ایک دن قیام کے بعد اور صبع ناشتے سے فارغ ھو کر انصار
اور علی احمد بھائی کے ساتھ انکی دو جیپ لے کر دیو سائی میدان کی طرف سفر
کا آغاز کیا .یاد رہے کہ انصار اور علی احمد دونوں بھائی ہیں اپنا انکا
استور عید گاہ بازار میں ہوٹل بھی ھے.انکا آپس میں ادب و احترام اس قدر کہ
گاڑی چلاتے ھوۓ بھی انصار نے اپنے بڑے بھائی سے اپنی جیپ کو آگے لے جانا,
ہارن بجانا, کراس کرنا بھی گوارہ نہیں کیا اور علاقہ میں مہمان نوازی کا یہ
عالم راستے میں کوئی راستے کی حالت پوچھے, موسم کا پوچھے, کسی کی گاڑی خراب
ھو تو ہم نے خود دیکھا کہ رکنا اور انکی مدد کرنا اور پھر آگے بڑھنا انکا
مشغلہ تھا.
انصار کی گاڑی میں مجھ سمیت چھ لوگ اور علی احمد کی گاڑی میں عامر بھائی کے
ساتھ سات لوگ شامل تھے میں عمران بھائی سے اجازت لے کر انصار بھائی سے
علاقے کے بارے میں سوال ؤ جواب کرنے شروع کیے.
مثلا,,,استور کا قیام, علاقہ کی رسم ؤ رواج,,, لوگوں کی ذریعہ معاش,, وغیرہ
کے بارے میں قربان جاؤ انصار بھائی میری بھوک کو سمجھ گیا اور پھر ایک
کہانی اسکی زبانی اس کے علاقے کی شروع ھوئی..
وادی استور پاکستان کے ضلع استور ،گلگت بلتستان میں واقع ایک وادی ہے۔
صوبائی دار الحکومت گلگت سے یہ وادی تقریباََ 60 کیلومیٹر دور ہے۔ اس وادی
میں 100 سے زیادہ گاؤں ہیں جن کی آبادی 1998ء میں 71,666 تھی۔
دریائے استور (Astore River) دریائے سندھ کا ایک معاون دریا ہے جو وادی
استور،گلگت بلتستان میں سے بہتا ہے۔ دریا درہ برزل کی مغربی ڈھلان سے شروع
ہوتا ہے۔(1)
دریائے استور دریائے گلگت کو متناسقات کے مقام پر ملتا ہے.[2]
گلگت بلتستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ فطری حسن سے نوازا ہے گلگت ،نلتر
،کریم آباد ،شندور ،پھنڈر،گلمت ،شگر ،سکردو ،خپلو،کھرمنگ ،نیاٹ،بٹوگاہ آپ
نام لیتے لیتے تھک جائیں گے لیکن قدرت کی ان حسین وادیوں کا سحر آپ کو
جکڑتا ہی رہے گا ۔کہیں راکا پوشی کی حکومت قائم ہے تو کہیں کے ٹو اپنی
حکمرانی کا اعلان کرتا ہے کہیں مشابروم ایک سیاح کی تمام جمالیاتی حسیات
بیدار کرتی ہے تو کہیں ہراموش کی بلندیاں دل میں بے تابیوں کو جنم دیتی ہیں
۔ایسے ہی ایک حسین خطے کا نام’’ استور‘‘ہے جو حسن ،جمالیات ،قدرتی رنگینیوں
کے تمام مفاہیم پر پورا اترتا ہے ۔
داس کھریم بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے۔گدئی سے چلم تک ہزاروں زوئے زمو اور یاک
وغیرہ دیکھنے کو ملیں گے۔دریا کے دونوں جانب چھوٹی چھوٹی ویلیاں ہیں اور
جنگلات بھی۔ ہم نےروڈ کنارےٹنوں کے حساب سے کٹی ہوئی گھاس دیکھا۔ آلو اور
گندم کی فصل پک کرتیار تھی۔خواتین بڑی تعداد میں کھیتوں میں کام کرتی
دکھائی دے رہی تھی
استور سے دیوسائی جاتے ہوئے گوریکوٹ،پکورہ، گدائی، آئیگا اور داس کھریم کی
وادیوں سے گزرکر جانا ہوگا، گدئی اور آئیگا بھی پکنک پوائنٹ ہیں.
