گزشتہ روز تاریخ رقم ہو گئی۔ وہ انقلاب برپا ہو گیا جس
کا کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ پہلی دفعہ اس مُلک میں زور آور،
بالادست اور استحصالی طبقے کے کسی شخص کو سزا مِلی ہے۔ اس ساری صورتِ حال
پر سب سے زیادہ خوش شہباز شریف ہے۔ ہو بھی کیوں نہ اُس کی برسوں پُرانی
وزیر اعظم بننے کی خواہش میں صرف عمران خان حائل ہے۔ وزارتِ عظمی اور پارٹی
پر حکمرانی کی راہ میں حائل سب سے بڑا کانٹا نواز شریف اپنے بچوں سمیت نکل
گیا ہے۔
لوگ پہلے بھی حیران ہوتے رہے ہیں اور اب بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ دو
تہائی اکثریت کی دعوے دار سابقہ حکمران پارٹی کے چند سو کارکن بھی سڑکوں پر
نہ نکلے۔ کروڑوں ووٹ دینے والے عوام کدھر گئے؟ یہاں تک کہ ماضی میں یہ
کرائے پر بندے لا کر اُن سے دو چار ٹائر جلوا لیتے تھے۔ مگر اب کی بار تو
لوگ پیسے لے کر بھی ڈراما کرنے کو تیار نہ تھے۔ باقی رہی سہی کسر شہباز
شریف نے احتجاج سے روک کر لی۔ احتجاج سے روکنا تو ایک بہانہ تھا اصل میں تو
اپنی نام نہاد مقبولیت اور ذلت و رُسوائی کی قلعی کھلنے سے بچا لیا ہے۔
کیونکہ پُورے پاکستان میں دو ڈھائی سو سے زیادہ لوگ انہیں احتجاج کے لیے
نہیں مِلنے تھے۔
آج تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے زیادہ خوش ان کا وہ کارکن ہے جسے انہوں
نے زندگی بھر راہ کے کوڑا کرکٹ سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ان کے مخلص وہ
کارکن تھے جو عشروں تک ان کے لیے ماریں کھاتے رہے۔ مشرف اور پیپلز پارٹی کے
اداوار میں جیلوں کی سختیاں سہیں۔
مارشل لاء دور ان کے کارکنوں کو جیلوں میں اُلٹا لٹکا کر مارا گیا، اُنہیں
قید وبند کی صعوبتیں دی گئیں۔ کئی کارکنوں نے اپنے گھروں کا سامان اور
بیویوں کے زیورات بیچ کر ان کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ اور یہ مزے سے
جدہ میں بیٹھے جدہ سٹیل مل کی کمائی اور کرپشن سے لوٹے ہوئے پیسے پر دادِ
عیش دیتے رہے۔مظلوم کارکن راتوں کی نیندیں اور دِن کے وقت روزگار کی
مصروفیت قربان کر کے ان کے اقتدار میں لانے کے لیے سیاسی تحریکیں اور مہم
چلاتے رہے۔بدلے میں انہیں صرف دلاسے اور دھکّے ہی مِلے۔
شریف برادران جب بھی اقتدار میں آئے تو انہوں نے سوائے دو چار موقع پرستوں
اور خوشامدی قسم کے دو نمبر کارکنوں اور لیڈروں کے سب کارکنوں پر اپنے
ایوان کے دروازے بند کر لیا۔صرف وہ کارکن انہی کے منظورِ نظر ٹھہرے، جو دِن
رات ان کی جوتیاں چاٹتے رہے، انہیں کائنات بھر میں سب سے عقل مند اور صاحبِ
بصیرت قرار دیتے دیتے نہیں تھکتے تھے۔ ان چُوری کھانے والے نام نہاد کارکن
نے ان سے فائدے لیے اور پھر ان کے مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ گئے۔ دانیال
عزیز‘ طلال چودھری اور ان جیسے دُوسرے مشرفی ٹولے کے دوسرے افراد کی زبانیں
کل گُنگ ہو گئی تھیں۔ کیونکہ انہیں پتا چل گیا تھا کہ ان کے موجودہ آقا کی
سیاسی گیم اوور ہو چکی ہے۔ یہ اب کسی نئے سیاسی آستانے کے ہاتھ پر بیعت
کرنے کو بے چین ہیں۔ ایسے وقت میں نواز شریف نظر دوڑا رہا ہے کہ شاید ہی
کوئی اُس کا مخلص کارکن اور لیڈر نظر آ جائے جو اس کی سیاسی ایمپائر کو بچا
لے۔
مسلم لیگ کے کارکنوں کو انہوں نے صرف استعمال کر کے پھینکنے والی چیز
سمجھا۔ سینکڑوں کارکن ان کے دورِ اقتدار میں کسمپرسی کے عالم میں مر گئے۔
انہوں نے کبھی اُسے دس روپیے کی امداد کے قابل بھی نہ سمجھا۔ بلکہ اب تو ان
کا تکبر اتنا بڑھ گیا تھا کہ کچھ سالوں سے پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی
ایز بھی گزشتہ پانچ پانچ سال سے جماعت کے سربراہ نواز شریف کے شرفِ باریابی
سے محروم تھے۔
