جہانگیر ترین بالاخر لندن چلے گئے۔پارٹی کے وائس چیئرمین
شاہ محمود قریشی سے آئے دن کی زبانی جھڑپ پارٹی کے لیے مسائل کھڑے کررہی
تھی۔بتایا گیا ہے کہ و ہ علاج کی خاطر ملک سے باہر گئے ہیں۔تحریک انصاف کے
وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی او ر عدالت سے نااہل ہونے والے جہانگیر ترین
کے مابین گذشتہ ہفتہ شروع ہونے والی لفظی جنگ ا ب ایک نئی صورت اختیار
کرگئی ہے۔جہانگیر ترین کو گلہ ہے کہ اعلی قیادت کی طرف سے مناسب دفاع نہیں
کیا جارہا۔وہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے باربار ناہل کا طعنہ دیے جانے سے
دلبرداشتہ تھے۔ان معاملات کا حل انہوں نے فی الحال یہ سوچا کہ عارضی طورپر
پارٹی سیاست سے کنارہ کشی کی جائے۔ان کالندن چلے جانا اسی فیصلے کی کڑی
ہے۔جہاں تک پارٹی کا تعلق ہے۔ان کی عدم موجودگی سے تحریک انصاف کو جنوبی
پنجاب میں بلا شبہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔جس کا سب زیادہ فائدہ مسلم
لیگ ن کو ہوگا۔
جو اصول اور ضوابط برسوں اور صدیوں کے تجربات سے وضع کیے گئے ہیں۔ان کی
اہمیت مسلم ہے۔یہ اصل میں ایک کسوٹی ہوتے ہیں۔جس پر ہم اپنے اپنے دور کے
معاملات کو تولتے ہیں۔ان کے درست یا غیردرست ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ان
اصولوں کے سبب سچ اور جھوٹ کی تشریح واضح ہوچکی۔اچھے اور برے کی تمیز
کافارمولہ آچکا۔صحیح اور غلط کی بات طے ہوچکی۔ان اصولوں اور ضوابط کو
اپنانے سے معاملات بہتری کی طرف جاتے ہیں۔آسانیاں نکلتی ہیں۔پاکستان جیسے
غریب اور کم تعلیم یافتہ ممالک میں قصدا ا ن اصولوں اور ضوابط کو نظر اندا
ز کیا جاتاہے۔جھوٹ کو سچ بنانے کی روش عام ہے۔فریب کاری اور دھوکے سے کام
لیا جاتاہے۔جمہوریت اگر کمزور ہے تو اس کا سبب بھی یہی اصولوں اور ضوابط سے
روگردانی ہے۔قاعدہ تو یہ ہے کہ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے مگر پراپیگنڈہ یہ
کروایا جاتاہے کہ سیاست دان برے ہیں۔اور فوجی جرنیل نیک روحیں۔بدقسمتی
دیکھیں کہ ایسا پراپیگنڈابھی سیاست دانوں کے ذریعے ہی کروایا جاتاہے۔سیاست
دان جب آمریت کا دفاع کریں گے۔غیر جمہوری قوتوں کی جنگ لڑنے لگیں گے تو پھر
جمہوریت کا یہی حال ہوگا جو نظر آہاہے۔
جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی ونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے
ہمہ وقت سرگرم دیکھے گئے۔ بنی گالہ میں ٹکٹو ں کی تقسیم کے معاملے پر جو
دھرنا ہوا تھا۔وہ بھی انہی دو بڑوں کی کارستانی تھی۔دونوں ایک دوسرے کے
پینل پر انگلیاں اٹھاکر اپنے اپنے پینل کوٹکٹس دلوانے کے چکر میں تھے۔خاں
صاحب کی طبیعت اس طرح کے جھنجٹ دیکھنے کی نہیں ہے۔وہ چاہتے تو یہی تھے کہ
