2019کے لوک سبھا الیکشن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں ،ایک
بار پھر ملک نفرت کی آگ میں جھلستا نظرآرہا ہے۔ویسے ہندوستان میں اس طرح کے
حالات کوئی نئے نہیں ہیں۔شاید اسی لیے ملک کا ایک بڑا طبقہ خاموشی اختیار
کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ہندو مسلم تقسیم،غلط فہمیوں کا بازار گرم
ہونا،جھوٹا پروپگنڈاکرنا اور کروانا،سوشل میڈیا کو اس کے لیے بطور اعلی کار
استعمال کرنا،الیکٹرانک میڈیا کے مہان اینکرس کا مخصوص کردار ادا
کرنا،ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرتوں کو فروغ دینا،ان میں دوریاں پیدا
کرنا، دوری کے نتیجہ میں ایک بار پھر سیاسی بساط پر فائدہ حاصل کرنے کی
دوڑمیں سب سے آگے نکلنے کی خواہش میں سرگرم عمل ہونا۔یہ وہ تمام کام ہیں جو
چند دہائیوں سے الیکشن سے قبل ہوتی ہیں اور عام طور پر ہر مرتبہ ہوتی
ہیں۔اس کے باوجود یہ تمام کام ایک خا ص طبقہ کا عام مشغلہ بن چکا ہے۔لیکن
چند لوگوں کا مشغلہ اور بہت سوں کی خاموشی نے ملک کی فضا خراب کرنے میں اہم
کردار ادا کیا ہے۔اورایسا لگتا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اس کے
امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔ایک بار پھر نفرتوں کو عام کیا جائے،لوگوں کو
لڑایا جائے،کچھ لوگوں کو آگ اور خون کے کھیل میں منصوبہ بند انداز میں شامل
کیا جائے،کچھ کو اس سے فیض یاب ہونے کے مواقع میسر کیے جائیں،کچھ کی سرزنش
کی جائے اور بہت سوں کو متنفر کیا جائے،اور کچھ ایسے بھی ہوں جنہیں حد درجہ
خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اسٹیج سجائے جائیں،وعدے اور دعویٰ کیے
جائیں،تبدیلی کے نعرے بلند ہوں،الیکشن قریب آجائے،کچھ لوگ ہیرو بن
جائیں،اور باقی ،ایک خاص وقت تک کے لیے خاموش ہو جائیں گے۔اس درمیان کچھ
لوگ ایسے بھی نظر آئیں گے جو دائمی دشمن کی نشاندہی کروائیں گے،دوسروں کو
مسیحا ثابت کرنے میں مصروف ہو جائیں گے،سیاسی بازی گر اُن کے گرد چکر کاٹیں
گے اور اگر کوئی ان کے آس پاس نہیں آیا تو وہ خود ہی دوسروں کے گرد چکر
کاٹنے کی خواہش لیے ادھر سے ادھر گھومتے نظر آئیں گے۔بس یہیں سے عوام اور
خواص میں فرق واضح کیا جائے گا۔عوام کو مشورے دیے جائیں گے،راہنمائی کے
فرائض ادا کیے جائیں گے،طاقت کو تقسیم کرنے کی اسٹریٹجی بنائی جائے گی،اور
عوام کو لفظ'اسٹریٹجی'کے معنی بھی سمجھ میں نہیں آئیں گے۔
آئیے کچھ وعدے جو 2014لوک سبھا الیکشن سے قبل ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی
نے کیے تھے وہ یاد دلاتے ہیں۔پہلا وعدیٰ پردھان منتری آواس یوجنا کا تھا
۔اس اسکیم کے تحت دیہی علاقوں میں 95.4 لاکھ مکانات کی تعمیر کا ہدف مقرر
کیا گیا تھا لیکن ابھی تک صرف 20 فیصد مکان ہی بن سکے ہیں۔ شہری علاقوں میں
یہ ہدف 40.6لاکھ مکانات کا تھا مگر اس کا صرف 8 فیصد ہی حاصل کیا جاسکا
ہے۔نوامی گنگے اسکیم اس میں گنگا کی صفائی کی مہم بڑی دھوم دھام سے شروع کی
گئی تھی لیکن جہاں تک کامیابی کا سوال ہے چار سال کے بعد مودی حکومت کے پاس
دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس اسکیم کے لئے جو رقم مختص کی گئی تھی اس