نخوت اور تکبر کے بھرے ان کے سر آج بھی شرمسار نہیں ہیں۔ یہ اپنے عیش کدوں
کی دہلیزوں سے دھُتکارے ہوئے غریب کارکنوں سے توقع کرتے ہیں کہ ان کے لیے
ایک بار پھر اپنے سر پھٹوائیں، جیلوں کی سختیاں اور عدالتوں کی پیشیاں
بھگُتیں، اپنے روزگار کے وسیلوں سے محروم ہو کر بیوی بچوں سے بھیک منگوانے
پر مجبور ہو جائیں۔ وقت بدل چُکا ہے۔ آج کے شعور و آگہی کے دور میں کوئی
شخص اپنے لیڈر کے کرپٹ اور عوامی دولت لُوٹنے والا قرار پانے اُس کی حمایت
میں نہیں اُتر سکتا۔آج ان کا دھُتکارا ہوا مظلوم کارکن شکرانے کے نفل ادا
کر رہا ہے۔ کیونکہ شریفوں نے اپنے کارکن کو عبرت کا نشانہ بنایا تھا اور آج
یہ خود اپنی تمام تر دولت‘ طاقت اور عالمی اثر و رسوخ کے باوجود بے بسی اور
عبرت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
نواز شریف کو لندن فلیٹس کی ملکیت بتانے میں شرم بھی مانع تھی کیونکہ یہ
فلیٹس تو ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سابق لبنانی وزیر اعظم سعد حریری نے
تحفے میں دِیئے تھے۔جو کچھ ظاہر آیا ہے، وہ ان کی ظاہر شُدہ ملکیت کا دس
فیصد بھی نہیں ہے۔ اگر ان کے کھربوں مالیت کے تمام تر اثاثے ظاہر ہو جاتے
تو شاید معزز جج صاحب بھی صدمے اور حیرت سے غش کھا کر گر پڑتے۔
جو لوگ نواز شریف کو قریب سے جانتے ہیں کہ یہ شخص گیدڑ سے بھی زیادہ ڈرپوک
ہے۔ یہ پاکستان نہیں آئے گا۔ویسے اب انہیں خود ہی شرم کھا کر کلثوم نواز
والے معاملے کا ڈراپ سین کر دینا چاہیے۔ مگر یہ نہیں کریں گے کیونکہ وینٹی
لیٹر کے معاملے کو چلائے رکھنا ہی اس وقت ان کے مفاد میں ہے۔ اس کی للکاروں
پر نہ جائیں‘ اگر یہ اتنا ہی مضبوط اعصاب کا مالک ہوتا تو ایک سال میں ہی
جیل کی سختیوں سے تنگ آکر جدہ نہ بھاگ جاتا۔ جبکہ شہباز شریف چاہتا ہے کہ
نواز شریف آ کر گرفتاری دے دے۔ کیونکہ اسی صورت میں انہیں ہمدردی کا تھوڑا
بہت ووٹ مِل سکتا ہے اور شہباز شریف کے پاس کم از کم پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ
آ سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر شریفوں کی سیاست کا مکمل جنازہ نکل جائے گا۔ نواز
شریف کی بھارت کی حمایت اور اُس کی درپردہ مدد بھی اُس کے زوال کا اہم سبب
ہے۔ ابھی تو دہشت گردوں کی معاونت حاصل کرنے کے معاملات بھی سامنے آنے ہیں۔
اپنے مفاد کی خاطر انہوں نے مذہب کے ساتھ جو کھلواڑ کرنے کی کوشش کی‘ اُس
نے بھی انہیں اﷲ اور عوام کی عدالت میں ذلیل و رُسوا کیا۔ ان کو جو سزائیں
مِلی ہیں وہ تو ٹوکن ہی سمجھیں۔ ابھی تو ان کے ساتھ رعایت ہوئی ہے۔ انہیں
اصل مار ڈان لیکس کے معاملے پر پڑی ہے۔جن لوگوں نے سیاست کے کھیل میں
کھلونے تراشے ہوتے ہیں‘ وہ انہیں موقع پڑنے پر توڑنا بھی جانتے ہیں۔
اگر انہوں نے اقتدار کی بھٹّی دہکانے کے لیے کارکنوں کو بطور ایندھن نہ
استعمال کیا ہوتا۔ تو آج ان کے ساتھ یہ کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔ مُلک کا چپّہ
چپہ احتجاج کی لپیٹ میں آ گیا ہوتا۔ ان کے دو نمبر سیاسی ورکر اور لیڈر تو
کینٹینوں‘ سڑکوں اور دوسرے تعمیراتی ٹھیکے لے کر اپنے کاروبار میں مست ہو
گئے ہیں۔ شریفوں کو پھانسی بھی لگ جائے تو ان کی بلا سے۔ یہ فوراً چھلانگ
لگا کر اگلی حکومتوں میں گھُس جائیں گے۔ جبکہ ان کے نظریاتی کارکنوں میں سے
کچھ نے تو خود کُشی کر لی ہے۔ کچھ ان کے استحصال سے واقف ہو کر سیاسی میدان
سے کنارہ کش ہو گئے۔ کچھ کسمپرسی میں مر کھپ گئے۔ کچھ کو انہوں نے خود عبرت
کا نشان بنا دیا۔جو بچے کھُچے ہیں وہ خوش تو ہیں مگر اُن کا بس چلے تو اپنے
ہاتھوں ان کی جان لے لیں۔ بلاشبہ ان کے تکبرو غرور اور سیاسی مفاد پرستی کا
یقینا یہی منطقی انجام دکھائی دے رہا ہے۔ |