عدالتی این آر او --- کتنی حقیقت کتنا فسانہ

کچھ عرصہ قبل پاکستان کے معروف سیاست دان شیخ رشید نے ایک پیش گوئی کی تھی کہ مُلک عدالتی مارشل لاء کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس بیان کا سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لیتے ہوئے اسے حقائق کے منافی قرار دیا گیا۔ جبکہ سڑکوں چوراہوں پر بیٹھے دیسی دانشوروں کے خیال میں جوڈیشل مارشل لاء لگ گیا ہے، جس کے تحت طے پانے والے عدالتی این آر اوکا فائدہ شہباز شریف کو پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح کا ایک سوال سوشل میڈیا پر بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ موجودہ عدالتوں نے نواز شریف اور اس کی ٹیم کے خاص خاص بندوں کو نااہلی کی سزا سے نواز دیا ہے۔ قمرالاسلام‘ نہال ہاشمی‘ شاہد خاقان عباسی‘دانیال عزیز، طلال چودھری غرضیکہ ہر وہ شخص جو نواز شریف کے ساتھ منسلک ہے وہ عدلیہ کے زیر عتاب ہے۔ جب کہ شہباز شریف کے خلاف عرصہ دراز سے زیر التوا کیسز کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔شہباز گروپ کا ایک بھی اُمیدوار نااہل قرار نہیں پایا۔ اتنے سالوں بعد بھی ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی بے رحمانہ قتل و غارت کا شکار بننے والوں کے لواحقین انصاف کی دُہائیاں دے رہے ہیں۔ مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ میٹرو کرپشن کیسز، اورنج ٹرین، صاف پانی، پُلوں اور سڑکوں کی تعمیروں میں گھپلے، بجلی کے منصوبوں میں اربوں کے غبن سب معاملے عدالتی نظام کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ کارروائی کیا ہونی تھی ، ایک آدھ بار اعلیٰ عدلیہ میں پیشی پر شہباز شریف کو اس کی نام نہاد گڈ گورننس پر شاباش بھی دی جا چکی ہے۔ اس مفروضے کے معترضین کا خیال ہے کہ اگر عدالتیں شریفوں کے حق میں ہوتیں تو نواز شریف نااہل قرار نہ پاتا۔ ا س پر بھی بعض لوگ دُور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ نواز شریف نااہل ہوا نہیں، بلکہ اُسے شہباز شریف نے کروایا ہے۔ساری زندگی وزیر اعظم کے عہدے کو ترستے شہباز شریف کے پاس پانامہ لیکس کے بعد سنہری موقع میسر آ گیا ہے۔

شریف برادران نے اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے ہی عدلیہ کو کنٹرول کیے رکھا۔ ججوں کو ڈرانے دھمکانے اور خریدنے کا سارا کام گلو بٹ خصلت کے مالک شہباز شریف کے ذمے تھا۔ 1990ء میں بے نظیر کی حکومت کرپشن کے الزام میں برطرف ہونے پر معاملہ عدلیہ میں پیش ہوا تو فیصلہ بے نظیر کے خلاف آیا۔ جب کہ اسی نوعیت کے الزامات پر 1993ء میں برطرف ہونے والی نواز حکومت کی دفعہ سپریم کورٹ کے تیور ہی بدل گئے۔ نواز شریف کو ’باعزت‘ عہدے پر بحال کر دیا۔ الزامات ایک جیسے تو پھر فیصلوں میں تضاد کیسے آ گیا۔ شاید چمک دمک نے انصاف کی ساری تشریحات بدل کر رکھ دیں۔ ان کے ایک چہیتے جسٹس رفیق تارڑ تھے۔ جو ملازم عدلیہ کے تھے مگر انہوں نے شریفوں کے لیے جانے کون سی گراں قدر خدمات انجام دیں جن کے صلے میں انہیں بعد میں صدر پاکستان کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ موصوف کے سارے خاندان کا مستقبل تابناک ہو گیا ہے۔ کوئی وزیرکے عہدے پر تعینات ہوا تو کئیوں پر ٹھیکوں اور مراعات کی بارش کی گئی۔ جبکہ بہت سارے اس وقت اعلیٰ عہدوں کے مزے لُوٹ رہے ہیں۔

