قاتل ہار گیا اور شجاعت فتح یاب ہوا

عید سے صرف دوروز قبل افطاری کے موقع پر ایک نوجوان میرے پاس آیا اور کچھ بولنے کے بجائے ’’وٹس اپ نیوز گروپ‘‘کھول کر یہ خبر دکھانے لگا کہ ’’شجاعت بخاری صاحب‘‘نامعلوم بندوق برداروں کی گولیوں سے زخمی ہو گئے قبل اس کے کہ میں اسے کچھ پوچھتا ٹھیک اسی بیچ امام صاحب مصلے پرچڑھ کر مغرب کی نماز پڑھانے کے لئے محراب کی جانب بڑھے ۔نماز مغرب کی تین رکعت ادا کرتے ہی میں نے پھر اس نوجوان سے پوچھا کیا یہ خبر سچ ہے ؟اس نے ہاں یا نا کے بجائے پھر موبائل فون پر وٹس اپ کھول کر دکھایا کہ شجاعت صاحب زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے اورمیں حیران و پریشان یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر اچانک یہ سب کیسے ہو گیا ۔میں اعتکاف میں تھا اور فون حسب معمول بند رکھا تھا لہذا میں نے کئی اور عزیزوں سے جب اس کی تصدیق کرانا چاہی تو پتہ چلا کہ یہ خبر افواہ نہیں بلکہ ایک سچی مصدقہ خبر ہے ۔کئی نوجوان جو اس بات سے واقف تھے کہ میں عرصہ دراز سے ’’روزنامہ بلند کشمیر ‘‘اور ’’کشمیر پرچم ‘‘کے لئے مستقل کالم لکھتا ہوں اور وہ مستقل پڑھتے ہیں میرے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ میں بے چینی کے عالم میں انہیں کچھ بتانے سے قاصر تھا یہاں تک کہ ایک ’’استاد‘‘میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ٹیلی ویژن چینلز پر اس قتل کی تصدیق آرہی ہے کہ شجاعت صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔میں سناٹے میں آگیا کہ آخر ایسا کیوں ہوا اور ایسا کیوں کیا گیا؟

میں نے نوجوانوں کے استفسار پر انہیں بتایا کہ کل کے اخبارات میں ہر عسکری اور سیاسی تنظیم کی طرف سے اس بہیمانہ قتل پر مذمت شائع ہوگی اورحکومت تحقیقات کا اعلان کرے گی اور تیس سال کے تجربے کی روشنی میں بلا خوف جھجک میں یہ کہوں گا کہ نا ہی قاتل کا سراغ ملے گا نا ہی کبھی یہ پتہ چلے گا کہ شجاعت صاحب کو کس نے اور کیوں قتل کیایہاں تک روزِ قیامت کو اﷲ تعالیٰ اس پر سے پردہ اٹھا لے گا۔ نامعلوم بندوق بردار’ دیو‘یوں تو ہزاروں انسانوں کواب تک نگل چکا ہے اور مستقبل میں بھی ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے کس کس پر نشانہ سادھ لیا ہوگامگر اب کی بار قاتل مکمل طور پر ہار گیا اس لئے کہ اس کے منہ کو لگا کشمیری خون اس کو باربارکسی نہ کسی کشمیری کو قتل کردینےء پر اُکساتا ہے مگر آج جس شخصیت کا اس نے انتخاب کیا اس کے خون نے عالمی سطح پرکشمیر کے دردمندوں کا ضمیر جھنجوڑ کے رکھ دیا ۔

ایک قوم کی سب سے بڑی بد قسمتی یہی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں علماء،حکماء اور دانشوروں کی قیمت گٹھ جائے ۔یہ ایک بدترین انحطاط کی خوفناک ابتدأ ہو تی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علماءٔ ،قلمکاروں،صحافیوں اور دانشوروں کی اہمیت اور عظمت کا اعتراف ہر مذہب اور فکر کے لوگ یکساں طور پر کرتے ہیں ۔دنیا میں شاید ہی کوئی مذہب ہوگا جس نے ان کی اہمیت اور عظمت کا اعتراف نہ کیا ہو گا ۔امام غزالی فرماتے ہیں کہ انسانوں اور جانوروں کے بیچ اصل فرق صرف علم کا ہے ۔جب بھی کسی قوم نے ترقی کی اور اس نے دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کیا ا س میں بلواسطہ یا بلاواسطہ علما ء،قلمکار اور دانشور ہی پیش پیش رہے ہیں جو قومیں ثریا سے گر کر اسفل سافلین میں جا گری اس میں بھی علماء کے گرتے کردار اور اخلاق ہی اسکی بنیادی وجہ رہی ہے ۔قوموں کے عروج و زوال میں جہاں کئی اہم سیاسی اور عسکری اسباب بہت اہمیت رکھتے ہیں وہی ایک اہم ترین سبب دانشوروں اور علماء سے تعلق رکھتا ہے ۔

یورپ کی ترقی میں ان کے قلمکاروں اور دانشوروں کابڑا عمل دخل ہے ان کے ہاں تمام شعبوں میں ان کو ’’بلند مقام ‘‘حاصل ہے ۔اس کے برعکس جہاں بھی زوال ہے اور قنوطیت کا سیلاب چل پڑتاہے وہاں اس طبقے کی بے عزتی ایک معروف اور محبوب چیز ہے ۔مسلم ممالک میں اس کی مثال سید قطب شہید اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہے ۔میں علماء صرف دینی علما کو ہی نہیں سمجھتا ہوں میں ہر اس شخص کو عالم کہتا ہوں جو کسی علمی میدان میں ماہر ہو۔علماءِ دین کی اہمیت سے انکار نہیں اور نہ ہی علماءِ دنیا ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اس لئے کہ در حقیقت علما وہی ہیں جو حقیقت پاتے ہیں اور حقیقت کی رہنمائی کرتے ہیں اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اﷲ تعالیٰ کی ذات با برکت ہے، علماءِ دین اسی حقیقت کی رہنمائی کرتے ہیں لہذا ان کے مقام اور مرتبے سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اسی طرح علوم دنیا کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں لہذا ہر وہ عالم دنیا بھی قابل احترام ہے جو اپنے علم اور فن سے انسانیت کی خدمت کرتا ہے ۔

جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے یہاں بھی عسکریت کے شروع ہوتے ہی عالم اسلام کی تقلید کرتے ہوئے علماء اور دانشوروں کی توہین کابدترین کھیل شروع کیا گیا۔ اس ’’عالمی گمراہی کے بد بختانہ ایجنڈے‘‘کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے اب حال ہی میں ’’شجاعت بخاری صاحب ‘‘کو نشانہ بنایا گیا ۔یہ ایک عجیب اور بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ بعض لوگ اس مسئلے پر ہم سے بحث کا شوق رکھتے ہیں مجھے ان کی عقل و دانش پر حیرت ہوتی ہے ۔کہ کسی کے قتل پر بحث کی جائے تو کس ناحیے سے ؟؟؟اسلام نے تین افراد کے قتل کے علاوہ کسی اور صورت کو حرام قرار دیا ہے نمبر ایک ارتداد،نمبردو شادی شدہ کا ارتکاب زنااور نمبر تین قتل ناحق کرنے والا۔میں حیران ہوں کہ بعض لکھے پڑھے لوگ بھی جنون میں مبتلا ہو کر احترام انسانیت سے بے بہرہ نظر آتے ہیں اور ان میں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ وہ ہم سے جس مسئلے پر خیالات سے غلط طریقے پر اتفاق رائے چاہتے ہیں وہ کسی بھی طرح لائق توجہ نہیں ہے ۔جہاں تک افراد کی ’’بدتر سے بدتر ‘‘غلطی کا تعلق ہے اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ قومی کاز کو مدِنظر رکھتے ہوئے قوم کو اسے باخبر کیا جائے تاکہ قوم خود ہی صحیح اور غلط کا فیصلہ کرے۔اس کا فیصلہ سوشل میڈیا کے شہسوار نہیں کر سکتے ہیں جو اپنی اصلیت چھپا کر دوسروں کی کردار کشی کے لئے جاسوسوں کا روپ دھار کر نقلی شناخت کو بنیاد بنا کر اپنے قومی درد کا اظہار کر لیتے ہیں ۔دنیا میں کسی بھی فرد کو غلط ثابت کرنے کا یہ طریقہ صرف اور صرف ’’پروپیگنڈے‘‘کے زمرے میں آتا ہے ۔مسلمہ رائج طریقوں کے برعکس جو طریقہ کشمیر کے علماء ،دانشوروں ،ادیبوں ،لیڈروں ،صحافیوں اور قلمکاروں کو اپنی عوام میں ذلیل کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے یہ صرف اور صرف کشمیری قوم سے عداوت اور دشمنی کا طریقہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

