پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم
پر خواہشمند امیدوران بشمول منجھے ہوئے سیاستدانوں کے بیچ اندرونی تنازعات
اور باہمی رنجشیں کھل کر سامنے آگئی ہیں بلکہ تصادم اور ہاتھا پائی کی شکل
اختیار کر گئی ہیں جوکہ سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری رویے اورغیر منصفانہ
نظام کا منہ بولتا ثبوت ہیں اگرچہ سیاسی جماعتوں کا طریقہ کار اور منشور
واضح ہوتے ہیں مگر اقتدار اور در پردہ مفادات کا حصول پارٹی قیادت کو مجبور
کر دیتا ہے کہ وفاداروں اور سرمایہ داروں کو ترجیح دی جائے تاکہ پارٹی
مضبوط ہو ،مفادات کا تحفظ ہو اورزیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل ہو سکیں ۔
دوسری طرف لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کا آفتاب ِسیاست لب بام آگیا ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے میاں نواز شریف کو پائریٹس (بحری قذاق ) کا لقب
دیتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ برطانیہ میں مبینہ طور پر 21 لگژری املاک
کے مالک ہیں اور روسی مافیا نے اتنی مالیت کی جائیدادیں کئی دہائیوں میں
بنائی مگر شریف خاندان نے چند برسوں میں ارب پتیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
مہذب معاشروں میں سیاسی نظام معاشرہ میں مختلف النوع کے تنازعات ، انتشار
اورسیاسی اکھاڑ پچھاڑ کو ختم کرنے کا مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارا
سیاسی نظام بہت کمزور ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں نظریات نہیں شخصیات کے گرد
گھومتی ہیں۔ قیادت کی خواہشات ، مرضی اور خیالات کے مطابق جماعتیں
اپنامنشور اور قوانین مرتب کرتی ہیں اور ضرورت کے پیش نظر سیاسی اور ملکی
قوانین میں تبدیلی کرنا اپنا آئینی اور اخلاقی حق سمجھتی ہیں ۔ آئین تو
دکھاواہیں کیونکہ کسی بھی کارکن یا عہدے دار سے جماعتی آئین بارے سوال کر
کے دیکھ لیں وہ ادھر ادھر کی ہانکے گا کیونکہ آئین اور منشور نہ کسی نے
پڑھا ہوا ہے اور نہ کسی کو پتہ ہے ۔بلکہ ان کے اخلاص کا عالم یہ ہے کہ کہتے
ہیں کہ سینیٹرز صرف قانون بنانے کے لیے ہوتے ہیں اور جب اسمبلی میں بل پیش
کیا جاتا ہے تو اکثریت بل کی نوعیت اور درج شقوں سے لا علم ہو تی ہے لیکن
اتفاق رائے سے بل پاس ہو جاتا ہے۔ بقول سینیٹڑز کہ ہمیں اوپر سے کہا جاتا
ہے کہ بس ۔۔پا س کرنا ہے اور ہم پڑھے بغیر ہاں کر دیتے ہیں ۔جب جماعتوں کے
اندر جمہوری کلچر ناپید ہوگا ، قوانین کارکنان کے لیے ہونگے جبکہ منظور نظر
عہدے داران کو چھوٹ ہوگی اور حق داران کو ان کے حق سے محروم کیا جائے گا تو
یہ کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ منتخب سیاسی نظام میں عام لوگ اپنی ضروریات
کی تکمیل کے لیے اپنے مسائل کو مطالبات کی صورت با اختیار اداروں تک پہنچا
سکیں گے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ایکشن لیا جائے گا
؟ بس یہی وجہ ہے کہ گڈ گورننس کا خواب پورا نہیں ہو سکا اور یہی اعتراف
حکومتی منحرف رہنماء کر رہے ہیں ۔
صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں پارٹی ٹکٹوں پر بغاوت شدت پکڑ گئی ہے کہ
دیرینہ ساتھی اور قائدین بذات خود پگڑیاں اچھال رہے ہیں ۔ ریاستی اور سیاسی
دھڑے بندیاں سیاسی نظام میں دراڑیں ڈالنے کے لیے ہر سطح پر کوشاں ہیں ۔
جاوید ہاشمی،چوہدری عبدالغفورمیو اور چوہدری نثار کے بعد زعیم قادری کو بھی
ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا ۔جاوید ہاشمی اورچوہدری نثار حلیف ہیں یا حریف یہ
ابھی طے ہونا باقی ہے تاہم چوہدری عبدالغفور اور زعیم قادری تو سر عام کیچڑ
اچھال رہے ہیں اور زعیم قادر ی نے نئی سیاسی جماعت ’’پاکستان مسلم لیگ
نظریاتی ‘‘ تشکیل دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔دوسری طرف خیبر پختونخواہ میں
بھی بغاوت سر اٹھارہی ہے کہ سردار مہتاب عباسی کو ٹکٹ نہ دینے پر چار اور
صوبائی امیدواروں نے ٹکٹیں واپس کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔اب ان حالات کو
بھی بچے کچھے درباری سازش کا نام دے رہے ہیں ۔ویسے یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہے
کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس کا انتخاب مسلم لیگ ن نے خود کیا ،نیب آفیسر کا
انتخاب بھی غورو فکر کے بعد کیا گیا ،بس یہی نہیں بلکہ اعلیٰ عہدے داران
اور دیگر تمام افسران بالا کی بھرتیاں بھی شریف برادران کی مرضی اور منشا
سے ہوئیں کہ اپوزیشن جماعتیں بھی ناراض ہو گئیں اور مبصرین بھی چلا اٹھے کہ
پرانے رفقا اور دیرینہ ساتھی مقام پا رہے ہیں اور لیگی حکومت مضبوط کی جا
رہی ہے مگر ۔۔پھر وقت کی گھڑیوں نے دیکھا کہ لیگی قائدین اور انکے قریبی
رفقاء انھی دیرینہ ساتھی افسران اور اداروں کے خلاف بیانات داغنے لگے اور
سرد جنگ نے بیان بازی کی شکل اختیار کر لی مگر عوام کا وقت برباد کرنے کے
سوا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا اور اب بھی ملکی منظرنامہ واضح نہیں ہے کہ
بظاہر مسلم لیگ ن کے لیے ماحول کشیدہ ہے درحقیقت اندرون خانہ ڈھیل دی جا
رہی ہے ۔ویسے بھی انتخابات تک کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ پرانے سیاسی کاریگر
سیاسی میدان عمل میں موجود ہیں ۔
اگر موروثی سیاست کی بات کی جائے تو کہنا پڑے گا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں
اپنے خاندانوں کے گرد ہی گھومتی ہیں اور اس بار بھی ڈنکے کی چوٹ پر اپنوں
کو پارٹی ٹکٹ بانٹے گئے ہیں ۔مسلم لیگ ن کی طرف سے میاں نواز شریف اور ان
کی اہلیہ کے علاوہ دیگر’’ الیکٹ ایبلز‘‘خاندانی افراد بطور امیدوران ن لیگ
کی طرف سے میدان میں اتر چکے ہیں ۔دوسری طرف پیپلز پارٹی سے آصف علی زرداری
اور ان کی دو بہنیں ،بہنوئی اور بیٹا انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اورکہا
جا رہا ہے کہ اگر بلاول بھٹو لاڑکانہ اور لیاری سے منتخب ہو جاتے ہیں تو
بلاول بھٹو لاڑکانہ کی سیٹ اپنے پاس رکھیں گے جبکہ لیاری کی سیٹ پر ضمنی
انتخابات ہونگے جہاں سے ان کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ضمنی
الیکشن میں حصہ لیں گی ۔اسی طرح سید قائم علی شاہ جو کہ قائم بھی نہیں ہیں
وہ اوران کی صاحبزادی دونوں الیکشن لڑیں گے۔یعنی ہمیشہ کی طرح ٹکٹ پرانے
سیاسی گھرانوں میں تقسیم کئے گئے ہیں کہ ایک ہی خاندان کے 3 افراد اور کہیں
4 افراد کوعطا کر دئیے گئے ہیں ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کل حکمران تھے آج
ان کے بھائی ،بہن اور بچے حاکمیت کی دستاریں پہنے سیاسی میدان میں اتر چکے
ہیں ۔تحریک انصاف جو کہ ہمیشہ میرٹ اور موروثی سیاست کی بات کرتی ہے وہاں
بھی صورتحال مختلف نہیں ہے بلاشبہ عمران خان کے خاندان کا کوئی شخص ٹکٹ
حاصل نہیں کر سکا مگر دیگر پارٹی عہدے داران کے بھائی اور بیٹے ٹکٹ لینے
میں کامیاب ہو چکے ہیں بلکہ ایک ہی خاندان( جتوئی اورساہی خاندان) کو چار
