تجربہ اس بات پر شاہد ،تاریخ اس حقیت پر گواہ اور مشاہدہ
اس سچائی کا بین ثبوت ہے کہ جس پارٹی کا وقت زوال قریب ہوتا ہے اسے کے پی
کے میں حکومت مل جاتی ہے، تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں،آپ متحدہ مجلس عمل
اور اے این پی کی مثال لے سکتے ہیں،یہ دو پارٹیاں بالترتیب یکے بعد دیگرے
کے پی کے پر حکومت کرنے کے بعد اپنی شناخت کھو چکی ہیں،عجیب بات یہ ہے کہ
ساری دنیا پٹھانوں کو بیوقوف قرار دے کر ان پر لطیفے بناتی ہے،حالانکہ اگر
حقیقت کا چشمہ لگاکر دیکھا جائے تو اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ سب سے عقل
مند لوگ کے پی کے پٹھان ہیں،کیوں کہ باقی سارے صوبوں کے باسی ہمیشہ سے ایک
قبضہ گروپ کو ووٹ کے ذریعے اپنے اوپر مسلط کرتے آرہے ہیں،جبکہ پٹھان جس
پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، اگر وہ کارکردگی نہ دکھا سکے تو اسے نشان عبرت بھی
بنا دیتے ہیں،مثال اوپر گزر چکی ہے،اس مرتبہ2013ء کے انتخابات میں پٹھانوں
نے تحریک انصاف پر اعتماد کیا ہے،اب خان صاحب کا امتحان ہے کہ وہ پٹھانوں
کے اعتماد پر پورا اترتے ہیں یا پھر 2018ء کے انتخابات میں پٹھانوں کے
انتقام کے نتیجے میں تحریک انصاف ایک بار پھر میانوالی تک محدود ہوکر رہ
جاتی ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ میں ذاتی طور پر کچھ صفات کی وجہ سے عمران خان
کو کافی حد تک پسند کرتا ہوں، ان کے کچھ کام قابل تقید بھی ہیں، جن کی وجہ
سے کبھی کبھی یہ خواہش دل میں انگڑائی لیتی ہے کہ خان صاحب کو بھی حکمرانی
کا ایک موقع ملنا چاہیے،مگر خان صاحب کی جلد باز طبیعت،ان کے گرد نااہل
مشیروں کا جمگھٹا اور ان کے کارکنوں کی حرکات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ
اس پارٹی کے رہنمااور کارکن اجتماعی طور پر تحریک انصاف کو زندہ درگور کرنے
پر تلے ہوئے ہیں،تحریک انصاف کے سربراہ سے لے کر ادنیٰ کارکن تک ہر کوئی بے
وقوفی کا کدال لے کر اس پارٹی کی بنیادوں کو منہدم کرنے میں مصروف ہے۔سب سے
پہلے آپ عمران خان کو لیجیے،یہ صاحب اپنی ہر تقریر کا آغاز ''ایاک نعبد
وایاک نستعین'' سے کرتے ہیں،اس کے بعد تقریر کے اختتام تک اسلامی تعلیمات
اور انسانی اقدار کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں، بعض اوقات وہ زبانی طور پر
خلافت راشدہ کا نظام لانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر خلافت
راشدہ کے شاید نظام سے ہی ناواقف ہیں،کیونکہ کے پی کے کی ''پی کے حکومت''
کے ''اسلام کش'' اقدامات اور نصاب تعلیم سے اسلامی تعلیمات کے اخراج پر خان
صاحب خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں،اس کے علاوہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی
جانب سے احتجاجی دھرنوں اور جلسوں میں خواتین کارکنان کے ساتھ ہونے والے
نازیبا سلوک پر خان صاحب کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے،اس کے علاوہ
مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علمائے اسلام کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے خان
صاحب پر یہودی لابی کا جو لیبل ایک عرصے سے لگایا جارہا ہے،اسے اکثر لوگ
محض ایک الزام سمجھتے تھے،مگر لندن میں مئیر کے انتخابی مہم کے دوران خان
صاحب ایک مسلمان کے مقابلے میں ایک متعصب یہودی کو کھلے عام سپورٹ کرکے
مولانا فضل الرحمن کے الزام پر سچائی کا مہر ثبت کرنے میں مشغول ہیں،یہ
صورت حال یقینا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک سیاستدان کے لیے سیاسی طور
پر انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے،علاوہ ازیں خان صاحب کی مبارک زبان سے
سیاستدانوں کی شان میں جو الفاظ نکلتے ہیں، اس سے سنجیدہ طبقہ خان صاحب سے
ہی بدظن ہوجاتا ہے۔ کارکنوں پر نظر دوڑائی جائے تو تحریک انصاف کے سب سے
زیادہ کارکن سوشل میڈیا پر پائے جاتے ہیں،یہاں پر چند سنجیدہ کارکنوں کے
سوا باقی سب اپنی حرکتوں سے تحریک انصاف کو بدنام کرنے میں مشغول ہیں،فیس
بک پر موجود اکثر کارکنوں کا ایک ہی کام ہے،یہ دن رات مولانا فضل الرحمن کی
تصویریں فوٹوشاپ میں ڈال کر اس میں اپنے ذہنی گند کا تڑکا لگاکر اپنا اور
دوسروں کا قیمتی وقت ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بعض حضرات تو جمعیت
اور مولانا کے کندھے پر بندوق رکھ کر تمام علماء اور مدارس کو نشانہ بنانے
سے بھی دریغ نہیں کرتے،جس کی وجہ سے فیس بک پر موجود دینی ذہن رکھنے والے
لوگ بھی تحریک انصاف سے مایوس ہوچکے ہیں۔خان صاحب! آپ مولانا طارق جمیل
صاحب سے کے پی کے اسمبلی سے خطاب کروائیں یا انہیں اپنے گھر دعوت پر بلائیں،
اس سے آپ کبھی بھی دینی طبقے کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتے، اگر آپ چاہتے
ہیں دینی طبقات آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں تو سب سے پہلے آپ کو خود اپنے
انداز سیاست اور طرزِ تکلم پر توجہ دینی چاہیے، اس کے بعد اپنے کارکنوں کا
قبلہ درست کرنے کی بھی ضرورت ہے، ورنہ ہر گزرتے دن کے ساتھ دینی طبقہ آپ سے
مزید دور ہوتا جائے گا۔سوشل میڈیا سے باہر کی دنیا میں دیکھا جائے تو تحریک
انصاف کے کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ |