کرکٹ کی طرح سیاست میں بھی قوم جذباتی ہی ثابت ہوئی۔ جیسے
کہ کرکٹ میں ہندوستان کے ساتھ مقابلے میں قوم صرف اچھا کھیل دیکھنے کی حد
تک خود کو محدود نہیں کر لیتی بلکہ مقابلے میں فتح یا شکست کو مدنظر رکھ کر
پورے قومی جذبے سے سرشار ہو کر میچ سے لطف و اندوز ہوتی ہے اب بالکل اسی
انداز میں قوم سیاست کے میدان میں بھی اپنے فرط جذبات کے بہاو میں باولی ہو
چکی ہے۔ کرکٹ کی دنیا کا کپتان کرکٹ کی طرح جب سے سیاست کے میدان میں بھی
اپنے عروج کی بلندیوں کو چھو رہا ہے تب سے سیاست کا اکھاڑہ بھی جیسے کرکٹ
کا میدان بن چکا ہے۔ انتخابات 2018 میں کپتان اور نواز شریف کے اس سیاسی
دنگل میں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین ہونے والا
کرکٹ کا کوئی میچ ہے۔ جس میں کپتان پاکستان کرکٹ ٹیم اور نواز شریف
ہندوستان کرکٹ ٹیم ہے۔ تو اب آپ خود موجودہ سیاسی صورتحال کو پاکستان اور
ہندوستان کے مابین کرکٹ میچ کے تصور کو ذہن میں رکھ کر بخوبی اندازہ لگا
سکتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں قوم کس کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ کپتان جانتا
ہے کہ سیاسی میدان میں اس کا پہلا اور آخری حریف نواز شریف ہی ہے۔ اگرچہ
نواز شریف کی موجودہ سیاسی ابتری کا کریڈٹ کپتان کو کسی بھی صورت نہیں جاتا
مگر یہ ماننا پڑے گا کہ کپتان نے اپنی تمام توانائیاں نواز شریف کی مخالفت
میں ہی صرف کیں۔ کپتان نے نواز شریف کی مخالفت میں جسطرح کا جارحانہ انداز
اپنایا اس کا یہ نتیجہ ضرور نکلا ہے کہ کپتان اور نواز شریف کے درمیان
سیاسی اکھاڑہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین کرکٹ میچ کی شکل اختیار کر کے
قوم کے اعصاب پر سوار ہو چکا ہے۔
قوم کے بارے میں دنیا کی تعریف کے مطابق تو شائد ہم قوم کہلانے کے معیار پر
پورے نہیں اترتے کیونکہ بحثیت من الحیث القوم کی اگر بات کی جائے تو بابائے
قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اکٹھا ہو کر پاکستان حاصل کرنے
کی جدوجہد اور دو قومی نظریئے کے علاوہ بدقسمتی سے پاکستان بنانے کے بعد کے
معاملات میں ہم اپنے طرز عمل سے ایک قوم کی بجائے بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ
ہی ثابت ہوئے ہیں کہ جس کا جی چاہا ادھر ہانک لیا گیا۔ کبھی بھٹو کو پوجنے
کی حد تک چلے گئے تو کبھی ضیاء دور میں مذہب، تفرقہ بازی اور انتہا پسندی
کی چکی میں پیس کر استعمال ہوتے رہے۔ پھر نواز شریف کو آمریت کی نرسری سے
سیاست کے میدان میں اتار کر قوم کو ریوڑ کی طرح ہانک کر قدم بڑھاو نواز
شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کے پیچھے لگا دیا گیا۔ اور اب قوم کپتان کی باولی
محبت میں فرط جذبات میں ایسے بہے جا رہی کہ جیسے کپتان ہی امیدوں کا آخری
سہارا ہو۔ ایک طرف کپتان بنے گا وزیر اعظم کے نعرے کے ساتھ قوم ٹرک کی بتی
کے پیچھے لگی ہوئی تو دوسری طرف جیپ میں بیٹھے سوار بھی منزل کی جانب گامزن
ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی پاکستان و ہندوستان کرکٹ میچ اور کپتان و نواز شریف کے
سیاسی میچ پر قوم کے جذباتی پن کی۔ ہندوستان کے ساتھ کرکٹ میچ تو خیر ایک
عرصہ ہوا دیکھنے کو نہیں ملا مگر ابھی تازہ تازہ ایک عدالتی فیصلہ قوم نے
ٹی وی کی اسکرینوں کے سامنے فکس ہو کر انتہا ہو گئی انتظار کی کیفیت میں
سنا۔ 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج جسٹس بشیر نے ساڑھے بارہ بجے سے لیکر
تقریبا 5 بجے تک قوم کو انتظار اور بے چینی کی سولی پر لٹکانے کے بعد ایک
متوقع فیصلہ سنایا۔ جسٹس بشیر جب تک فیصلہ سنا نہیں چکے قوم شدید اعصابی
دباو کا شکار رہی۔ ویسے جس طرح سے معزز جج صاحب نے اس فیصلے کو ساڑھے بارہ
بجے سے 5 بجے تک لے جانے میں طول کھینچا اس سے تو خود اب معزز مذکورہ جج
صاحب کے آئین کی شق 62 اور 63 کے تناظر میں صادق و امین رہنے پر سوال
اٹھایا جا سکتا ہے۔
احتساب عدالت کی طرف سے 6 جولائی کو اپنے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا
فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز نے لندن میں بیٹھ کر انہی فلیٹس میں بیٹھ کر