یہ طریقہ کشمیریوں کو خوف زدہ کرنے کا ایک پرانہ طریقہ ہے جو ’’نامعلوم بندوق بردار دیو‘‘کے باربار آزمانے سے اب مکمل طور پر عریاں اور بے پردہ ہو چکا ہے ۔کشمیر میں ہی نہیں شاید ہی دنیا کا کوئی خطہ ہو جہاں اختلاف رائے نہ پایا جاتا ہومگر یہاں صورتحال ہی مختلف پائی جاتی ہے یہاں ایک دوسرے کی رائے کو برداشت کرنے کا مادہ ہی ختم ہو چکا ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر برداشت کرنا تو درکنار ایک دوسرے کے ساتھ ناقابل یقین نفرت اور عداوت پائی جاتی ہے اور اس میں ہم سب لوگ ملوث ہیں اور جب اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو حیرت انگیز طور پر اسی شخص کی نفرت پیدا کی جاتی اور اسکے ساتھ دشمنوں کا ساسلوک روا رکھاجاتا ہے ۔عسکریت بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے کشمیر کے لوگوں نے مغلوں ،افغانوں ،سکھوں اور ڈوگروں کے ساتھ طویل جنگیں لڑی ہیں مگر آج کی عسکریت کو بعض لوگوں نے نہ صرف قلمکاروں اور صحافیوں کے خلاف استعمال کیا بلکہ ریاست کے معروف دانشوروں اور سماجی کارکنوں کو بھی بخشا نہیں گیا ۔حیرت انگیز طور پر ہم جس جنگ کو ایک ریاست کے شہریوں کی جنگ قرار دے رہے ہیں اس میں خوش دلی کے ساتھ تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ چلانے میں ناکام رہے ہیں۔حالانکہ آزادی کی تحریکیں افراد نہیں قومیں چلاتی ہیں ان میں ہر ہر فرد کی ضرورت ہو تی ہے بلکہ کہنا چاہئے شمولیت ناگزیر ہو تی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی شجاعت صاحب جیسی کسی شخصیت پر حملہ کیا جاتا ہے تو عوام میں ایک طبقہ غیروں کے بجائے اپنوں ہی پر شک کرنے لگتا ہے ۔

ہماری بحیثیت قوم بدقسمتی یہ ہے کہ ہم دو حصوں میں منقسم ہیں ۔دونوں حصے دو ملکوں کے قبضے میں ہیں پاکستان اور ہندوستان ۔دونوں ملکوں کی دشمنی کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو اٹھانا پڑا ہے ۔دونوں ممالک ،ان کے حکمران،افواج اور ایجنسیاں کشمیریوں کو اپنے من مزاج کے مطابق چلانے میں کوشاں رہتی ہیں ۔ کشمیریوں کا بحیثیت آزاد انسان جینے کا بھی حق چھینا جاتا ہے اور اگر کسی نے اختلاف کرنے کی کوشش کی تو پھر اس کی خیر نہیں ،یہ غداری اور بغات تصور کی جاتی ہے جس کی کم سے کم سزا موت ہے ۔پاکستان اور ہندوستان کے بیچ دشمنی تو معروف ہے مگر ان کی دوستی کی مثالیں بھی انوکھی ہیں ۔ان کے جاسوس تو مل کر کتابیں لکھ سکتے ہیں مگر دونوں طرف کے وہ کشمیری اپنے مسئلے کے لئے ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے ہیں جن کے ہزاروں لوگ اب تک پاک بھارت دشمنی کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ وہ یہ مطالبہ نہیں کر سکتے ہیں کہ ہم ایک ایسے’’ منحوس صورتحال‘‘میں جینا نہیں چاہتے ہیں جس میں تنازع کشمیر اپنی شکل میں موجود ہو تاکہ ہماری نئی نسلیں محفوظ رہ سکیں ۔پاک بھارت ایک حد تک مسئلہ کشمیر پر ایک دوسرے سے الجھ سکتے ہیں مگر اس حد تک نہیں کہ دنیا اپنا دباؤ ان پر قائم کرنے لئے آگے آجائے ۔گویا ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم دو انتہاؤں کے بیچ ہی رہیں رہی بات حل کی تو فی الحال بڑے لوگوں کا موڈ اچھا نہیں ہے ۔