میں 2615 کروڑ روپئے کا ابھی تک کوئی استعمال نہیں ہوا ہے اور مجموعی طور
پر 154 جامع پروجیکٹ رپورٹوں میں سے صرف 71 کو ہی منظوری دی گئی ہے جبکہ
افرادی قوت میں بھی 44 فیصد سے 65 فیصد کی کمی ہے۔اسمارٹ سٹیز مشن :مودی
حکومت کے تمام اقدامات کی طرح اس مشن کا بھی خوب ڈھنڈھورا پیٹا جاتا رہا ہے
لیکن اس کی کوئی ٹھوس شکل آج تک نظر نہیں آئی۔وہیں مودی حکومت ہرسال دو
کروڑ روزگار پیدا کرنے کے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی ۔آپ اندازہ لگا
سکتے ہیں کہ جس طرح 85 فیصد تربیت یافتہ افراد روزگار حاصل کرنے میں ناکام
ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت کی بدنظمی سے ہنرمندی کے فروغ کے
پروگرام کا کیا حشر ہورہا ہے۔ ضرورت ہے کہ مودی نے جو وعدے کیے تھے ان
وعدوں پر سوال اٹھایا جائے۔
اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے 'سووکچھ بھارت ' ، 'میک ان انڈیا'
، 'بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ ،' جن دھن ' اور اسطرح کی متعدد اسکیمیں اور
پروگرام شروع کیے۔ ان میں کچھ اسکیمیں اور پروگرام کسی حد تک کامیاب ہوئے
اور زیادہ تر صرف نعرے بن کر محدود ہو گئے۔ مودی نے اقتدار سے پہلے 'بڑے
خواب ' دیکھنے کی باتیں کیں لیکن گزشتہ چار سالوں میں مودی حکومت نے کوئی
بڑا پروجکٹ ، بڑا منصوبہ یا پروگرام شروع نہیں کیا جو ملک میں تیز رفتار
ترقی کا ضامن ہوتا۔ملک میں اقتصادی ترقی کی شرح گھٹ کر اس وقت 7%فی صد پر آ
گئی ہے۔ اگر ترقی کی شرح نکالنے کے لیے 2014 کے فارمولے پرعمل کریں تو یہ
شرح 7فی صد سے بھی کہیں کم ہے۔ پانچ برس پہلے ملک میں ہر برس سات سے آٹھ
لاکھ نئی ملازمتیں بنتی تھیں۔ پچھلے برس یہ گھٹ کر سوا لاکھ پر آگئی ہے۔ اس
برس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہزاروں نوکریاں ختم ہونے والی ہیں۔
آئی ٹی ، ای کامرس اور بینک کاری میں آئندہ تین سالوں کے دوران لاکھوں
ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ملک میں حکومت کی تمام دعوں کے باوجود روزگار کے
نئے مواقع نہیں بن پا رہے ہیں۔ معیشت میں اعتماد اتنا کم ہے کہ بینکوں سے
قرض لینے کی شرح حددرجہنیچے آ گئی ہے جتنی پچھلے ساٹھ برس میں کبھی نہیں
ہوئی تھی۔حکومت نے حال میں سڑک ، بندرگاہوں اور نئے ہوائی اڈوں کی تعیر اور
توسیع کے کچھ پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔ مودی حکومت اس لحاظ سے خوش قست ہے
کہ جس وقت وہ اقتدار میں آئی اس وقت بین الاقوامی بازار میں پیٹرول 107
ڈالر فی بیرل تھا اور یہاں 71 روپے فی لیٹر بکتا تھا۔ اب بین الاقوامی
مارکیٹ میں پیٹرول 48 ڈالر کا ہے اور انڈیا میں 75.79روپے میں بکتا ہے۔ اس
سے ہر برس حکومت کوکچھ کیے بغیر تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کی بچت ہوئی
ہے۔بینکوں کی حالت یہ ہے کہ دو برس قبل بڑی بڑی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں
کے یہاں پھنسے ہوئے قرضوں کی جو مالیت تین لاکھ کروڑ روپے تھی وہ اب سات
لاکھ کروڑ روپئے تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ پانچ سو
