سن 2012ء میں کراچی سے ایف اے کا امتحان "غیر امتیازی"
نمبروں سے پاس کیا تھا،2013میں کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر گریجویشن کے
لیے رجسٹریشن نہیں کرواسکا اور2014میں جب کمبائنڈ امتحان کے لئے رجسٹریشن
کی درخواست دی تو جواب ملا کہ چونکہ آپ نے پچھلے سال رجسٹریشن نہیں کروائی
تھی اس لئے اس سال آپ صرف پارٹ ون کا امتحان دے سکتے ہیں،اس کا واضح مطلب
یہ تھا کہ میرا ایک مکمل سال ضائع ہورہا تھا جو کہ میرے لئے قابل قبول نہیں
تها،چنانچہ سوچوں کی وادی میں گمنامی کی کئی ساعتیں گزارنے کے بعد دماغ کے
کسی کونے میں امید کی ایک باریک کرن نمودار ہوئی،بھائی سے بات چیت کی تو
پتہ چلا کہ قراقرم یونیورسٹی گلگت سے گریجویشن کا کمبائنڈ امتحان دیا
جاسکتا ہے،یہ خبر میرے لئے باعثِ مسرت تھی،چنانچہ انٹر بورڈ کراچی سے
مائگریشن سرٹیفکیٹ لے کر اپنے دیگر سرٹیفکیٹس کے ساتھ گلگت روانہ کر
دیا،جہاں سے چند ہفتے بعد داخلہ کنفرم ہونے کی نوید سنائی گئی،مگر ان چکروں
میں 2014 کا سال اپنا سفر مکمل کرکے تاریخ کے اوراق میں گم ہوچکا تھا،یعنی
جس سال کو میں قیمتی بنانا چاہتا تها وہ سال ضائع ہوچکا تھا،خیر جب امتحان
کے دن قریب آئے تو اپنی دانست میں ایک عارضی سفر پر گلگت روانہ ہوا اور
ارادہ بس اتنا تھا کہ امتحانات سے فارغ ہوکر واپس کراچی جاگزین ہوں گا،مگر
مجھے نہیں معلوم تھا کہ ستاروں سے آگے اک جہاں اور بھی ہے...
گلگت پہچنتے ہی حالات بالکل ہی الٹ گئے،میرے نکاح شرعی کو دو سال گزرچکے
تهے،یعنی 2013میں میرا نکاح ہوا تھا،گلگت پہنچنے کے بعد سر منڈاتے ہی اولے
پڑ گئے،ابھی سفر کے آثار بھی ختم نہیں ہوئے تھےکہ میری شادی کا فیصلہ ہوا
،چند روز شادی کے موضوع پر گفتگو چلتی رہی اور اچانک ایک دن ایک سادہ تقریب
کے بعد چند خواتین ایک روتی ہوئی لڑکی سمیت میرے گھر وارد ہوئیں،بعد میں
پتہ چلا کہ میری شادی ہوئی ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ جس دن کا شدت سے
انتظار کرتے ہیں اس سے اگلے دن میرا انگریزی کا پیپر تھا....
گریجویشن اور شادی ایک ساتھ کا واضح مطلب یہی تھا ایک ساتھ دو امتحانات کا
بوجھ میرے ناتواں کندھوں پر آچکا تھا،دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں
تبدیل ہوتے گئے،شادی کے چند ماہ بعد احساس ہوا کہ میں تو بیروزگار
ہوں،اخراجات بھی دن بدن بڑھتے جارہے تھے،اپنی کل جمع پونجی کا جائزہ لیا تو
طبیعت مکدر ہوگئی،ان دنوں گھر میں ایک نئے مہمان کی آمد بھی متوقع
تھی،نوکری کے لئے ہرممکن کوشش کی مگر ہر طرف رشوت اور سفارش کا جن بے قابو
تھا،فوری طور پر روزگار کے متبادل ذرائع پر غور و حوض شروع ہوا،گلگت جیسے
محدود وسائل کے حامل شہر میں روزگار تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف
تھا،کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ کسی مدرسے میں تدریس شروع کی جائے
تاکہ روزگار کے ساتھ اپنے سلسلے کے ساتھ جڑنے کا بھی موقع ملے مگر.....
جاری ہے.. |