہ دار سیاستدان ہیں لہٰذا ان کی
باتوں پر یقین نہ کرنا بہر صورت درست نہیں عمل نہیں لیکن کیا کیجییے کہ ن
لیگی قائد نے اچانک ”ٹون“ بدل کر جس طرح کے نعرے لگانے شروع کر دیئے ہیں وہ
خود انہی کی ذات اور پارٹی کے حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کی باتیں واقعی تبدیلی کا عندیہ ہیں یا پھر محض
بڑھکیں؟واللہ علم، لیکن موصوف کی جانب سے جن امور یا مسائل پر حکمرانوں کو
ہدف تنقید بنایا جارہا ہے، ایمانداری سے دیکھیں تو ان مسائل کے پیدا کرنے
میں خود کو بڑے فخر سے ”فرینڈلی“ قرار دینے والے میاں نواز شریف اور ان کی
مسلم لیگ ن بھی برابر کی شریک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت تنقید کا کامل ترین
ہدف ہوتی ہے لہٰذا پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت ہدف تنقید ہے اور یقیناً وہ
اس کی حقدار بھی ہے لیکن ہمارا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مسلم
لیگ( ن) کو بھی ایسی ہی تنقید کا نشانہ ہونا چاہیئے۔ 2008ء کے الیکشن سے
پہلے اور بعد کے حالات دیکھیں تو یہ بات بغیر کسی شک و شبے کے ثابت ہو چکی
ہے کہ پیپلز پارٹی طبقہ اشرافیہ کیساتھ اتحاد کرنے کے اپنے معمول کے راستے
پر چل رہی ہے۔ یہ جنرل مشرف اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کو جاری
رکھے ہوئے ہے اور ویسے ہی طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انہی پالیسیوں پر
عمل کا شاخسانہ ہے کہ گزرے تین برسوں میں پاکستان کے عوام کے لئے مسائل کے
جو پہاڑ کھڑے ہو چکے ہیں ان کو پاٹنا مشکل ہی نہیں بڑی حد تک ناممکن بھی
ہوچکا ہے۔
8فروری 2008ءکو جب عام انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو ن لیگی قیادت سمیت
بہت سے رہنماﺅں نے نہ صرف ان کو”خاموش انقلاب“ کا نام دیا بلکہ اپنے اسی
نعرے کو بنیاد بنا کر واقعتاً انقلاب کی نوید کے ساتھ ملکی سیاسی تاریخ میں
پہلی مرتبہ ماضی کے سخت ترین حریف ایک دوسرے کے حلیف بھی بن گئے۔ بات وفاق
سے پنجاب تک پہنچی اور باہمی”لین دین“کا سلسلہ بھی چلا لیکن زیادہ دیر تک
نہیں۔ جیسے جیسے وقت کا پہیہ سرکنے لگا، بڑی اتحادی جماعتوں(پیپلز پارٹی
اور ن لیگ) کی دوریاں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ وفاقی کابینہ کا حصہ ہونے کے
باوجود ن لیگ نے حکومت پر تنقید شروع کی تو اس جماعت کے اصولوں کی سیاست کے
نعرے پر یقین سا ہونے لگا لیکن جیسے جیسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے
فاصلے بڑھے یہ یقین بھی متزلزل ہوتا گیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ ن لیگ نے
پیپلز پارٹی کی پالیسیوں پر نکتہ چینی ترک کر دی تھی بلکہ اس کا اپنا وہ
طرز عمل تھا جو بقول شخصے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور کے
مترادف تھا۔ ن لیگ لاکھ دعوے کرتی پھرے کہ اسے صدر آصف علی زرداری یا پھر
حکومتی ارادوں یا مقاصد کا علم نہیں تھا لیکن ہم یہ ماننے کو بالکل ہی تیار
نہیں کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اتنی”بے خبر“ نہیں ہوسکتی۔ اس کے باوجود ن
لیگ نے کسی بھی سطح پر وہ رد عمل دیکھنے میں نہ آیا جو حالات کا متقاضی تھا۔
یہ درست ہے کہ ججز بحالی لانگ مارچ اور ایک آدھ ایسے ہی اور مواقع پر
جارحانہ انداز اپنایا گیا لیکن اس کے پس پردہ کیا مجبوریاں تھیں ؟یہ الگ
کہانی ہے ، سردست اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ اس دوران سارا کریڈٹ ملنا
مسلم لیگ ن کی خوش قسمتی کے سوا کچھ نہیں تھا۔لاپرواہی کہیں یا پھر ذمہ
داریوں سے انحراف کہ ن لیگ ایسا ہی کرتے ہوئے حکمران جماعت کو کھل کھیلنے
کا موقع دیتی رہی ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف اور ان کے
