ہماری ایک پھوپھی ہے،قوت گویائی سے مکمل محروم ہے،
تقدیرانہیں کھینچ کر کوہستان کے پہاڑوں میں لے گئی اور اپنے شوہر کی خواہش
کے مطابق انہوں نے اپنی ساری زندگی وہاں گزار دی،حالانکہ دادا جان نے یہاں
گلگت میں انہیں اچھی خاصی جائیداد عطا کی تھی مگر سب کچھ چھوڑ کر وہ
کوہستان کے علاقے سو کوٹ میں جابسے،ان کے دو بیٹے تھے،بڑا بیٹا محنت مزدوری
کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتا ہے جب کہ چهوٹے بیٹے کو انہوں دینی تعلیم
کے لئے وقف کر رکھا تھا،چهوٹا بیٹا محمد امین ایک ٹانگ سے معذور تھا اور
لنگڑا کر چلتا تھا،قرآن مجید حفظ کرنے کے انہیں مزید تعلیم کے لئے ہری پور
بھیج دیا گیا،وہاں کچھ عرصہ زیرِ تعلیم رہنے کے بعد گھر والوں کی مرضی کے
خلاف کراچی کے سفر پر روانہ ہوا اور یہاں سے ایک ایسی کہانی نے جنم لیا جو
اس کے گھر والوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں...
2008ءمیں جب وہ کراچی آئے تو اس وقت میں بھی کراچی کے ایک مدرسے میں زیر
تعلیم تھا،اس نے میرا نمبر ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا اور ملاقات کے لیے
میرے پاس آیا،بات چیت سے معلوم ہوا کہ اس نے پڑھائی کو خیرباد کہہ کر لی
مارکیٹ کے قریب کسی اقراء اسکول میں تدریس شروع کی ہے،میں نے انہیں سمجھا
یا کہ دوبارہ داخلہ لے کر پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھیں،انہوں نے رمضان کے
بعد دوبارہ پڑھائی شروع کرنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا،مجھے کیا معلوم تھا
کہ ممکنہ طور پر یہ زندگی کی آخری ملاقات ثابت ہوگی...
اس ملاقات کے چند ہفتے بعد ایک رات تقریبا 10 بجے کے قریب میں شش ماہی
امتحان کی تیاری میں مصروف تھا کہ اچانک میرے موبائل پر پی ٹی سی ایل کا
ایک نمبر جگمگانے لگا،کال رسیو کرکے موبائل کان سے لگا یا تو ایک ڈری سہمی
اور شناسا آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی،بات کرنے والے کے انداز سے یوں
محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے پڑا ہے،وہ محمد امین
تھا،میں نے ہوچها کیا مسئلہ ہے تو اس کے آخری الفاظ یہ تھے:
"مجھے بچاؤ میرے پیچھے ایجنسی والے لگے ہیں اور میں اس وقت کلفٹن میں ہوں"
اور کال کٹ گئی...
تهوڑی دیر میں سکتے میں رہا اور یہ بات میرے لئے ناقابل یقین اور باعث حیرت
تھی کہ ایجنسی والوں کا ایک بے ضرر اور معذور شخص کے ساتھ کیا واسطہ،بہر
حال رات کافی بیت چکی تھی،اس وقت میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا،اگلے دن ان
سے رابطے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو میں نے فون پر اس کے بھائی کو
اطلاع دی اور اپنی بساط کے مطابق اسے ڈھونڈتا رہا،پھر اس کا بھائی بھی
کراچی آیا،ہم نے مل کر ہر جگہ ڈهونڈا مگر وہ نہیں ملا...
اس کی جدائی کے غم میں اس کا باپ چل بسا ہے اور حقیقت حال سے بے خبر اس کی
گونگی ماں آج دس سال بعد بھی اس انتظار میں ہے اور اشاروں میں لوگوں کو
بتاتی ہے میرا بیٹا عالم بن کر اور سر پر پگڑی پہن کر آنے والا ہے... کیوں
کہ اسے یہی بتایا گیا ہے...
خدا معلوم اس کے بیٹے کو کوئی راو انوار کهاگیا ہے یا پھر نہ جانے وہ کہاں
کس حال میں ہیں....... |