پاکستانی عدلیہ کا ایک شرمناک کردار جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم ہے۔ آڈیو ٹیپ والا قصہ تو سب کو پتا ہے جس میں سیاسی مخالفین کو دباؤ میں لانے اور مزہ چکھانے کے لیے شہباز شریف جسٹس قیوم کو ڈانٹ پلا رہا ہے کہ فیصلہ اُس کی مرضی کا آنا چاہیے۔ اور عدل و انصاف کی پاسداری کا حلف اُٹھانے والاجج جاگیردار کے کمّی کی طرح حُکم کی تعمیل کی یقین دہانی کرا رہا ہے۔بدلے میں اس خاندان کے متعدد افراد کو اعلیٰ سرکاری عہدوں، اسمبلی کی ٹکٹوں اور دیگر کئی نوازشوں سے مالا مال کر کے ان کی نسلوں کی معیشت سنوار دی گئی ہے۔

’مظلوم‘ شریفوں نے حقیقی شریف النفس چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ کیا سلوک کیا، پُورا کا پُورا عدالتی نظام خرید کر اس کے ساتھیوں کی جانب سے ہی بغاوت کروا ڈالی۔ عدلیہ پر اندر اور باہر سے حملہ ہوا۔ دُنیا کے کس مہذب مُلک میں یہ شرمناک نظارہ دیکھنے کو ملا ہو گا کہ چیف جسٹس کو سپریم کورٹ پر حملے کے دوران نواز لیگی گلو بٹوں سے جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا اور گالم گلوچ سے پامال ہوتی عزت بچانے کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے گھر بیٹھنا پڑ گیا۔لوگوں کے ذہنوں میں ابھی بھی شہباز شریف کی وہ یلغاریں اور للکاریں گونج رہی ہوں گی جس میں یہ اظہار کیا جا رہا تھا کہ چاہے سب کچھ ختم ہو جائے مگر ہماری حکومت قائم رہنی چاہیے۔

وہ تو نواز شریف طیارہ سازش کیس کی صورت میں اﷲ کی پکڑ میں آ گیا۔ اس کیس میں موجود شواہد نواز شریف کو پھانسی دلوانے کے لیے کافی تھے۔ مگر عدلیہ نے نواز شریف کو عمر قید کی ہلکی سزا دینے پر اکتفا کیا۔ حالانکہ قصوری قتل کیس میں ذوالفقار بھٹو کو صرف مشورے کا ملزم ثابت ہونے پر پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔

مشرف دور کی پُوری عدلیہ تحریک شریفوں کے پیسے سے چلائی گئی ۔ افتخار چودھری بحالی کے بعد احسان مندی کے جذبے کے تحت شریفوں کا دست راست بن کراُن کے مخالفین کو عدالتی استحصال کا نشانہ بناتا رہا۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم یوسف گیلانی کو بھی گھر بھیج دیا۔ جبکہ نواز شریف کا دور آیا تو افتخار چودھری کی گرج چمک یکدم غائب ہو گئی۔ سارے سوموٹو ایکشن ٹھنڈے پڑے گئے۔ موصوف کے بیٹے ارسلان افتخار کی لوٹ مار کے قصے منظر عام پر آئے تو اُس کا نام نہاد ٹرائل شروع کروا کے خود ہی بری قرار دلوا دیا۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کو بھی عدلیہ بحالی تحریک میں نواز لیگ کی مرضی کا کردار ادا کرنے کے صلے میں اُس کے بیٹے مصطفی رمدے کو اسمبلی کا ٹکٹ دے کر خوش کر دیا گیا۔ ایک اور جج جناب خواجہ شریف بھی جاتی عمرہ کے بڑے وفادار اور فرمانبردار تھے۔ ہوتے بھی کیوں نہ، موصوف لاہور کے ایک حلقے میں نواز لیگ کے کونسلر رہ چکے تھے۔ خواجہ شریف اپنی وکالت کے دِنوں میں مسلم لیگ کے سیاسی دہشت گردوں کے مقدمات لڑتا رہا اور پھر ایک وقت آیا کہ اپنی خدمات کے صلے میں اٹارنی جنرل بنایا گیا۔اس شخص کو بھی جاتی عمرہ سے وفاداری کے صلے میں وہ کچھ مِل گیا ہے کہ کئی نسلیں دادِ عیش دیتی رہیں، تو بھی کوئی کمی نہ آئے گی۔ جسٹس سعید الزمان صدیقی کو بھی مشرف دور میں شریف فیملی کے ساتھ وفاداری نبھانے کے باعث عمر کے آخری حصے میں گورنر سندھ تعینات کیا گیا۔