بد قسمتی سے کشمیری اس صورتحال میں پھنس چکے ہیں کہ وہ اسے الگ بھی نہیں رہ پاتے ہیں اور ان میں اپنی مرضی سے اصلاح بھی نہیں کر پاتے ہیں ۔انہیں دو میں سے ایک کا لا محالہ انتخاب کرنا پڑتا ہے کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے ۔جنگی جنون اور جنگ زدگی کا عالم یہ ہے کہ انسانی جانوں کی حرمت کا کوئی خیال نہیں کیا جاتاہے اور بھارت ہر کشمیری کو پاکستانی تصور کرتے ہو ئے ختم کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے رہی ’’مجاہد تنظیمیں ‘‘ان کے اصول اور منہج غیر ریاستی کارکنان کے ہیں جن کے لئے حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ بسااوقات ان سے بھی تساہل ہوجاتا ہے مگر انسانی جان اتنی سستی نہیں ہوتی ہے کہ اس مسئلے میں تساہل برتا جائے چاہیے معاملہ میر واعظِ کشمیر کا ہو یا قاضی نثارکا ۔پھر بات یہاں تک پہنچ جائے کہ خود حریت لیڈران کھلے عام یہ کہتے پھررہے ہیں کہ انہیں’’ غیر نہیں اپنے‘‘ ہی مارتے ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اپنے اپنوں ہی کے ہاتھوں بھی کب تک مرتے رہیں گے ۔پولیس بیان کا معاملہ نہیں عوامی سطح پر ایک بڑا طبقہ یہی خیال کرتا ہے کہ شجاعت صاحب کو شاید ٹریک 2پر سرگرمی کی سزا دی گئی اس لئے کہ ٹریک 2پر کام کرنے حق صرف ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کو حاصل ہے کشمیریوں کو نہیں اس لئے کشمیری دو ممالک کے ملازم اور نوکر ہیں کوئی قوم یا ملت نہیں ۔معاملات تب اوربھی مشکوک ہو جاتے ہیں جب پاکستان سے اپنی اصلیت چھپا کر خفیہ اکاونٹس چلانے والے لوگ ’’وادی کشمیر‘‘میں رہنے والے قلمکاروں اور صحافیوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلاتے ہیں یا انہیں دھمکیاں دیتے ہیں ۔