پھر جھیل کی جانب چل دیے۔جھیل کے دائیں بائیں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی
ہے۔میں جھیل کے شفاف پانیوں میں اتر گیا۔ میرا خیال تھا کہ جھیل کا پانی
بہت یخ ہوگا لیکن پانی نارمل تھا۔ دور سے جھیل کا نظارہ کیا جائے تویہ جھیل
ایک وسیع وعریض سبزے کے درمیان پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب دکھائی دے
گا۔جھیل کا پانی انتہائی صاف و شفاف اور میٹھا ہے۔دور دور تک پتھر نظرآرہے
تھے۔ پانی ساکن نما حرکی منظر پیش کررہا تھا۔جھیل کا پانی جب کناروں سے
ٹکڑاتا ہے تو ایک رومانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور جل ترنگ جیسی آواز آتی
ہے۔جھیل میں سنوکارپ اور ٹروٹ مچھلیاں پائی جاتیں ہیں۔ جان موک نےانہیں’’
برفانی ٹروٹ‘‘ کا نام دیا ہے
اکثر و بیشتر تصادم ہوا کرتے تھے بعد میں یہ خطہ مغلوں،افغانوں ،ڈوگروں کے
زیر تسلط رہا مگر 1947 میں یہاں کے جانبازوں نے ڈوگرا تسلط کے خلاف علم
بغاوت بلند کیا ’’ مرزا حسن خان‘‘ جو اس تحریک آزادی کے روح رواں رہے ان کا
تعلق بھی استور سے ہے ۔مجاہدین نے سکستھ کشمیر انفنٹری کا راستہ روکا اور
نومبر کے یخ بستہ موسم میں استور کے راستے مادر وطن کا تحفظ کیا یوں استور
پاکستان کا حصہ بن گیا اس معرکے کی تفصیل ہمیں مرزا حسن کی کتاب’’ کشمیر
زنجیر سے شمشیر تک ‘‘میں مل جاتی ہے ۔استور وادی صدیوں سے سری نگر اور چین
کے درمیان تجارت کا ایک قدیم روٹ بھی رہی ہے ۔
استور 2004 سے پہلے دیامر ضلع کا ہی حصہ تھا جس کو بعد ازاں ایک الگ ضلع کی
حیثیت دی گئی اس کا صدر مقام گوریکوٹ کوبنایا گیا ۔
2011 میں ہم سکردو کی جانب گامزن تھے کہ راستے میں ایک استوری ڈرائیور سے
ملاقات ہوئی جس نے بجا طور پر شکوہ کیا کہ’’ آ پ سکردو کیوں جاتا ہے ہمارا
استور میں میں آؤ ایسا ایسا جگہیں ہے کہ مزا آ جائیگا‘‘۔یہ تھا استور سے
ہمارا پہلا تعارف ۔
ضلع استور کا قیام 2004ءمیں لایا گیا ہے۔اس کا رقبہ تقریباً 5092 مربع
کلومیٹر ہے۔ اور 2017 ءکی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً 90000
ہے۔
ضلع استور کے بالائی حصوں میں دنیا کے سب سے وسیع ترین میادین ہیں۔ بڑے بڑے
سبزے ہیں۔گلگت بلتستان کے تین مشہور درے استور میں ہیں۔’’درہ بُرزل‘‘ وادی
گریز کے پاس ہے۔ یہ دررہ تقریباً 9195 بلندی پر واقع ہے۔
اسی طرح پھلوائی درہ ہے جو استور اور کشمیر کے اتصال میں ہے۔اس کی بلندی
تقریباً 4000 ہے۔ جبکہ درہ قمری شونٹر ٹاپ میں ہے جس کی بلندی تقریباً 3396
ہے۔برزل ٹاپ اور شونٹر ٹاپ دنیا کے بلندترین ٹاپوں میں شامل ہیں جہاں سے
دوسری علاقوں تک رسائی ہوتی ہے۔ ضلع استور میں چنگچر کے نام سے ایک بڑا
گلشیئر بھی ہےاس کے علاوہ روپل میں دو گلشیئر ہیں۔
ہر طرف سبزے کا راج تھا اور لینڈ سکیپ قدرے وسیع تھا ،آپ کے ساتھ رٹو نالہ
بہتا رہتا ہے جو آگے جا کر اپنا وجود دریائے استور میں غرق کردیتا ہے ۔
راستے میں زینہ بہ زینہ آلو کے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور آپ کی
نانگا پربت سے ملاقات ہوتی ہے ۔
انصار نے بتایا کہ یہ شینا زبان بولنے والے ہمارے اپنے لوگ ہیں ان کو بھی
ترقی کے دھارے میں لائیں حکومت سہولیات فراہم کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ چلاس
سے گلگت جاتے ہوئے دائیں طرف ’’باب استور‘‘ دیکھنے والوں کو اپنی جانب نہ
کھینچ پائے۔ استور ایک گزر گاہ نہیں بلکہ ایک منزل ہے یہاں آئے بغیر آپ
شمال کو نہیں جان سکتے گلگت بلتستان کو نہیں جان سکتے.
