پی ٹی آئی میں ٹکٹوں کی تقسیم

تقریباً ساری سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لئے اپنے اُمیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری کر دی ہیں۔ اس بار سیاسی جماعتوں کے قائدین کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم ایک کڑا امتحان تھا کیوں کہ بعض جماعتوں کے پاس ایک حلقہ کے لئے درجنوں اُمیدواروں نے ٹکٹ کے حصول کے لئے درخواستیں جمع کروائیں تھیں اور بعض جماعتوں کے پاس اُمیدواروں کا قحط تھالہٰذاٹکٹوں کی تقسیم ہر جماعت کے واسطے ایک کڑے امتحان سے کم نہ تھا۔ یہ مناظربھی دیکھنے کو ملے کہ ایک مرتبہ ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پھرسوشل میڈیا پر عوامی دباؤ کے تحت فیصلہ تبدیل کر کے اُمیدواروں سے ٹکٹ واپس لیا گیا۔ جن اُمیدواروں کو ٹکٹ کے حصول میں ناکامی ہوئی ، انہوں نے جماعتوں کو خیر آباد کہہ کر بحیثیت آزاد اُمیدوار انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ہاں ۔۔۔ ایسے اُمیدوار بھی ہیں جنہوں نے ٹکٹ نہ ملنے پر جماعت سے وفاداری نبھائی اور پارٹی قائدین کے فیصلوں پر سر خم سے تسلیم کیا۔ 2013 ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے جودھرنا کلچر کو فروغ دیا، اُس کا استعمال ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل میں دیکھنے کو ملا۔ اس میں کوئی شک و شبہے کی بات نہیں ہے کہ نئی حکومت کے لئے مشکلات کے انبار استقبال میں کھڑے ہیں لیکن راقم الحروف کی ذاتی رائے کے مطابق دھرنا کلچر کا فروغ نئی حکومت کے لئے حزب اختلاف کی جانب سے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کُرسی کے حصول کا دوسرا نام ہے، یعنی اگر آپ کُرسی کے حصول میں کامیاب ہوگئے تو پھر اُس کو بچانے میں پانچ سال گزارنے پڑتے ہیں اور اگر حزب اختلاف کے بینچ نصیب میں آئے تو ہر وقت ایسے پلان ذہن میں بنانے پڑتے ہیں کہ مخالفین کے پاؤں کُرسیوں سے اکھڑ جائیں اور اوندھے منہ گر جائیں۔ یہی ہماری بد بختی کی علامت ہے اور یہی ہمارے اُن سوالوں کا جواب ہے کہ ہماری قوم ترقی کیوں نہیں کرتی، یعنی ہم اپنے ذاتی مفادات پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتے خواہ قومی مفادات کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ پہنچے۔ اگر ہم ترقی و کمال کے خواہاں ہیں تو ہمیں یہ روش تبدیل کرنا ہو گی اور اگر اسی طرح پُرانی ڈگر پر چلتے رہے تو زوال کی دلدلوں میں مزید دھنستے جائیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے کہا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے تین اُصول رکھے گئے ہیں۔ پہلا اُصول میرٹ ، دوسرا دیانت داری اور تیسرا اُمیدوار میں انتخاب جیتنے کی صلاحیت ( ایلیکٹیبل ) ہو۔مجھے ان اُصولوں سے مصنوعی ذہانت کے ایک شعبہ جس کو روبوٹکس کہتے ہیں اُس کے اُصول یاد آئے۔ روبوٹ بناتے وقت نہایت سادہ اُصول رکھے جاتے ہیں۔ پہلا اُصول یہ ہے کہ روبوٹ کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچائے گا جب کہ دوسرے ا اُصول میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مالک کی بات مانے گا سوائے یہ پہلے اُصول سے متصادم نہ ہو، یعنی وہ اپنے مالک کی ہر بات مانے گا لیکن سوائے اُس بات کے جس میں کسی انسان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ایک مشین کو بناتے وقت ہمارے اُصول کتنے شان دار ہیں لیکن ایک انسانی جماعت میں ٹکٹوں کے لئے بنائے گئے اُصول آپس میں متصادم نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں دیکھا جائے تو آپ کو غریب شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کے ایوانوں میں نظر نہیں آئے گا البتہ غریب عوام کے ووٹوں سے منتخب امیر و کبیر لوگ ضرور نظر آئیں گے اور آپ کو کوئی جیالا یا نظریاتی کارکن ایوانوں میں نظر نہیں آئے گاالبتہ ایلیکٹیبلز (موسمی پرندے ) ضرور نظر آئیں گے۔ جس کی مثال این اے پینتیس سے حضرت بی بی کی صورت میں موجود ہے۔ ستانوے سالہ حضرت بی بی کے پاس اٹھائیس ہزار روپے تھے جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کے اُمیدوار کے لئے مقررہ فیس مبلغ تیس ہزار روپوں سے صرف دو ہزار کم تھے یوں اُس کے کاغذات پہلے مرحلے میں ناک آؤٹ ہوگئے۔ بالفرض محال اُس کے کاغذات منظور ہوجاتے تو وہ انتخابی مہم کیسے چلاتی؟ یاد رہے کہ این اے 35 وہ حلقہ ہے جہاں سابق وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیراکرم خان درانی اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران احمد خان نیازی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے وضع کردہ ان اُصولوں میں واضح تصادم دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ پہلے دو اُصول شان دار اور ٹھیک ہیں لیکن تیسرا اُصول اپنے پہلے دو اُصولوں کی نفی کرتا ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ اُصول 2013 ء کے انتخابات میں شکست کے تجزیے کے بعد شامل کیا گیا ہو گا جن میں ٹکٹ میرٹ اور دیانت داری کی بنیاد پر نظریاتی کارکنوں کو دیئے گئے تھیپس اس بار یہ بہتر ہوتا کہ صرف ایلیکٹیبل کے ایک اُصول پر ٹکٹوں کی تقسیم کی جاتی کیوں کہ یہی پہلے دونوں اُصولوں کی نفی کرتا ہے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301492 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.