حیرت انگیز طور پر 22جون 2018ء کو جموں میں سابق ریاستی وزیر لال سنگھ نے کشمیر کے صحافیوں کو حدود میں رہنے کی دھمکی دیتے ہو ئے کہا کہ اگر کشمیری صحافیوں نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو انہیں شجاعت بخاری جیسے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا گویا کہ لال سنگھ کو معلوم ہے کہ شجاعت صاحب کو کس نے اور کیوں قتل کردیا ۔لال سنگھ کے بیان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ شجاعت صاحب کشمیریوں کے بہی خواہ تھے اور انہیں اپنی قوم سے محبت ،ہمدردی اور وکالت کی سزا دی گئی ہے ۔کشمیر کی صورتحال سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ لال سنگھ انتہائی شرپسند انسان ہے اور اس کے زبان بولتے ہو ئے قابو میں نہیں رہتی ہے اور بسااوقات وہ سچ بھی بول دیتا ہے جس سے بسااوقات حکومت کو بھی پشیمانی اور پریشانی کا شکار ہونا پڑا ہے ۔البتہ شجاعت صاحب کے حوالے سے اس کے بیان نے ایک نیا ہنگامہ ہی نہیں بلکہ مسئلہ کھڑا کردیا کہ جو پولیس اس کو پاکستان اور ملی ٹینٹ کاروائی قرار دیتی ہے اس کو اب لال سنگھ سے بھی تفتیش کرنی چاہیے کہ آخر اس نے ہر کشمیر صحافی کو شجاعت بخاری مرحوم کے انجام سے دوچار ہونے کی دھمکی کیوں دے ڈالی ممکن ہے انہیں کوئی ایسا سراغ ملے جائے جو قاتلوں تک پہنچنے میں مدد کرے گا ۔

کسی صحافی،دانشور،قلمکاریا عالم کوحریت یا مجاہدین سے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے مگر ہمیں بھی احتیاط سے کام لیتے ہو ئے دوسروں کا خیال رکھنا چاہیے ایسا نا ہو کہ اختلاف کرتے ہو ئے حریت یا مجاہدین کو یہ احساس ستانے لگے کہ ہم تجزیہ و تحلیل کرتے ہو ئے تحریک دشمنوں جیسا کام کرتے ہیں ۔شجاعت صاحب باصلاحیت قلمکار،صحافی اور اہل کشمیر کے دردوکرب کو لیکرکچھ کرنے کے لئے کوشاں رہنے والے ایک ذہین انسان تھے مگر ان کے دوستوں کے ساتھ ساتھ ان کی شہرت سے خائف بہت سے دشمن بھی پیدا ہو چکے تھے جنہوں نے ان کے خلاف پروپیگنڈے کہ ایک مہم شروع کر رکھی تھی اسی مہم کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت اس قتل کو مجاہدین کی تردید کے باوجود بھی انہی کے سر ڈال دیتا ہے ۔سید صلاح الدین احمد کی تردیداور بین الاقوامی سطح کی تحقیقات کے مطالبے کے باوجود ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنے تمام تر وسائل و ذرائع کو بروئے کار لاتے ہو ئے براہ راست قاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں قوم کے سامنے ننگا کردیں تاکہ یہ قوم غلط فہمیوں کے بھنور میں پھنس نہ جائے اور اس کو اپنے اور غیر کا فرق محسوس ہو ۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ بعض لوگ شجاعت صاحب کی کشمیریوں کے حق میں بین الاقوامی سطح کی کوششوں اور انسانی حقوق پر دلی کو آڑے ہاتھوں لینے کو ان کے خفیہ قتل کی وجہ قرار دیتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ایڈوکیٹ جلیل اندرابی کو انتہائی خفیہ انداز میں قتل کیا گیا تھا سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں مقتول کے ورثا کس طرح قاتلوں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے سچائی یہی ہے جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ شاید قیامت سے پہلے قاتلوں کا پتہ نا چلے گر چہ قتل کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ دیر یا سویر اپنے قاتل کا پتہ بتا ہی دیتا ہے ۔ہم بھی اﷲ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ دیر یا سویر قاتلوں کو ننگا کردے گااور انہیں اپنے دستِ قہر سے انجام تک پہنچا دے گا گر چہ وہ انتہائی محفوظ مقامات پر قلعہ بند جگہوں میں محفوظ ہوں گے ۔ قاتل کی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ جیت گیا بالکل نہیں وہ ہار گیا شجاعت صاحب فتح یاب ہو ئے اس لئے کہ جس مولیٰ کے ہاں وہ اپنا زخمی جسم لیکر پہنچے ہیں وہ مولیٰ انسانوں کو انسانوں کے قتل کا اختیار نہیں دیتا ہے سوائے تین ناگزیر صورتوں کے اور وہ بھی حکمران کی عدالت کو نہ کہ فرد یا کسی سرکاری یاغیر سرکاری تنظیم کو۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93683 views writer
journalist
political analyst
.. View More