مجھے خاص طور پر یاک اور زوئے دیکھنے اور ان کی نسل کو سمجھنے کا موقع ملا۔
یاک زوئے وغیر کے حوالے سے جب میں نے لوگوں سے مکمل آگاہی حاصل کرنے کی
کوشش کی تو خود بھی حیرت میں مبتلا ہوا۔
یاک گلگت بلتستان کا ایک نایاب پالتو جانور ہے۔ یاک انتہائی یخ علاقوں میں
پایا جاتا ہے۔ یاک برف اور برفیلے علاقوں کا پالتو جانور ہے۔ مہادرجے کی
گرمائش رکھتا ہے۔ یاک کے اختلاط سے نسل تبدیل ہوتی ہے۔یاک یکمو وغیرہ استور
اور بلتستان کے بالائی علاقوں میں پایا جاتا ہے، غذر کے بالائی علاقوں میں
بھی یاک کی وافرتعداد موجود ہے۔استور میں پورا گاوں مل کر اس کی پروش کرتا
ہے۔ کھیتوں میں اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی۔بالخصوص چورت میں تو یاک
کو علاقے کا مجسٹریٹ کہا جاتا ہے کہ جس کی کھیتی میں جاکر چرے ، کوئی
پابندی نہیں نہ ہی اس کو کھیت سے نکالا جاتا ہے۔ اگر کسی نے کھیت سے نکال
کر بھگانے کی کوشش کی تو دوبارہ وہی پہنچ کر پوری کھیت تباہ کرتا ہے۔ چرتا
نہیں البتہ اس کھیت میں گھومتے گھامتے برباد کردیتا ہے۔ کچھ بزرگوں نے یہاں
تک کہہ دیا کہ یاک انسانوں کی باتیں سنتا بھی ہے۔ اگر اس کو درخواست کریں
کوئی کہ میں غریب آدمی کی فصل برباد نہ کرو تو وہ پھر دوبارہ اس فصل کے
قریب نہیں جاتا ۔ واللہ اعلم
یاک سے جانوروں کی جو نسل میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ آئیے ہم اس کو
بالترتیب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱۔ یاک کا اختلاط، گائے سے ہو تو زوئی (نر) اور زومو(مادہ) پیدا ہوتا ہے۔
۲۔ یاک کا اختلاط، زومو سے ہوجائے تو گَر(نر) اور گَرمو(مادہ) پیدا ہوتا
ہے۔
۳۔ یاک کا اختلاط گَرمو سے ہوجائے تو برنگ(نر) اور برنگمو(مادہ) پیدا ہوتا
ہے۔
۴۔ یاک کا اختلاف برنگمو سے ہوجائے تو یاک(نر) اور یکمو(پیدا) ہوتا ہے۔
۵۔ بیل کا اختلاط زومو، گرمو یا برنگمو سے ہوجائے تول(نر) تولمو(مادہ) پیدا
ہوتا ہے۔
۶۔ یاک کا اختلاط تولمو سے ہوجائے تو زوئی زومو پیدا ہوتا ہے۔
۷۔ بیل کا اختلاط تولمو سے ہوجائے تو دوبارہ بچھڑا پیدا ہوتا ہے۔
مقامی عمررسیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ یاک کا اختلاط یکمو سے ہونے کا امکان
بہت کم ہے کیوں کہ یکمو پیدائش کے چند ماہ بعد از خود مرجاتی ہے
دیوسائی نیشنل پارک کی سیاحت عامر شہزاد صاحب کا ایک خواب تھا,ایک خواہش
تھی۔ میرے اللہ کا احسان کہ اس خواہش کی تکمیل 21 جون 2018 کو ہوئی جس میں
اللہ کی رحمت و توفیق سے ہم سب دوست جن میں عمران احسن صاحب, سجاد عالم
صاحب, عتیق الرحمن صاحب, عامر صاحب, عید گل خان صاحب, سعید صاحب,اور چند
نیو ساتھی جن میں سردار خاں صاحب اور چند نیساتھی جن میں وسیم علی صاحب
,محمد فہد صاحب ,مرزا اعجاز صاحب, وغیرہ شامل سفر تھے انکے ساتھ استور سے
دیوسائی کے آخری حدود تک جانا ھوا۔انتہائی بلندی پر پھیلا یہ وسیع علاقہ
اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے تھا۔ہم راستے میں ہر خوبصورت
پوائنٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔
قدرت خداوندی کی صناعیوں سے محظوظ ہوتے ہوئے ورطہ حیرت میں مبتلا تھے کہ
خدا نے کس خوبصورتی کے ساتھ یہ حسین مناظر تخلیق کیے ہیں۔یہ تحریران احباب
کے لیے خاص طور پر لکھ رہا ہوں جو ملک کے دیگر علاقوں میں رہتےہیں اور
دیوسائی اور استور کی وادیوں سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں
استور کا اصل حسن گوریکوٹ سے آگے شروع ہوتا ہے۔ گوریکوٹ سے دو راستے ہیں
ایک رٹو،شونٹر، روپل بیس کیمپ ، درلئی جھیل اور کالا پانی سے ہوتے ہوئے
قمری وغیرہ تک جاتا ہے ۔ جبکہ دوسرا راستہ گدئی اور چلم تک جاتا ہے۔ چلم سے
ایک راستہ برزل ٹاپ تک جاتا ہے جبکہ دوسر راستہ شیوسر جھیل سے ہوتے ہوئے
صدپارہ جھیل اسکردو تک جاتا ہے۔ چلم سے لے کر بڑا پانی تک کا یہ پورا علاقہ
’’دیوسائی نیشنل پارک ‘‘ کہلاتا ہے۔
دیو سائی کا حسن باقی ھے ابھی....... جاری ھے
|