پیروکار اس وقت احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے تو حالات مختلف ہوتے لیکن
ایسا نہیں ہوا اور آج صورت یہ ہے کہ صرف حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے والے
خودغیر محسوس طریقے سے الزامات کی زد میں ہیں۔
یقینی طور پر اصولوں کی سیاست کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ ن اور اس کے
رہنما اور کارکن خود کو مکمل طور پر بری الذمہ ٹھہرائیں گے لیکن صرف بیان
بازی سے حقیقت کو تبدیل کرنا ممکن نہیں اور یہ حقیقت اس قدر تلخ ہے کہ اس
کے تندو تیز سوالوں کا جواب شاید اہلیان رائے ونڈ کے پاس بھی نہ ہو۔ سیاست
کے اس کھیل میں اصولوں کی علمبردار قرار دیکر مسلم لیگ (ن)پر داد و تحسین
کے ڈونگرے تو برسائے جاتے رہے لیکن اس بات کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ اس
جماعت کی قیادت اصولی اختلافات کی گردان کے باوجود حکومت کمزور نہیں کریں
گے کا ورد کیوں کرتی رہی؟ میاں نواز شریف اگر واقعی حکومت کو ٹف ٹائم دینا
چاہتے تھے تو6ستمبر2008ءکے صدارتی انتخابات میں آصف علی زرادی کے مقابلے
میں جسٹس (ر) سعیدا لزماں صدیقی جیسی کمزور سیاسی شخصیت کو اپنا صدارتی
امیدوار نامزد کیوں کیا؟اور پھر ق لیگی امیدوار ہی کی طرح محض خانہ پری کے
لئے انتخابی مہم کیوں چلائی گئی؟ کیا وہ زرداری کو آسانی سے جیتنے کا موقع
دینا چاہتے تھے؟ یقیناً ہاں! اگر نہیں تو پھر ن لیگ واضح کرے کہ اس تقابل
میں وہ کہاں کھڑی ہے اور وہ کیا مجبوری تھی جس نے سب سے بڑی اپوزیشن جماعت
کو درست طرز عمل اپنانے سے باز رکھا؟
معزول ججوں کی بحالی کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کی کوشش قابل تعریف سہی مگر
کیا وہ اتنا کچھ ہی کر سکتی تھی ؟کیا اس کا عمل یہی ہونا چاہیے تھا؟ کیا
اسے یہی کرنا چاہیے؟ کیا مری /بھوربن معاہدے پر پیپلز پارٹی کو معافی ہی
واحد راستہ تھا ؟ کیا وفاقی وزارتوں سے علیحدگی کافی تھی؟ کیا قومی اسمبلی
میں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھنا کافی تھا؟ مسلم لیگ(ن) کواپنے وعدے کو
پورے کرنے میں کوئی مجبوری درپیش تھی یا پھر اس نے صرف نمبر بڑھانے کی روش
اپنائے رکھی؟ پچھلے تین سال کے واقعات پر ایک طائرانہ نظر ثابت کرتی ہے کہ
لیگ(ن)حکومت کے سلیپنگ پارٹنر کا کردار ادا کر رہی ہے وفاقی وزارتوں کو
ٹھوکر، حکومتی اتحاد سے علیحدگی اور پھر اپوزیشن بینچوں پر صرف بیٹھے ہی پر
اکتفا اس کا ثبوت ہے اور یوں ان وہ تمام الزامات جو میاں نواز شریف اور ان
کے دیگر رفقاء پیپلز پارٹی پر عائد کر رہے ہیں خود ان کے اپنے سر بھی آتے
ہیں۔ آج اگر پیپلز پارٹی آمر کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے تو اس کی بڑی وجہ
ن لیگ کا کبھی بھی سمجھ میں نہ آنے والا طرز عمل ہی ہے ۔
لاہور میں مسلم لیگ کے یوم تاسیس کے موقع پر جوشیلا خطاب اپنی جگہ لیکن کیا
کیجئے کہ چاہتے ہوئے بھی دل میاں نواز شریف کے ارشادات پر یقین نہیں کر رہا
اور اب تک اختیار کی جانے والی لیگ (ن) کی” امن پالیسی“اور جارحانہ ترین
خطاب کے فوری بعد صدر آصف علی زرداری کی طرف سے میاں نواز شریف کو فون اب
کی بار بھی اصولی سیاست کے اس کے دعوﺅں کو مشکوک بنا رہا ہے۔ ممکن ہے میاں
صاحب درست ہی فرما رہے ہوں لیکن انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ نئی
بڑھکوں پر عمل کے لئے بھی کڑی آزمائش اور قربانی ناگزیر ہے۔ اگر واقعی وہ
پاکستان کو عوام کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو فرینڈلی ہونے کے” اعزاز “کے
ساتھ ساتھ پنجاب حکومت بھی قربان کرنا پڑے گی، اگر وہ اب بھی ”مجبوریوں“ کے
ہاتھوں مجبور ہوگئے تورہا سہا اعتماد بھی کھو دیں گے۔ |