چار ٹکٹیں دے دی گئی ہیں اور دوسری جماعتوں سے آنے والے موقع پرستوں کو کسی
تحقیق کے بغیر ٹکٹیں دی گئی ہیں مگر اپنے نظریاتی جانثار کارکنان اور
اکابرین کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ مخصوص نشستیں بھی حق داروں
کو نہیں مل سکیں اس نا انصافی کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پارٹی ٹکٹس
’’الیکٹ ایبلز‘‘ کو دئیے جا رہے ہیں ۔ جس پر طاہر القادری توکپتان پر برس
پڑے ہیں کہ ’’ تبدیلی کی بات کرنے والو سنو !اگر الیکٹ ایبلز ہی تمہاری
مجبوری تھے تو 20 کروڑ کو ذلیل کیوں کیا ؟ تماشا کیوں لگایا ؟ دھرنا کیوں
دیا ؟‘‘اب مولانا طاہر القادری کو کوئی کون سمجھائے کہ سیاست ریاضت نہیں
بلکہ ایک شعبدہ بازی کا نام ہے ۔
عمران خان کہتے ہیں کہ جو اہل ہوگا وہی اوپر آئے گا اور اہلیت کا اندازہ
اسی سے لگا لیں کہ جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دیا گیا تھا جو کہ تعلیمی
عذر ظاہر کرتے ہوئے پیچھے ہوگیا ہے اور تب سے خان صاحب نعرہ لگا رہے ہیں کہ
انکی جماعت میں موروثیت نہیں ہے یہ بات ان کی اپنی ذات تک تودرست ہے مگر ان
کے منشور کے مطابق اہل لوگوں اور جانثاروں کو جیسے نظر انداز کیا گیا ہے وہ
مورثیت سے بھی بدترین مثال ہے ۔ علاوہ ازیں جماعت اسلامی میں بھی گروہ بندی
دیکھنے میں آرہی ہے ۔۔المختصر سیاسی جماعتوں نے جیت کی امید پر نظریات اور
میرٹ کو قربان کر دیا ہے لیکن سیاسی صورتحال واضح نہیں ہے اور اقتدار کا
ہما کس کے سر پر بیٹھے گا یہ کہنا بہت مشکل ہے مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ
آئندہ بھی اشرافیائی جمہوریت ہوگی جس میں جمہور کے ہاتھ وعدوں کے سوا کچھ
نہیں آئے گا ۔
قارائین کرام ! جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ کل تلک پانامہ لیکس اور لندن
فلیٹس پر ہنگامہ بر پا تھا اور شریف خاندان مذکورہ اثاثوں کو سازش اور من
گھڑت کہانیاں قرار دیتا رہامگر پھر مریم بی بی نے کروڑوں کی جائیدادیں
کاغذات نامزدگی میں ظاہر کردیں اور اس بات کے ثبوت بھی احتساب عدالت میں
پیش کر دئیے گئے کہ میاں نواز شریف ہی لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں اور
انھوں نے اپنے بچوں کے نام پر تمام املاک خریدی ہیں ۔ابھی عوام اس سچ کو
ہضم نہ کر پائے ہیں کہ ڈیلی میل اخبار نے شریف خاندان کے اثاثوں کے حوالے
سے نیا دعوی کر دیا ہے جس کے مطابق شریف خاندان نے چار پر تعیش فلیٹس خریدے
جن کی مالیت سات ملین پونڈ تھی اور اپنا عالیشان محل تعمیر کیا ۔جس میں
میاں صاحب کے دو بیٹے ،بیٹی اور داماد حصہ دار ہیں ۔اخبار لکھتا ہے کہ شریف
خاندان کے پاس لندن فلیٹس کے علاوہ لندن کے پوش علاقوں میں بھی 21
جائیدادیں ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ اس قدر مہنگی جائیدادیں روسی حکومتی مافیا
نے کئی دہائیوں میں بنائی اور ان جائیدادوں کی قیمت اس وقت کم ازکم 32 ملین
پونڈ ہے ۔شریف خاندان کا دفاع کرنے کے لیے تاحال کوئی سامنے تو نہیں آیا
البتہ مبصرین کے مطابق اگر اخبار جھوٹا ہے تو میاں صاحب کو چاہیے کہ ہتک
عزت کا دعوی کریں اور اپنی عزت بچائیں مگر خود کردہ اعلاجے نیست ۔۔یہی وجہ
ہے کہ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کے مصداق نظریاتی جانثار اعلانیہ کہہ
رہے ہیں کہ ہم چاک گریبان گھومیں گے تو بہت پچھتاؤگے اور سیاسی جانثاروں کا
کہنا ہے کہ :
ہم کوئے ملامت سے آگے گزر آئے ہیں یارو ۔۔۔اب نہ چاک رہا ہے اور نہ گریبان
رہا ہے |