تھامسن رائٹرس فاؤنڈیشن کے جائزے میں خواتین کے تئیں جنسی
تشدد،انسانی اسمگلنگ اور جنسی کاروبار میں ڈھکیلے جانے کی کسوٹی پر
ہندوستان کو خواتین کے لئے دنیا کا سب خطرناک ملک بتایا گیا ہے۔۵۵۰ ماہرین
کے ذریعے کئے گئے اس سروے میں یورپ، افریقہ، امریکہ، جنوب ومشرقی ایشیا کے
پیشہ ور، ماہر تعلیم، حفظان صحت ملازم، غیر سرکاری تنظیم کے لوگ، پالیسی
ساز اور سماجی مبصرین شامل تھے ۔یہ ماہرین دنیا بھر کے جملہ ۱۹۳ ممالک
کاجائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچے۔اس کے لیے صرف مودی سرکار کو موردِ الزام
ٹھہرایا نہیں جاسکتا کیونکہ ۲۰۱۱ میں ہندوستان چوتھے مقام پر تھا لیکن اسی
سال نربھیا کا معاملہ سامنے آگیا اور اس گونج ساری دنیا میں سنائی دی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۷سے ۲۰۱۶ کے درمیان خواتین کےحوالے سے
جرائم میں ۸۳فیصد اضافہ ہوا ۔ہمارے ملک میں ہر گھنٹے میں ۴ آبروریزی کے
معاملے درج کئے جاتے ہے۔ دارالحکومت دہلی کے اندرہردن کم سے کم ۱۰خواتین کو
اغوا کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کا سرِ فہرست ہوجانا کوئی حیرت کی بات
نہیں ہے۔
اس صورتحال میں جب مندسور یا کھٹوعہ جیسے درندگی کے واقعات منظر عام پر
آتے تو پوری قوم صدائے احتجاج بلند کرتی ہے لیکن اس وقتی مذمت کا خاطر
خواہ اثر نہیں ہوتا۔ ان دونوں سانحات میں آبرو ریزی کا شکار ہونے والی
مظلومہ کی عمر ۸ سال ہے ۔ ایک فوت ہوگئی دوسری موت سے لڑ رہی ہے۔ ان دونوں
معاملات میں ظالم اور مظلوم کا مذہب مختلف ہے اور دونوں صوبوں میں بی جے پی
اقتدار میں تھی یاہے۔ اس اشتراک کے باوجود ان میں بہت سارا فرق بھی ہے مثلاً
ایک کا مقصد قبائلیوں کو ڈرا دھمکا کر بھگانا بھی تھا جبکہ دوسرے کا ایک
معصوم کلی کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھانا تھا۔ ایک کے لیے مندر کا استعمال
کیا گیا دوسرے کو مردہ سمجھ کر جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا۔ایک میں مظلوم
مسلمان اور ظالم ہندو ہے اور دوسرے میں ظالم مسلمان اور مظلوم ہندو ہے لیکن
اس سے قطع نظر ظلم کی نوعیت یکساں ہے اور دونوں مقامات پر مجرم یعنی آصفہ
کے قاتل سنجی رام ، وشال اور آصف و عرفان صرف اور صرف سزا ئے موت کے مستحق
ہیں۔
ان معاملات میں ایک فرق یہ ہے کہ مندسور سانحہ کے بعد اندور کےرکن پارلیمان
سدھیر گپتا بچی کی خیریت دریافت کرنے کے لیےایم وائی اسپتال جاتے ہیں اور
مقامی بی جے پی ایم ایل اے سدرشن گپتا متاثرہ بچی کے والدین سے ایم پی جی
کا شکریہ ادا کرنے کا مطالبہ تک کردیتے ہیں لیکن کھٹوعہ معاملے میں میں بی
جے پی کے صوبائی وزراء چندر پرکاش گنگا اور چودھری لال سنگھ ’ہندو ایکتا
منچ ‘ کے پرچم تلےزانیوں اور قاتلوں کو بچانے کے لیے کھلم کھلا سول و پولس
انتظامیہ کے عہدیداران کی گرفتاریاں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔آگے چل کردنیا
بھر میں ہونے والی مذمت کے پیش نظر بی جے پی ان دونوں کو استعفیٰ تو لے لیا
مگر پھر جب سرکاری کی توسیع کا موقع آتا ہے تو کھٹوعہ کے رکن اسمبلی راجیو
جسروٹیا کو وزیر بنادیاجاتا ہے حالانکہ وہ خود بھی ایکتا منچ کے احتجاج میں
شریک ہونے کے بعدروپوش ہوگیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عصمت دری جیسے
