عمران خان کا سجدہ

ایک سجدہ نہ کیا تو برگزیدہ فرشتہ شیطان بن گیا۔جب کوئی بلندی پر پہنچ جائے تو پھر اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوتا ہے۔وہ سنبھل یا لڑھک سکتا ہے۔ وہ سب کو نظر آتا ہے۔ اس کی ہر ایک حرکت دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم نے آج ہر دفتر ، مکان پر کیمرے نصب کئے ہیں تا کہ سب کچھ دیکھا جا سکے۔ کچھ شاپنگ مالز کے چینج رومز تک میں کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ بعض گیسٹ ہاؤسز ، ہوٹلز کے بارے میں سنا کہ ان کے واش رومز اور بیڈ رومز تک میں کیمرے ہیں ۔ اب کوئی چیز خفیہ نہیں رہی۔ پرائیویسی ختم ہو گئی ہے۔ دفاتر ، شو رومز میں ایک مزدور، ملازم کو کجھلی کرتے ہوئے ، یا کوئی دیگر پرائیویٹ حرکت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب کیا چیز راز ہے۔ کوئی نجی زندگی نہیں۔ سب کچھ شفاف ہے۔ لیڈرز کا بھی یہی حال ہے۔ وہ جس قدر مقبول ہوں، ان پر عوام کی نظر بھی اس کے ساتھ ہی مرکوز ہو جاتی ہے۔ ان کی زندگی اور بندگی راز نہیں رہتی۔ اگر کوئی پاکستان کا کھائے اور بھارت کے گن گائے تو کیسا لگے گا۔ کون برداشت کرے گا۔ بندہ خدا کا اور بندگی انسان کی، اﷲ تعالیٰ کیسے معاف کریں گے۔ مگر یہ بندگی والا معاملہ بندہ اور اس کے خدا کے درمیان ہے۔ اگر یہ چھپ کر ، راتوں کو یا تنہائی میں ہو تو اس کا اجر بہت زیادہ ہے۔دکھاوے کے لئے سر عام کیمروں کے سامنے ہو تو پتہ نہیں کیا اجر ملے گا۔

عمران خان گزشتہ شام اپنی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کی درگاہ پر گئے۔ اس کی ویڈیو سامنے سے بھی اور عقب سے بھی لی گئی ہے۔ یہ منظر سب نے دیکھا کہ عمران خان دربار کے چوکھٹ پر سجدے میں گر گئے۔ یہ سجدہ بابا جی کے آگے کیا گیا۔ جب کہ ہم دن میں کم از کم پانچ بار عہد کرتے ہیں کہ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔۔۔کہ ہم اے اﷲ پاک صرف آپ کی ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف آپ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ عمران خان کے سجدہ پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے وہ ملک کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ خواب لگتا ہے شرمندہ تعبیر ہونے کے شبہات ہیں۔ حالات موافق بنائے جا رہے ہیں۔ بات آگے نکل رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے کبھی دست راز چوہدری نثار کی دہائیوں بعد مسلم لیگ ن سے راہیں جدا ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو آئے پاش پاش ہو جائے گا۔ یہ دھمکی بھی دی گئی ہے۔ فائلیں ہوا میں لہرا کر کہا گیا کہ سب کے کرتوت اور کارنامے ان کے پاس ہیں۔ جو ضرورت پر سامنے آ سکتے ہیں۔ مقابلہ میں قمر الاسلام آئے تو چند گھنتوں میں اندر ہو گئے۔ نیب یا کوئی اور ادارہ برسوں تک کیوں سویا رہا کہ آج اس نے لوگوں کی نااہلی کے لئے حرکت شروع کی۔ صرف سیاسی فوائد اور نقصانات پہنچانے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے۔ جس سے بھی بات کرٰیں ۔ مزدور، طالب علم، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، تاجر، ڈرائیور سب یہی کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں اپ سیٹ ہو سکتا ہے۔ ایسے نتائج سامنے آئیں گے کہ سب حیران ہو کر کہیں گے کہ یہ کیا ہو گیا۔ کیسے ہوا۔ بہت سارے چہرے زرد اور بہت سارے چمک اٹھیں گے۔ منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جائیں تو اس ملک کے لئے بہتر ہو گا ۔ اگر کسی کی زاتی الفت یا نفرت میں یا کسی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں تو اس سے بڑا دھوکہ اور خیانت اور کیا ہو گی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ڈرامائی نا اہلی بھی دلچسپ ہے۔ یہ مرض کچھ اور دوا کچھ والا معاملہ لگتا ہے۔ ایسے میں عمران خان کو زیر عتاب لایا جانا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ وہ کامیابی کے دعا مانگنے اور ایک حلقہ اثر کو رام کرنے دربار پر سجدہ ریز ہوئے تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا۔ جب کہ سجدہ صرف اﷲ کے آگے ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ پابندی صرف مسلمان کے لئے ہے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والے خود پتھر کی مورتی بنا کر اس سے مدد مانگتے ہیں۔ چاند ستاروں کی عبادت کرتے ہیں۔ سانپ بندر کے آگے جھکتے ہیں۔ ویڈیو میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ درگاہ پر پہلے عمران ان کی اہلیہ نے سجدہ کیا۔ ان کی تقلید میں یا اظہار یک جہتی کے طور پر عمراں صاحب سجدہ میں گر پڑے۔ ان سے کسی نے کہا کہ آپ درباروں پر سجدے کریں تو بات بن سکتی ہے۔ کیا مردے بھی کسی کی بگڑی سنوار سکتے ہیں۔ ہمیں ہدایت کہ کسی کی قبر کو مزار نہ بناؤ۔ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ یہ ناقابل معافی گناہ ہے۔ سب معاف ہو گا ، شرک معاف نہ ہو گا۔ اگر اﷲ پاک چاہے تو سب کچھ معاف ہو گا۔ یہ تو ایک پیرنی اور اس کے سیاسی مرید کا معاملہ ہے۔ پیرنی جب اپنی اہلیہ ہو تو بات ہی کچھ اور ہے۔ آج خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری کون ادا کرتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے اپنے معاملے ہیں۔ بندہ کسی بندہ کی پوجا نہیں کر سکتا۔ پوجا کرنا جائز ہوتا تو والدین اور استاد کی پوجا کا حکم ہوتا۔ مگر والدہ کے آگے بھی سجدہ نہیں ہو سکتا۔ بابا فرید گنج شکر برگزیدہ ہستی تھیں۔ مگر وہ خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں۔ اﷲ کا بندہ نیک ہو یا بد، دونوں اﷲ کی مدد کے محتاج ہیں۔ اور یہ کون کہہ سکتا ہے کہ فلاں نیک ہے اور فلاں بد۔ کسی کے پاس اس کا کوئی پیمانہ نہیں۔ اگر کوئی نیک کام کرتا ہے، جھوٹ نہیں بولتا، خدمت خلق کرتا ہے۔ ظاہری طور پر ہر کام اچھا کرتا ہے۔ کسی کو دکھ نہیں دیتا۔ وہ ہمارے سامنے نیک ہے۔ مگر کیا معلوم یہ سب دکھاوا ہو، شہرت کے لئے ہو۔ اﷲ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ پھر بھی اس کی بندگی نہیں کی جا سکتی۔ عبادت انسان کا نجی معاملہ ہے۔ کسی کا عقیدہ یا نظریہ اس کی اپنی سوچ اور بلوغت پر انحصار کرتا ہے۔ آپ مسلمان ہیں تو جو قرآن اور سنت ہے ، اس پر چلیں گے۔ اگر کسی اور مذہب کے ماننے والے ہیں تو عبادت کرنے میں آزاد ہیں۔ اگر کوئی سجدہ ووٹ کے لئے ہو تو پھر بھی یہ نجی معاملہ ہے۔ سب لوگ عوام کے سامنے ہیں۔ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ہمارے ادارے پارٹی نہیں بنیں گے۔ ایسا تاثر بھی نہیں پھیلنا ضروری ہو گا۔ اگر ہے تو اسے زائل کیا جا سکتا ہے۔ قانو سب کے لئے برابر ہو۔ کسی کو سزا اور کسی کو چھوٹ والا معاملہ انوکھا ہو گا۔ اس سے نفرت اور عداوت، بیزاری جنم لیتی ہے۔ فوج اور عدلیہ انتہائی ذمہ دار ادارے ہیں۔ کسی ایک کے بغیر بھی ملک نہیں چل سکتا، سلامت نہیں رہ سکتا۔ یہ بذات خود ریاست کے ستون ہیں۔ ریاست کبھی شہری سے انتقام نہیں لیتی، اصلاح کرتی ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555866 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More