پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پہلی
دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد پیش کی جو 12 مارچ 1949 کو منظور ہوئی۔
جس کی منظوری کے بعد پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کیلئے راستہ
متعین ہو گیا ۔ قرارداد مقاصد نے مستقبل کے تما م آئین سازوں کو اس امر کا
پابند کر دیا تھا کہ وہ اسلامی نظریے کی بالادستی کو تسلیم کریں گے یہی وجہ
تھی کہ 1956ء ، 1962 ء اور 1973 کے دساتیر میں اسلامی رنگ نمایاں تھا ۔ ان
میں بہت سی اسلامی دفعات شامل کر لیں گئیں تھیں ، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کی
حاکمیت کہ تما م کائنات کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے کو تسلیم کرنا ، اسلام کو
سرکاری مذہب قرار دینا اور آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے جیسے
اقدامات تھے ۔ 20جون 1980 کو زکوٰۃ و عشر کا نظام جاری کیا گیا جس کے بعد
بینکوں میں ہر سال صاحب نصاب مسلمانوں کے مال سے اڑھائی فیصد زکوٰۃ وصول کی
جانی تھی۔ عشر کی وصولی کا کام 1983میں شروع ہوا جس کے بعد سالانہ پیداوار
کی مخصوص حد کا دس فیصد عشر وصول کیا جانا تھا ۔دس فروری 1979کو شرعی حدود
کا آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کے مطابق چوری ، شراب نوشی اور زنا کے جرائم پر
شرعی سزائیں دینے کے احکامات جاری کئے گئے ۔سود سے نجات حاصل کرنے کیلئے
یکم جنوری 1981 سے نفع و نقصان کی بنیاد پر کھاتے کھولے گئے ۔دس فروری 1979
کو ایک آرڈیننس کے ذریعے تمام ہائیکورٹس میں شریعت بنچ قائم کر دئیے گئے
اور مئی 1980 میں شریعت بنچوں کی بجائے وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی جو
ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنتی تھی اور اسلام کی تشریح کرتی
تھی ۔تعلیمی نظام کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کیلئے تمام کلاسوں میں اسلامیات
کی تعلیم لازمی قرار دی گئی اور سکولوں میں جماعت ششم سے ہشتم تک عربی کی
تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ۔ماہ رمضان کے احترام کیلئے ایک آرڈیننس جاری
کیا گیا جس کے مطابق ماہِ رمضان کا احترام نہ کرنے والوں کیلئے معقول
جرمانہ اور تین ماہ تک قید کی سزا مقرر کی گئی ۔ 2جنوری 1981 کو اسلام آباد
میں اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی جو اسلامی قانون کی ہر پہلو پر
تحقیق کرتی تھی جبکہ دینی مدارس کی سر پرستی ،ان کو امداد دی گئی اور ان کی
اسناد کو ایم ۔اے کے مساوی قرار دیا گیا ۔اگر ہم پاکستانی آئین کا جائزہ
لیں تو اس سے واضح ہے کہ پاکستان کسی برٹش یا انگریزی قانون کا محتاج نہیں
بلکہ یہ خالصتاََ شرعی ملک ہے ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ چند بدمعاشیہ نے
پاکستان پر قبضہ کر کے نہ صرف عوام کو دھوکے میں رکھا ہے بلکہ لبرل ازم ،
سیکولر ازم ، کمیونزم اور سوشلزم کی آڑ میں نظریہ پاکستان کو بھی مسخ کرنے
کی مذموم کوشش کی ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ عملی طور پر آئین پاکستان اسلامی
اصولوں پر استوار ہونے کے باوجود پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست نہیں بن
پایا ہے ۔ چند نام نہاد جمہوری سازشی اب اپنے اعمال اور کردار سے نمایاں ہو
چکے ہیں اور انہیں کی وجہ سے قرادادِ مقاصد کے تحت وقتاََ فوقتاََ جو
