پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر قدرتی نعمت سے نوازا ہے۔
ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے ؟۔ اس کے باوجود ہماری دنیا میں اتنی وقعت ہے
کہ ہمارے وزراءاعظم تک کو دوسرے ممالک کے ائرپورٹس پہ تضحیک آمیز تلاشی سے
گزرنا پڑتا ہے ۔ اس ذلت و رسوائی کی وجہ بھی خود ہمارے حکمران ہی ہیں ،
اقتدار کی خاطر یہ ہر اصول ہر ضابطہ روندنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ایوان
اقتدار میں پہنچنے کے لئے اپنے ہی قریبی ساتھیوں کی ٹانگیں کھینچنا، انہیں
دھوکہ دینا بالکل معمولی بات ہے اور شائد اسے ہی ہمارے سیاستدان سیاست کہتے
ہیں ۔
2002ءکی بات ہے ،ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے الیکشن کا اعلان کیا تو سابقہ حکمران
جماعت مسلم لیگ ن کے ایک سو چالیس ممبران اسمبلی نے اپنی وفاداری بدل کر
ڈکٹیٹر کی اپنی بنائی ہوئی جماعت مسلم لیگ ق جوائن کرلی اور پانچ سال تک
اقتدار کے خوب مزے لئے ۔
پھر 2008 ء کے الیکشن آئے تو ایک بار پھر ننانوے لوٹے ق لیگ چھوڑ کر ممکنہ
حکمران جماعت پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور اگلے پانچ سال تک اقتدار کے مزے
پھر پکے کرلئے اور ملک و قوم کی خوب درگت بنائی ۔ الیکشن 2013ء میں پھر یہ
سیاسی لوٹے ن لیگ کی حکومت بنتی دیکھ کر رال ٹپکانےلگے اور ایک سو اکیس
لوٹے ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے چھلانگ لگا کر میاں صاحب کی گود میں آ بیٹھے
، اور میاں صاحب جو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ "جانے والوں کے لئے پارٹی میں
کوئی جگہ نہیں " اقتدار کے وسیع تر مفاد کے لئےانہیں واپس جماعت میں لینے
پہ مجبور ہوگئے۔
اب 2018 ء کے الیکشن کی آمد آمد ہے ۔ تحریک انصاف کا زور ہے ، غالب امکان
عمران خان کے وزیراعظم بننے کا ہے اس لئے ایک بار پھر اقتدار کے حریص دھڑا
دھڑ پیپلز پارٹی ، ن لیگ (جو اب مسلم لیگ شہباز بن چکی ہے )اور دیگر
جماعتوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف کے سائبان تلے جمع ہورہے ہیں ۔عمران خان
صاحب کے پاس اتنی وافر مقدار میں لوٹے جمع ہوچکے ہیں کہ انہیں سمجھ ہی نہیں
آرہی کہ اتنے لوٹے وہ کہاں رکھیں ۔میرے ایک دوست کا کہنا ہے" بھارتی حکومت
پورے ملک میں اپنی عوام کو مفت ٹوائلیٹ بنا کر دے رہی ہے ۔ایسے میں اگر
پاکستانی قوم انہیں اپنی طرف سے تحفتا" لوٹے پیش کرے تو دونوں ممالک میں
دوستانہ تعلقات پیدا ہوسکتے ہیں "۔
پاکستان میں موقع دیکھ کر ایک پیڑسے دوسرے پیڑ پہ چھلانگ لگانا اور جیبیں
بھرنا کوئی ایسی نئی یا معیوب بات توکبھی نہیں تھی، لیکن مشرف کے دور سے اب
تک یہ باقاعدہ ایک صنعت بن چکی ہے ۔سیاسی ابتری نے ماشااللہ ہمیں اس قدر
لوٹے عنائت کئے ہیں کہ اب انہیں رکھنے کے لئے ہماری جماعتوں کے پاس جگہ کم
پڑ رہی ہے ، مضائقہ نہیں کہ اگر اب ہم اپنی یہ ہوم پراڈکٹ(سیاسی لوٹے)دوسرے
ممالک کو برآمد کرنا شروع کردیں ۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں پیتل اور اسٹیل کے لوٹے استعمال ہوا کرتے تھے ،
بعض عقل مند والدین لوٹوں کی افادیت اور ضرورت کے پیش نظر اپنی بچیوں کو
شادی کے تحائف میں پیتل کے لوٹے ضرور دیتے تھے جو سالہاسال چلتے رہتے تھے
،گھستےتھے نہ ٹوٹتے تھے۔ اب چونکہ پلاسٹک کے لوٹوں کا رواج ہے جو وزن میں
ہلکے اور جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں ،اس لئے یہ رنگ برنگے ہلکے پھلکے
کمزور لوٹے بڑی جلدی بدلنا پڑتے ہیں ۔
آج کل سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان کی نظریاتی تربیت کا اہتمام بہت کم کرتی
ہیں ، اسی لئے انہیں ایسے افراد بہت کم ملتے ہیں جو ہر مشکل گھڑی میں اپنی
قیادت کے ساتھ کھڑے ہوں ۔اکثریت پلاسٹک کے رنگ برنگے لوٹے ہیں جو ہر الیکشن
میں اپنا ٹوائلیٹ۔۔۔ معذرت پارٹی بدل لیتے ہیں ۔
کم از کم اس بار ہماری ہمارے عوام کو بیدارمغزی کا ثبوت دینا چاہئے تاکہ
لوٹوں کو ان کے درست مقام تک پہنچایا جاسکے ۔
|