سنا جن کو فیصلے میں ضبط کرنے کا حکم سنایا گیا۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ
ن کی حمایت میں ملک بھر سے کہیں بھی کسی قسم کا عوامی احتجاج دیکھنے میں
سامنے نہیں آیا۔ فیصلہ سننے کے لیئے مسلم لیگ کا کوئی رہنما تو اپنی جگہہ
خود مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر شہباز شریف بھی ماڈل ٹاون اپنے گھر میں مقیم
رہے اور شام کو ایک ہلکی پھلکی سی پریس کانفرنس میں اس فیصلے کو قابل مذمت
کہہ کر اپنا فرض ادا کر دیا۔ شہباز شریف مفاہمت اور بچ بچاو کی پالیسی پر
عمل پیرا ہو کر بڑے بھائی کا کھل کر ساتھ دینے سے بھی کترا رہے اور یہ بھی
جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن مائنس نواز شریف سے عوامی تائید حاصل نہیں کر
سکتی۔ تبھی تو شہباز شریف اس وقت نواز شریف پر آنے والی شام سے اپنے لیئے
کسی نوید صبح تلاش کرنے میں لگے ہوئے۔ نواز شریف اور مریم نواز دونوں باپ
بیٹی لندن کے فلیٹس میں بیٹھ کر بے بسی کی تصویر بنے اپنے خلاف سزاوں
جرمانوں اور انہی فلیٹس کی ضبطگی کا عدالتی فیصلہ سن کر اپنے بھلے وقتوں کو
یاد کر رہے تھے کہ کہاں وقت کے بادشاہ تھے اور کہاں اب دیار غیر میں بیٹھ
کر مجرم ٹھہرے۔ 2013 کے انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ وزارت عظمی کا
منصب سنبھالتے کے بعد ڈکٹیٹر مشرف سے حساب چکتا کرنے اور سویلین بالادستی
کے لیئے ڈٹ جانے کے ساتھ ساتھ، ہندوستان، افغانستان، چین اور امریکہ کے
لیئے ایک بااختیار وزیراعظم کی طرح کی خارجہ پالیسی اپنانے کی خواہش میں
وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ کر اس حقیقت سے آنکھیں کیوں چرا لی
تھیں کہ شریف خاندان کے لیئے اکٹھی کی گئی دولت کا راستہ کرپشن سے جاکر
ملتا ہے۔ نواز شریف کے لیئے یہ لمحے کس قدر اذیت ناک ہو رہے تھے جب وہ یہ
سوچ رہے تھے کہ انہوں نے 25 جولائی سے پہلے پہلے وطن واپسی کا فیصلہ لینا
ہے یا فیصلہ موخر کرنا ہے کیونکہ ان کے سامنے ایک طرف انکی رفیق حیات
وینٹیلیٹر پر پڑی زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑ رہی اور دوسری طرف اگر 25
جولائی سے پہلے وطن واپسی کا فیصلہ موخر کرتے ہیں تو انکی جماعت مسلم لیگ ن
ہمیشہ کے لیئے وینٹیلیٹر پر جاتی ہوئی نظر آرہی۔ اب اگر نواز شریف وطن واپس
آتے ہیں تو حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ اب وہ اور انکی بیٹی عدالت
کی طرف سے سزا یافتہ مجرم نواز شریف اور مجرمہ مریم نواز ڈیکلیئر کیئے جا
چکے ہیں اور انہیں ایئرپورٹ سے سیدھا اڈیالہ جیل جانا ہے۔
آنے والے انتخابات میں اب تقریبا دو ہفتے رہ چکے ہیں۔ انتخابی اکھاڑہ سج
چکا ہے۔ مگر ایسا لگ رہا کہ ابھی تک سارا میلہ صرف کنگ پارٹی کے لیئے ہی
سجایا گیا ہے۔ انتخابات کی مہم بھی پھیکی پھیکی سی لگ رہی۔ انتخابی اکھاڑے
میں صرف کپتان ہی نظر آرہا اور ایسا دکھائی دے رہا کہ صرف کپتان کے لیئے
میدان تیار کیا گیا ہے۔ مگر نواز شریف کے وطن واپس آکر جیل جاتے ہی انتخابی
اور سیاسی صورتحال میں تبدیلی ضرور آجائیگی اور اس تبدیلی کو چاہے ٹھہرے
پانی میں پتھر پھینکنے کے مترادف ہی سمجھا جائے تو بھی کچھ نہ کچھ اتنی
ہلچل تو مچ ہی جائیگی جو مسلم لیگ ن کی اکھڑتی سانسیں بحال کرنے میں آکسیجن
کا کام دیگی۔ اگلی حکومت کس کے حصے میں آتی ہے یہ تو انتخابات کے بعد سیاسی
جماعتوں کی جیتی گئی نشستوں کی تعداد پر منحصر ہو گا کہ کس کو کس کے ساتھ
ملا کر مخلوط حکومت ترتیب دی جائے۔ مذہب کارڈ بھی ماضی کی طرح اپنے عروج پر
کھیلا جائیگا اور تحریک لبیک توقعات سے زیادہ ووٹ لیکر اپ سیٹ کر سکتی ہے
تو دوسری طرف جیپ میں سوار بھی گذشتہ سینٹ کے انتخابات میں چیئرمین سینیٹ
کے چناو کی طرز کا ہاتھ کر سکتے ہیں۔ صادق کی طرح کا امین ڈھوند کر عمرانی
حکومت کی بجائے درمیانی حکومت بننے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
اور پھر کہیں دولہے کے لیئے کچی سلائی سے تیار کی گئی شیروانی کو ادھیڑ کر
نیا ناپ لینے کی ضرورت نہ پڑ جائے۔
لگی ہے پھر صدا ایک بار کہ سردار بدلا جائیگا
فرعونی سلطنت کا بس ایک کردار بدلا جائیگا
جس قوم کو خود پر جبر سہنے کی عادت ہو
وہاں کب کچھ بدلا ہے جو اس بار بدلے گا
|