اقدامات تجویز کئے گئے ان پر خلوص دل سے عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے ۔یہ چند
ایک بدمعاشیہ انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین کو ترک کرنے کیلئے راضی نہیں
ہیں ۔ ہمارے ملک کا ایک طبقہ ملک کو سیکولر بنانے کیلئے کوشاں ہے ، جن میں
زیادہ تر نام نہاد انسانی و حقوق کی تنظیمیں سر گرم ہیں ، جن میں زیادہ تر
عورتوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والی نام نہاد تنظیمیں جو برابری کے حقوق
کی آڑ میں لبرل ہونے کا دعوے کرتی ہیں اور معاشرتی آزادی چاہتی ہیں لیکن یہ
صرف چند ہیں مٹھی بھر کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خواتین نہ تو لبرل
ہونا چاہتی ہیں اور نہ ہی اپنی نمائش کرتی ہیں اس لئے وہ نمایاں نہیں ہوتیں
اور یہ چند نمایاں ہو جاتیں ہیں ، اس کے علاوہ لبرل اور سیکولر ہونے کے
پیچھے ایک بڑا راز یہ بھی ہے کہ پاکستان اسلامی شریعت کے تمام تر اصولوں سے
آزاد ہو سکے ، جو کہ اس ملک کی تباہی کی بڑی وجہ ہے ۔ اس کے علاوہ افسوس کا
مقام ان علماء پر بھی ہے جنہوں نے اسلامی قوانین کی تشریح اپنے اپنے نقطہ
نظر سے کی ۔ اسلامی قوانین کو نافذ کرنے میں اسلام کے متعلق مختلف نعرے
لگائے جو تعصب سے بھرپور تھے جس سے اسلامی قوانین کے سلسلے میں ابہام پیدا
ہوا ۔ اس کے علاوہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جہاں مٹھی بھر بدمعاشیہ نے عوام
کو نا خواندہ رکھ کر اسلامی پاکستان کے آئین سے لاعلم رکھا وہیں یہاں کے
دوکاندار مولویوں نے بھی لوگوں کو قرآن سے دور کر کے خوب دوکانداری چمکائی
، یہ ایک بڑی وجہ ہے جو ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ میں رکاوٹ بنی ہوئی
ہے ۔ اگر ہم پاکستان کے خارجی اور داخلی حالات کا مبہم سا جائزہ لیں تو ہم
دیکھتے ہیں کہ دیگر کمزور اسلامی ممالک کی طرح پاکستان بھی صیہونی لابی کا
حصہ بن کر رہ گیا ہے ، نام نہاد حکمرانوں نے منی لانڈرنگ کی اور اشرافیہ سے
بدمعاشیہ کی ترقی کی ، ملکی خزانوں کو لوٹ کر دہشتگردی کو بڑھاوا دیا اور
ان کے ذریعے سیاست کے میدان میں اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنایا ،
پاکستان میں آج بھی بینکنگ سود پر چلتی ہے بلکہ زیادہ تر کاروبار ی اور
تجارتی معاملات میں سود کو بیع سمجھ کر حلال قرار دینے کی سازش کی جا چکی
ہے ، یہاں تک پاکستان مکمل ہونے والے پچھلے دس سالوں میں تمام منصوبے بھی
سود پر قرض اٹھا کر مکمل کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ پاکستان پر سختی اور
لعنت کی بڑی وجہ ہے۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان اس نہج پر ہے کہ نہ تو ستر
سال گزرنے کے با وجود اپنی شہہ رگ کو دشمن کے ہاتھ سے چھڑا پایا بلکہ اب
دشمن اسے سینڈ وچ بنا کر چبانے کیلئے تیار بیٹھا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن
ایسی کتاب ہے کہ اگر کوئی فرد اس کو اپنائے تو اسے عزت ملتی ہے ، کوئی قوم
اپنائے تو اسے عروج ملتا ہے اور اگر کوئی ملک اس کو نافذ کرے تو وہ امامت
کے منصب پر فائز ہوتا ہے ۔ اس لئے میری قارئین او ر اہل پاکستان سے تہہِ دل
سے گزارش ہے کہ اگر آپ پاکستان کو آنے والے وقت میں واقعی سپر پاور دیکھنا
چاہتے ہیں اور اہلِ اسلام کا قلعہ بنتا دیکھنا چاہتے ہیں تو آئندہ عام
انتخابات میں ووٹ صرف شرعی نظام ، پاکستانی آئین کے نفاذ کو دیں ۔ آخر میں
غزل کا مطلع پیش خدمت ہے :
یہ تمنا ہے حکومت کوئی انسان کرے
راج ہر دل پہ کرے اور مسلمان کرے
|