پچھلے کچھ عرصہ کے دوران ایسے ججز جنہوں نے اپنے عدالتی فیصلوں سے شہباز شریف کو فائدہ پہنچایا‘ اُن کی نشاندہی ہونے پر سزا کے طور پر صرف تبادلے کیے گئے۔ حالانکہ اُن کے لیے عبرتناک سزا تجویز ہونی چاہیے تھی۔ سیاست دانوں کی طرح ججز کے اثاثے بھی اگر اُن کی سروس کے دوران وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہتے تو بہت چشم کُشا حقائق باہر آ جاتے۔ ملک کے موجودہ نگران وزیراعظم جسٹس ناصر الملک کے غیر معمولی اثاثوں کی تفصیلات ظاہر ہونے پر بھی بہت شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ کے کچھ ججوں میں افتخار چودھری اور خواجہ شریف کی رُوح حلول کر گئی ہے۔ ایسے حالات میں چیف جسٹس صاحب کو عدلیہ کا وقار بلند رکھنے کے لیے اس میں موجود نچلی سے اُوپری سطح تک کی کالی بھیڑوں کو باہر نکال پھینکنا ہو گا۔ تبھی عدلیہ میں صحیح معنوں میں شفافیت پیدا ہوگی اور لوگوں کا اس سسٹم پر اعتقاد و اعتماد قائم ہو گا۔سپریم کورٹ کی تاریخ کے شرمناک کردار والے ججوں نے صرف اپنی اولادوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے اپنے مقدس پیشے سے غداریاں کر کے کروڑوں، اربوں روپے کا بینک بیلنس اور جائیدادیں تو بنا لیں مگر اس مُلک کا مستقبل تاریک بنا دیا ہے۔

سارے سیاسی کیریئر میں شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کو وزارت عظمی دلوانے اور اس عہدے پر برقرار رکھنے کے لیے عدلیہ کو کنٹرول کرتا رہا۔ اب جب اُس کی اپنی باری آئی ہے تو وہ پہلے سے بڑھ کر طاقت لگا رہا ہے۔ اس وقت بھی شہباز شریف پنجاب کا ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ ہے۔ ساری بیوروکریسی اس کے ہاتھ میں ہے۔ حسن عسکری جتنے بھی تبادلے کر لیں‘ یہ لوگ جہاں بھی جائیں گے‘ اپنے سابقہ آقا سے وفاداری نبھاتے ہوئے اس کے احکامات بجا لائیں گے۔شہباز کمپن کی تشکیل دی ہوئی بی ٹیم اور سی ٹیم ہی آگے آ رہی ہے۔ الیکشن مہم کے تحت شہباز شریف کی جانب سے عدلیہ کے سابق ججوں کو الیکشن کے حوالے سے مخصوص ٹاسک دیئے گئے ہیں۔ افتخار چودھری اتنا عرصہ خاموش بیٹھا رہا، اب اسے الیکشن کے نزدیک اچانک یاد آ گیا کہ عمران خان کو ایک ناجائز بیٹی ٹیریان کے والد ہونے کے الزام میں عدالت میں گھسیٹنا ہے۔ سابقہ ادوار کے جو جسٹس صاحبان شریفوں کی جیب میں پڑے رہے‘ اُن کے ماتحت لوگوں کی ہی بڑی تعداد اب عدلیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے۔ دروغ بر گردنِ صارفینِ سوشل میڈیا کہ یہ سابقہ ججزاپنے ماتحت رہ چکے موجودہ ججوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور انتخابی نتائج اور سیاسی فضا کو شہباز شریف کے حق میں ہموار کرنے کے لیے عدالتی مشینری اور فیصلوں کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔

شہباز شریف، نواز شریف کو سیاسی منظرنامے سے آؤٹ کر کے بہت کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔جبکہ عمران خان کو الیکشن کے بعد سمجھ آئے گی کہ جسے وہ تبدیلی کی خوشگوار ہوا سمجھ بیٹھا تھا ‘ وہی بادِ سموم بن کر اس کی کامیابی کے گلستانِ اُمید کو اُجاڑ کر آگے بڑھ گئی ہے۔

Naushad Hameed
About the Author: Naushad Hameed Read More Articles by Naushad Hameed: 21 Articles with 12347 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.