انتخابات2018 گیم چینجر ثابت ہونگے

حالیہ انتخابات ،سابقہ انتخابات کے مقابلے میں سیاستدانوں اور عوام کے لیے دن بدن حیرت انگیز اور عجیب صورت حال کا شکار ہوتے جارہے ں ہیں عوام کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بعض محبوب امیدواروں کو یا تو ٹکٹ نہیں مل رہی اور گر ٹکٹ مل رہی ہے تو سابقہ جماعت کو چھوڑنا پڑھ رہا ہے، کچھ عوام اس لیے پریشان ہیں کہ ان کے محبوب امیدوار کو کسی جماعت نے ٹکٹ نہیں دیا اور وہ بنا کسی جماعت کے آزاد الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور اسی طرح سیاستدان بھی عوام کے بدلتے ہوئے رویئے سے پریشان ہیں جبکہ پہلے پہل عوام سیاستدانوں کے رویئے سے پریشان ہوا کرتے تھے لیکن اب ہوا کا رخ بدل چکا ہے لگتا ہے عوام کو کچھ زیادہ ہی شعور آگیا ہے اب تاجا آتا ہے اور قومی امیدوار کے سپورٹران سے کہتا ہے کہ میرے تین مرلے کے مکان پہ فلاں پارٹی کا قبضہ ہے آپ اس سے قبضہ چھڑوادیں تومیرے گھر کے پانچ ووٹ پکے آپ کے او ر پھر اچھو آتا ہے اور بولتا ہے جو بھی امیدوار ہمارے محلے میں آیا اس نے سولنگ ہی لگوایا آپ ہماری گلیاں کنکریٹ سے بھردیں اور واٹر سپلائی دے دیں تو پورے محلے کے ووٹ آپ کے امیدوار کو دیئے جائیں گے۔اچھو الفاظ میں مزید اضافہ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ پیش کش تمام امیدواروں کے لیے ہے۔امیدواروں کے پاس پیش کشیں قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے وہ پیش کشیں قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن تاجے اور اچھو کا مطالبہ ہے کہ ہمارے کام الیکشن سے پہلے کروائیں جائیں امیدوار کہتے ہیں کہ آپ کے کام، منتخب ہونے کی صورت میں پارٹی فنڈ سے کروائیں جائیں گے جس پہ تاجے اور اچھو نے صاف جواب دیا کہ ،، ناں صاحب جی ناں، ، بعد میں ہمیں آج تک کسی نے پوچھنا بھی کبھی گوارا نہیں کیا یہ تو کام نہ کرنے والی بات ہوئی۔ اور امیدوار حیرت کے طلسم میں گم ہوجاتے ہیں کہ پہلے تو کبھی تاجے یا اچھو نے اس طرح کی بات نہ کی تھی اب حالات کیسے پلٹا کھا گئے۔ جو کچھ ان انتخابات میں دیکھنے کو مل رہا ہے پہلے اس کا عشر عشیر بھی نہ تھاجیسے جیسے پچیس جولائی قریب آرہی ہے ویسے ویسے ہی منظرنامہ سرعت اندازی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہے کوئی فرد واحد بھی آئیڈیالوجی دینے سے قاصر ہے کہ اس دفعہ انتخابات میں یقینی فتح کس پارٹی کے مقدر میں آسکتی ہے پھر بھی کچھ لوگ اپنا اپنا قیاس یا تجزیہ کسی نہ کسی پارٹی پرلازما تھوپ رہے ہیں کہ ٖ فلاں پارٹی فتح یاب ہوگی، حالانکہ مزکورہ حالات میں ان کا قیاس اور دلیلیں کافی حد تک درست سمت میں نظر آتی ہیں لیکن منظر نامے اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ تجزیہ کار اپنے تجزیئے میں تبدیلی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اس دفعہ سیاستدانوں اور عوام کی طبع میں واضح فرق دیکھنے کو ملاجب بلاول بھٹو زرداری صاحب لیاری میں الیکشن کی کمپین کے لیے پورے پروٹوکول سے داخل ہوئے تو ان کا سواگت مشتعل عوام نے پتھروں سے کیا،مظاہرین کا ایک ہی نعرہ تھا ،،ووٹ چاہیے تو پانی دو،، ۔پتھراؤ کے باعث لیاری کا علاقہ میدان جنگ بن گیا اور تاک تاک کے نشانے مارے گئے جس سے ان کی کچھ قافلہ گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے اور دینا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کیونکہ سلطنت سندھ میں ایک نوابزادے سے ایسا سلوک متصور کرنا ممکن نہیں تھالیکن آسمان نے یہ نظارہ بھی دیکھاہے۔لیاری کے لوگ بھی کب تک پیاسے رہیں! کیا وہ انسان نہیں؟،ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے انسان ایک ٹانگ اٹھا کے تو کھڑا ہوسکتاہے لیکن دونوں ٹانگیں نہیں اٹھا سکتا اسی طرح لیاری کے لوگ خود تو پانی کے لیے ترستے رہے ہیں لیکن اب وہ اپنی اولاد کو وراثت میں ایسی پیاسی زندگی نہیں دینا چاہتے وہ ان کا حق حاصل کرنے کے لیے موت سے بھی لڑ سکتے ہیں یہ ایک گیم چینجر تبدیلی ہے جس سے سندھ میں تبدیلی کی فضاء پنپتی دکھائی دیتی ہے اور ایسا صرف سندھ میں ہی نہیں ہے ایسا مزاج چاروں صوبوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔حال ہی میں ایک معروف سیاستدان محترمہ کو ان کے ہی حلقے میں ایک اماں جی نے جوتیوں پہ دھرلیا گاڑی میں بیٹھی سیاستدان محترمہ نے بڑی مشکل سے اماں جی کا ہاتھ پکڑا ،ورنہ اماں جی کے پتا نہیں کیا کیا ارمان تھے جو پورے ہونے سے رہ گئے ۔ دیکھا جائے تو ایسی صورت حال ایک سیاستدان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ،قارئین شائد مجھ سے زیادہ ایسی حالیہ مثالوں سے واقف ہونگے۔

جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہوکر پچھتانے والے وہ امیدوار جن کو ٹکٹ نہیں ملی تھی ان میں سے کچھ امیدوار اب آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں اور تحریک انصاف ان امیدواروں کو باغی قرار دینے کے علاوہ ان کے خلاف ایکشن لینے کا ارادہ رکھتی ہے تحریک انصاف نے دو رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو ڈسپلن کے خلاف کاروائی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرے گی۔ترجمان تحریک انصاف نے بیان دیا ہے کہ امیدواروں نے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں الیکشن نہ لڑنے کا حلف نامہ جمع کروایا تھا،یہ نظم و ضبط اور آرٹیکل 62 , 63 کی بھی خلاف ورزی ہے اور یہ رپورٹ تحریک انصاف کے چیرمین کو پیش کی جائے گی۔ کیا منفرد اسٹائل ہے خان صاحب کا ایک تو ٹکٹ نہیں دی اوپر سے بندہ آزاد بھی الیکشن نہیں لڑسکتا ،واقعی خان صاحب نے لونگ سکسر مارا ہے کیا ہی یاد کریں گے پی ٹی آئی جوائن کرنے والے بھی کہ کس جماعت سے پالا پڑا ہے پھر فلمی ڈائیلاگ یاد آگیا ،،یہ ایک ایسا دھندہ ہے صاحب جس میں تم اپنی مرضی سے آ تو سکتے ہو لیکن اپنی مرضی سے جا نہیں سکتے،، ۔تبدیلی ہو تو ایسی، گیم چینجر۔

کیا ہی دلچسپ صورت حال ہے کہ ملک میں دو بڑی جماعتوں ، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کوٹکٹ دینے کے لیے امیدوار نہیں مل رہے یہ تبدیلی کا کچھ سالوں پہلے سوچنا بھی ممکن نہیں تھاایسے میں نئی سیاسی جماعت تحریک لبیک نے ملک بھر سے 173 امیدوار میدان میں اتارے ہیں او ر بلاشبہ یہ بہت بڑی تعداد اور حیران کن تبدیلی ہے فیض آباد دھرنے سے شہرت حاصل کرنے والی تحریک لبیک پاکستان بھر سے بھر پور طریقے سے حالیہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، ایک نووارد جماعت کااتنی کثیر تعداد سے امیدواروں کا میدان میں اتارنا اور دو پرانی جماعتوں کا ٹکٹ دینے کے لیے امیدواروں کو ڈھونڈتے پھرنا آئندہ انتخابات میں بڑی گیم چینجر تبدیلی کی طرف واضح اشارہ ہے اور پھر آئندہ پانچ سالوں میں نئی نسل کی کثیر تعداد بھی شامل ہوگی جس کا ووٹ بھی قومی انتخابات کا حصہ بنے گا اور یہ نئی نسل کچھ زیادہ ہی اکتاہٹ کا شکار ہے اور ہم پرانے لوگوں سے بھی زیادہ تبدیلی کی بھی خواہش مند ہے۔فی الوقت تجزئیے کے تناظر میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے لیکن تحریک لبیک کی کثیر تعداد کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس کے علاوہ نئی نسل کے ووٹ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ،ان سب باتوں کے تناظر میں اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات گیم چینجر ثابت ہونے والے ہیں

Ghulam Mustafa
About the Author: Ghulam Mustafa Read More Articles by Ghulam Mustafa: 12 Articles with 8292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.