الیکشن مہم میں حدود اخراجات کی پامالی!

سیاست (Politics) "ساس" سے مشتق ہے جو کہ یونانی زبان کا لفظ ہے، اس کے لفظی معانی شہر و شہرنشین کے ہیں۔لغت میں سیاست کے معنی حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصلاح کرنا ہے جبکہ اصطلاح میں، فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں۔چونکہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہرقول و فعل کودین کے احکامات کی روشنی میں تابع بنانے کا حکم ہے اس لئے اگر ہم سیاست کے مفہوم کو دین کی روشنی میں تلاش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دو ہوجائیں جبکہ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کوسیاستدان کہا جاتا ہے جن کی معاونت سرکاری حکام (بیوروکریسی) کرتی ہے۔قرآن میں سیاست کے معنی حاکم کا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دلانا، امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ سرانجام دینا اور رشوت ، سفارش، اقرباء پروری وغیرہ کو ممنوع قرار دینا ہے۔علماء کی نظر میں رسول اﷲ ﷺ اور خلفائے راشدین رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی سیرت و روش ،استعمار سے نجات ،مفاسد سے روکنا ،نصیحت کرنا سیاست ہے۔فلاسفہ کی نظر میں فن حکومت، اجتماعی زندگی کا سلیقہ،صحیح اخلاق کی ترویج وغیرہ سیاست ہے۔چوں کہ انسان خود بخود مندرجہ بالا امور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا،لہٰذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسانوں کو بہترین زندگی کا سلیقہ سکھائے ،جس کو دین مذہب بھی کہتے ہیں۔

قرآن مجید میں ہے کہ ’’ان کے پیغمبر نے کہا کہ اﷲ نے تمہارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے۔ ان کے پاس تو مال کی فراوانی نہیں ہے۔ ان سے زیادہ تو ہم ہی حقدار حکومت ہیں۔ نبی نے جواب دیا کہ انہیں اﷲ نے تمہارے لیے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اﷲ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اور صاحب علم بھی‘‘ (سورہ البقرہ، آیت 247 ) اس آیت سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہے جو سیاست کے لیے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیتے ہیں ،سیاست کے لیے ذاتی طور پر ’’ غنی ‘‘ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ حاکم کو عالم وشجاع ہونا چاہیے۔ پاکستان کی ایک مظلوم شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مثال ہمارے سامنے ہے جو کہ گذشتہ 15 سالوں سے امریکی حراست میں ہے اور جس کی بے گناہی کے لاتعداد ثبوت ملنے کے باوجود وہ حکمرانوں اور سرکاری حکام کی بزدلی اورکرپشن کے باعث رہائی اور وطن واپسی سے محروم ہے۔

سیاست کا کسی بھی زاویہ سے جائزہ لیں ایک چیز واضح ہے کہ سیاست کا مطلب عوام کی خدمت ہے اس لئے عوام کی خدمت کیلئے ایسے حکمران اور حکومت کی ضرورت ہے جو کہ سیاست کے معنی و مفہوم کے عین مطابق امور مملکت سرانجام دیں۔موجودہ طرز انتخاب اور حکومت دونوں ہی ہمارے دین ، کلچراور رویہ سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ پارلیمانی اور جمہوری طرز انتخاب انگریزوں نے اپنے ملک اور کلچر کے مطابق بنایا ہے جس میں انقلابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ اگر پاکستان میں گذشتہ 3 دہائیوں کے حکمرانوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ایک بھی حکمران یا حکومت ایسی نہیں ملتی جوکہ کرپشن اور اقرباء پروری کے الزام سے بچ پائی ہو اسلئے ضروری ہوگیا ہے کہ’’ انتخابی عمل‘‘ (Electrol System) میں انقلابی اصلاحات (Reform) کی جائیں۔ یہ انتہائی اہم کام الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کم ازکم 2سال قبل سرانجام دے دینا چاہئے تھا مگرظاہر ہے کہ کرپٹ حکمرانوں اور انتظامیہ کی موجودگی میں ایسی اصلاحات کی توقع رکھنا عبث ہے۔ مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی عمل کے ذریعے موثر پارلیمنٹ کے قیام کیلئے ایک اہم کام اب بھی سرانجام دے سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ عام انتخابات2018 کے دوران سیاسی جماعتوں کی اربوں کھربوں کی الیکشن مہم کا فوری نوٹس لیا جائے کیونکہ الیکشن میں تشہیری مہم پر اربوں روپے کے اخراجات کرنے والے عوام کی خدمت نہیں کرسکتے ۔ یہ لوگ دولت کے بل بوتے پر منتخب ہوکر پھر اسمبلیوں میں جائیں گے اور پھر سے اربوں ، کھربوں روپے کی کرپشن کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ہر عام انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتیں اور ان کے امیدوار کسی طرح بھی منتخب ہونے کیلئے بے حساب اخراجات کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں کرپشن عام ہونے کی ایک بڑی وجہ ’’کرپٹ انتخابی نظام‘‘ بھی ہے۔ان سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے عوام کو شعور سے محروم رکھنے کیلئے جان بوجھ کر تعلیم سے محروم رکھا ہوا ہے تاکہ بریانی کی ایک پلیٹ اور حلوہ پوری کے ناشتہ کے عوض ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔

2018 کے عام انتخابات میں بھی بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں میں موجود سرمایہ دار اور جاگیر دار الیکٹ ایبلز کی جانب سے انتخابی تشہیری مہم میں کروڑوں روپے کے اخراجات دیدہ دلیری کے ساتھ کئے جارہے ہیں اور جب ایسے لوگ حکومتی ایوانوں میں پہنچیں گے تو ظاہر ہے اپنے خرچ کردہ کروڑوں روپے کے عوض اربوں اور کھربوں وصول کریں گے جس کے باعث قومی خزانے پر بوجھ اور عوام کی معاشی حالت ابتر ہوجاتی ہے ۔ عوام کو سبز باغ دکھا کر بار بار اقتدارحاصل کرنے والے سیاستدان ڈیزل ،پٹرول ،بجلی ،آٹا، چینی،ٹرانسپورٹ، بلڈرز اور پانی کے بیوپاری اور مل مالکان بن گئے جبکہ عوام دووقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ۔ان حالات میں جبکہ ملک 89 بلین ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی قائم کردہ حدودا خراجات کی سرعام پامالی پر خاموش کیوں ہے ؟ پاسبان کے امیدواروں کی انتخابی مہم مثال کے طور پر موجود ہے جنہوں نے کم وسائل میں اپنی تشہیری انتخابی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔الیکشن کمیشن نے سرکاری املاک پر الیکشن امیدواروں کے پوسٹر اور بینرز لگانے پر پابندی عائد کرکے اچھا اقدام کیا ہے مگر اس کے برعکس شہر میں بڑی بڑی گاڑیوں پر بڑے بڑے بینرز اور بھاری ساؤنڈ سسٹم لگا کر تشہیری مہم چلانے والی بڑی پارٹیاں اخراجات کی حدود سے تجاوز کررہی ہیں ۔دولت کے بل بوتے پر الیکشن جیتنے کے عمل کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے جس کیلئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان خدمت کی سیاست کو منافع بخش تجارت بنائے جانے کا سختی سے نوٹس لے ۔

Usman Moazzam
About the Author: Usman Moazzam Read More Articles by Usman Moazzam: 5 Articles with 2649 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.