سنگین معاملات سے بھی بی جے پی کس ڈھٹائی کے ساتھ سیاسی فائدہ اٹھانے کی
کوشش کرتی ہے؟
زعفرانی فسطائیوں کی جانب سے ہائی کورٹ کے اندر ہنگامہ آرائی کے بعد آصفہ
کے اہل خانہ اور ان کی وکیل دیپکا رجاوت کو اس قدر دہشت زدہ کیا جاتا ہے کہ
وہ کھٹوعہ عصمت دری اور قتل معاملہ کو چنڈی گڑھ منتقل کرنےکے لےا سپریم
کورٹ میں عرضی داخل کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ریاستی حکومت کو عدالت آصفہ
کے گھر والوں اور وکیل کو تحفظ فراہم کرانے کا حکم دیار پڑتاہے ۔ اس کے
برعکس ہندو ایکتا کی مانند مسلمانوں کی کوئی سرپھری تنظیم بھی آصف اور
عرفان کے لیے میدان میں نہیں آتی ۔ پوری ملت ایک آواز میں ان کے لیے
پھانسی کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ اس گئی گزری حالت میں اسے قرآن مجید کا
یہ حکم یاد ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا
واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری
اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق
معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا
اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات
کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس
کی خبر ہے‘‘۔
بی جے پی امت کےلیے معیار حق نہیں بن سکتی ۔ ہم نہ اس کی اکساہٹ کا شکار
ہوسکتے ہیں اور نہ اس کی پیروی کرسکتے ہیں ۔ ان کا رکن پارلیمان ساکشی
مہاراج اپنے رکن اسمبلی برجیش راوت کے ساتھ سیتا پور جیل میں جاکر بانگر
مئو کے بی جے پی ممبراسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کی مزاج پرسی تو کرسکتا ہے۔
اس کے پاس عصمت دری کا شکار ہونے والی مظلوم دوشیزہ کے لیے وقت نہیں جس کے
والد کو سینگر کے غنڈوں نے پولس حراست میں ہلاک کردیا لیکن امت مسلمہ کی
ہمدردی اور حمایت تومندسور اور اناو کی ان مظلوم بیٹیوں کے ساتھ رہیں گی جو
سینگر اور آصف کے ہوس کا شکار ہوئی ہیں ۔ اس دینی تقاضے کے تئیں ہم
عنداللہ مسئول ہیں ۔ مندسور کے سانحہ میں امت کے لیے یہ سامانِ عبرت بھی ہے
کہ اگر اس جبر و ہوس کی آگ بجھانے میں کوتاہی کی گئی تو ہم خود اس کا
ایندھن بن جائیں گے ۔ امت کی بقاء کے لیے آصفہ کی حمایت اور اسلام کے فروغ
کی خاطر آصف کی مخالفت ناگزیر ہے۔
ہندوستان کے اندر ملی حمیت کو اکثر عصبیت کا نام اس لیے دیاجاتا ہے کہ ہم
اپنوں پرہونے والے ما لم کے خلاف تو آواز اٹھاتے ہیں لیکن غیروں پر ہونے
والےظلم کو نظر انداز کے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں حالانکہ کتاب الٰہی ہم
سے مطالبہ کرتی ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر
قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو‘‘۔ ہم جب اپنی اس ذمہ
داری کو ادا نہیں کرتے تو خود اپنے مقام و منصب کو پامال کردیتے ہیں۔ لوگوں
کو یہ پتہ ہی چلتا کہ ہمارا دین فطرت اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ’’ کسی
گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ عدل کرو، یہ
خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم
کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘ (القرآن)۔ ہندوستان کے موجودہ
ماحول میں اس فرض منصبی کی ادائیگی جس قدر مشکل امر ضرور اس کا اجرو ثواب
بھی اتنا ہی اعلیٰ و ارفع ہے۔
|