اور ایک ہزار روپے کے نوٹوں پر پابندی لگائے جانے کے بعد پرانے نوٹوں کی
کتنی رقم جمع ہوئی۔ملک کے تعلیمی ادارے اس وقت بحران سے گزر رہے ہیں۔ صحت
کے شعبے میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ آنے والے برسوں میں
ملازمت کے مواقع تخلیق کرنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔کشمیر اور ماؤ نوازوں کا
مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ہندوتوا کی ایک نئی لہر چلی ہے جس میں
مذہبی اقلیتیں خوف وہراس سے گزر رہی ہیں۔ گائے کے تحفظ کے نام پر گوشت کے
کاروبار پر روک لگائی جا رہی ہے۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔دلتوں کے
خلاف مظالم بڑھ گئے ہیں۔وزیر اعظم مودی کو اپنی تنقید پسند نہیں ہے اور نہ
ہی وہ نکتہ چینی کرنے والوں کو معاف کرتے ہیں۔ انڈیا کا میڈیا اس وقت کم و
بیش نہ صرف پوری طرح مودی کا حامی ہے بلکہ وہ حزب `اختلاف کا سب سے بڑا
مخالف ہے۔ان گزرے ہوئے تین سالوں میں وزیر اعظم مودی نے اپنی کارکاردگی کے
حوالے سے ایک بھی پریس کانفرنس کا انعقاد نہیں کیا۔ وہ سوال کیا جانا پسند
نہیں کرتے۔ اس کے بر عکس اخبارات اور ٹی وی چینل مودی حکومت کی کارکردگی کو
اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے تین برس میں مودی حکومت نے ملک میں انقلاب برپا
کر دیا ہو۔لیکن یہ انقلاب زمین پر کہیں نظر نہیں آتا۔
لیکن ایک انقلاب ضرور نظر آتا ہے جو مودی ،ان کی پالیسی،ان کے طریقہ
کار،اور ان تمام لوگوں کی بد اعمالیوں کے خلاف ہے جو ملک میں فسادبرپا کرنے
اور نفرتوں کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہیں۔یہ انقلاب دادری کے اخلاق اور
ہاپوڑ پلکھوا کے قاسم اور اِس درمیان ان تمام مقتولین کی آہوں کا نتیجہ
ہوگا،جن پر حد درجہ ظلم ڈھایا گیا۔یہ انقلاب سپریم کورٹ کے معزز ججوں کی
پریس کانفرس کے ذریعہ بھی ہمارے سامنے آیا ہے۔یہ وہی انقلاب ہے جسے ہم پھول
پور،گورکھپور اورکیرانہ الیکشن کے نتیجہ کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔اور یہ
وہی انقلاب ہے جسے حالیہ دنوں ریاست کرناٹک کے اسمبلی الیکشن کے بعد کے
ادوار میں آپ نے دیکھا ہے ۔یہ انقلاب حیدر آباد کے روہت ویمولا،جے این یو
کے نجیب،بنگلور کی گوری لنکیش اورسری نگرکے شجاعت بخاری کے قتل کے بعد کے
ماحول میں بھی آ پ نے ضرورمحسوس کیا ہوگا۔لہذا ہر وہ شخص جو عدل و انصاف کا
علمبردار ہو اور جو سمجھتا ہو کہ ووٹ صرف دیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ سیاسی
لیڈران اگر لا اینڈ آڈر برقرار نہ رکھیں اورعوام کے تئیں اپنی ذمہ داری ادا
نہ کریں تو پھر ان سے سوال کیا جائے اور ان پر گرفت بھی کی جائے۔ایسے لوگوں
کو چاہیے کہ وہ 'ہندومسلم 'اور 'دائمی اور وقتی سیاسی دشمن'جیسے جملوں سے
کچھ آگے نکل کے مثبت کردار ادا کریں۔اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو لازما کچھ
لوگ آپ کے ارد گرد ایسے ضرور موجود ہیں جو آپ کو کہیں اور مصروف کردیں
گے۔پھر آپ جہاں مصروف ہوں گے وہ وہی چکر ویو ہوگا جس میں آپ پہلے سے پھنسے
ہوئے ہیں! |