دونوں کے پیش کردہ ناموں کو مسترد کرکے کسی تیسرے کا نام سامنے لے آئیں۔مگر
ان کی مجبوری کہ وہ چپ رہے۔اسی چپ کے سبب یہ ڈرامہ طول پکڑتا چلا گیا۔ایک
آدھ بارچیئرمین تحریک انصاف نے یہ ضرور کہا کہ پارٹی ٹکٹ میرٹ پر دیے گئے
ہیں۔کسی رشتے دارکو نہیں نوازا گیا۔مگر جو ں جوں قریشی اور ترین گروپ کی
محازا ٓرائی بڑھتی گئی عمران خان کے دعوے کا پھیکاپن توں توں بڑھتا چلا
گیا۔پوچھنے والے پوچھتے تھے کہ اگرٹکٹیں میرٹ پر دی جارہی ہیں تو کون ہے جو
ا س میرٹ کی راہ میں حائل ہورہاہے۔جو یہ ڈرامے کررہا ہے۔جو لوٹے لہرارہا
ہے۔ناانصافی نامنظور کے نعرے لگوارہاہے۔اگر ٹکٹس میرٹ پر ملے ہیں تو کیوں
شاہ محمود قریشی صاحب عدم اطمینا ن کے شکارہیں۔کیوں سکندر بوسن سمیت کچھ
ایسے لوگوں کی ٹکٹ روکی جارہی ہے۔جو دوسری جماعتوں سے آئے۔کیا بوسن صاحب
اکیلے ہی دوسری جماعت سے آئے ہیں۔کیا خود جہانگیر ترین ق لیگ سے نہیں
آئے۔کیا شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی سے نہیں آئے۔سچ پوچھیے تو پانچ پرسنٹ
کے علاوہ ساری تحریک انصاف مختلف جماعتوں سے بھجوائے لوگوں پر مشتمل ہے۔کسی
کو دھمکاکر بھیجا گیا۔کسی کو اقتدارکا لالچ دے کر کسی کو بڑ اپارٹی عہدہ
دینے کا وعدہ دیاگیا۔پردے پیچھے بیٹھے لوگوں نے رنگ رنگ کے لوگوں کو رنگا
رنگ طریقے سے ادھر اکٹھا کروایا گیا۔کچھ سادہ لوح لوگ تو اپنے تئیں جہاد کی
نیت سے بھی ادھر آئے۔شاطر دماغوں نے ان تک ایسا پراپیگنڈا پہنچایا کہ وہ
عمران خاں کو صلاح الدین ایوبی سمجھ کر ان کے لشکر میں شامل ہوگئے۔
جہانگیر ترین چلے گئے۔شاید وہ الیکشن تک باہر ہی رہیں۔اگر انہیں منگوابھی
لیا گیاتو وہ قدرے غیر فعال سے رہیں گے۔ان سے وہ بھاگ دوڑنہ ہوپائے گی۔جو
وہ قریشی صاحب سے توتکار ہونے کے بغیر کرپاتے۔خودپارٹی قیادت ان کے درد دور
کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جننی انویسٹ مینٹ جہانگیر ترین نے پارٹی پر کی
ہے۔اتنی کسی اور کے حصے نہیں آئی۔قریشی صاحب تو عشر عیشر بھی نہیں
کرپائے۔علیم خاں صاحب نے جہانگیر ترین کا اس معاملے میں مقابلہ کرنے کی بہت
کوشش کی مگر کوسوں پیچھے رہے۔جہانگیر ترین کومکھن میں سے بال کی طرح نکال
باہر کردیا گیاہے۔پچھلے کچھ مہینوں سے چہ مگوئیاں ہورہی تھی کہ کام نکال
لیا گیا۔اب تماشہ سمیٹنے کی ضروت ہے۔کہا جارہاتھاکہ عن قریب تحریک انصاف کا
وجود تورہے گامگر پارٹی قیادت میں بڑی تبدیلی آجائے گی۔میاں اظہر کی تاریخ
دہرائی جائے گی۔الیکشن میں انہیں آؤٹ کرواکے ان کی نمبرداری چوہدری برادرا
ن کو سونپ دی گئی۔تحریک انصاف اور ان کے بڑوں کا مقدر بھی یہی ہوگا۔آج
جہانگیر ترین گئے ہیں۔کل عمران خان بھی جا سکتے ہیں۔مانگی تانگی اور گھر
بیٹھے ملی اس طرح کی کھوکھلی جمہوریتوں کا انجام ہمیشہ اسی طرح کا ہوا ہے۔ |