۲۶۹۱ ایک ایسا سال ہے جس میں
بھارت نے چین پر جارحیت کا منصوبہ بنا یا اور چین کی سرحدی چو کیوں پر حملہ
کر دیا ۔ بھا رت کو چین کے ہا تھوں جس طرح ذلت آ میز شکست کا سامنا کرنا
پڑا اس نے بھارت کے تو سیع پسندانہ عزا ئم کو وقتی طور پر روکنے میں بنیا
دی کردار ادا کیا ۔ بھارت کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ وہ سوویت
یونین کی اعانت سے چین کو مزہ چکھا سکتا ہے لہٰذا اسی مفروضے کے پیشِ نظر
بھارت نے چینی علاقوں پر اپنا حق جتا کر اس پر حملہ کر دیا۔ اسے کشمیر پر
غاصبا نہ قبضے اور جو نا گڑھ اور حیدرہ آباد پر لشکر کشی سے شہ ملی ہو ئی
تھی وہ اپنے تئیں اس زعمِ باطل میں مبتلا تھا کہ چینی علا قوں کو بھی کشمیر
کی طرح بزورِ قوت اپنی قلمرو میں شامل کیا جا سکتا ہے اور اگر کہیں پر کو
ئی احتجاج ہوا تو اس احتجاجی انداز کو ڈوگرہ فوج کے ظلم و جبر کے ذریعے دیا
جا سکتا ہے لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں دل نے کچھ نہ کام کیا۔چین نے
بھارتی جارحیت کا ایسا دندان شکن جواب دیا کہ بھارتی فوج ساری چو کیاں چھوڑ
کر ایسی بھاگی کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ چین نے اپنی
فوجی برتری کا ایسا ٹھوس ثبوت دیا جس سے سارے فریق سکتے کی حالت میں آ گئے۔
بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جوا ہر لعل نہرو اس شکت سے بڑے دل برداشتہ
ہو ئے اور آ خر کار یہی صدمہ ان کی موت کا باعث بن گیا ۔
عجیب اتفاق ہے کہ امر یکہ اور روس بے شمار ذ ہنی تحفظات اور کڑی دشمنی کے
با وجود بھارت کی حمایت میں چین کے خلاف متحد ہو گئے تا کہ اس ا بھرتی ہو
ئی قوم کو زیرِ پا رکھا جا سکے اور اسے جنگوں میں الجھا کر اس کی ترقی اور
استحکام کو ملیا میٹ کر دیا جائے۔ ہند چینی بھا ئی بھا ئی کے نعروں کے
درمیان پاکستان چین سے مضبوط اور پائدار تعلقات استوار کرنے میں کامیاب
نہیں ہو رہا تھا بس دونوں قوموں کے درمیاں معمول کے واجبی سے تعلقات
تھے۔پاکستان چین کا ہمسایہ ہو نے کے نا طے ایک اہم ملک کی حیثیت اختیار کئے
ہو ئے تھا لہٰذا اس کی جغرافیا ئی اہمیت سے انکار ممکن نہیں تھا لیکن گہرے
تعلقات کی لذت سے دونوں بہر حال محروم تھے۔ اتحادِ ثلا ثہ کو بھی اس حقیقت
کا قوی احساس تھا تبھی تو امریکی صدر نے پاکستانی صدر محمد ا یوب خان کو
امریکہ بلوا یا اور اس سے درخواست کی کہ وہ مغربی سرحد وں پر اپنی ساری
فوجوں کو پیچھے لے جا ئے تا کہ کہ بھارت مغربی سرحدوں سے بے خوف ہو کر چین
کا سامنا کر سکے اور چین کو سبق سکھانے کے لئے اپنی ساری قوت جھونک سکے۔صدر
محمد ایوب خان نے امریکی صدر کو یہ یقین د ہا نی کروانے سے معذرت کر لی۔
امریکی صدر کو ایوب خان کی یہ بات پسند نہیں آئی اور یہی وہ ملا قات تھی جس
میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیوں نے جنم لیا اور دونوں ملکوں
کے تعلقات میں سرد مہری کا عنصر شامل ہو گیا۔اس عنصر کے بھیا نک اثرات
وقفوں وقفوں سے پاک امریکہ تعلقات میں رخنہ اندا زی کرتے رہے۔ تاریخ کا جبر
ان دونوں قوموں کو بہ امر مجبوری ایک دوسرے کے قریب لا تا ر ہا لیکن جیسے
ہی ہنگا می صورتِ حال کے بادل چھٹ جاتے سرد مہری کا عنصر پھر پھنکا رتا ہو
ا با ہر نکلتا اور تعلقات کو اپنے زہریلے ڈھنگ سے زہر آلود کر دیتا۔۔
۵۶۹۱ کی پاک بھا رت جنگ کے دوران امریکہ کی سرد مہری کا رویہ بھی اسی حکم
عدولی کا سبب تھا ۔ پاک بھارت جنگ میں فائر بندی کے بعد ا مریکہ نے خود
ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بجا ئے ایک ایسے ملک کو جو کہ پاکستان پر جا
رحیت میں بھا رت کا برابر کا حصہ دار تھا ثالثی کےلئے منتحب کیا اور یوں
جنگ بندی کے لئے روس کے دا رالخلا فہ تاشقند کا انتخاب کیا گیا ۔ چشمِ تصور
سے دیکھوں تو میں ششدر رہ جا تا ہوں کہ پاکستان سے کئی گنا بڑا اور طاقتور
ملک پاکستان پر دھا وا بول دیتا ہے لیکن پاکستان کو تسخیر کرنے اور لا ہو ر
کے جم خانہ کلب میں چائے پینے کی بھا رتی خوا ہش پو ری نہیں ہو تی۔ وطن کے
سر فروشوں نے جس طرح وطنِ عزیز کے دفاع کے لئے اپنی جا نوں کا نذرا نہ دیا
اور اپنے جسموں پر بم باندھ کر دشمنوں کے ٹینکوں کو پاش پاش کیا اس نے دنیا
کو ورطہ حیرت میں گم کر دیا
اے ارضِ پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہما را
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہما را
سالارِ کارواں ہے میرِ حجاز اپنا
اس نام سے ہے با قی آرامِِ جاں ہما را
ساری دنیا نے پاکستانی قوم کی جراتوں کو سلام پیش کیا۔ ایک نہتے چھوٹے اور
پر امن ملک پر بھا رتی حملے نے سب کو ششدر کر دیا پاکستانی افواج نے دنیا
کو بنا دیا کہ وسائل کی کمی کے ہو تے ہو ئے بھی ملکی سالمیت کا دفاع کیا جا
سکتا ہے ۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہور ی ملک کی ننگی جا رحیت کی وجہ سے بھا رت
کو خوب ہدفِ تنقید بنا یا گیا لیکن آزمائش کی اس گھڑی میں چین نے جسطرح
پاکستان کا ساتھ دیا اس نے دوستی کو نئی رفعتیں عطا کیں۔ چین کی ایک دھمکی
سے بھا رت کے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی اور اسے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے
کی جرات نہ ہو ئی ورنہ وہ تو ۵۶۹۱ کی جنگ میں بھی پاکستان پر اس سرحد سے وا
ر کرنا چا ہتا تھا۔چین نے دوست وہ جو مشکل میں کام آئے کی ضر ب ا لمثل کو
سچ ثابت کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لئے۔ پاکستانی قوم چین کی ا نتہا ئی
نازک وقت میں حما ئیت اور دوستی پر ا س کی ہمیشہ ممنون ر ہےگی۔۔
چینی وزیرِ اعظم چو ین لائی کا پاکستان کا دورہ پاک چین دوستی کی معراج
تھا۔ پاکستان میں آج تک چوین لا ئی جیسا استقبال کسی دوسرے سربراہِ مملکت
کو نصیب نہیں ہو سکا۔ ایسے لگتا تھا جیسے لوگوں نے اپنا دل نکال کر چینی
قیادت کی راہ میں بچھا دیا ہو۔ دبلا پتلا وزیرِ اعظم چوین لا ئی بسا لتوں
کا پہاڑ تھا اور اپنی ذہا نت اور متا نت کی وجہ سے پوری دنیا میں عزت و
احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کی عظیم سیاسی جدو جہد دوسروں کے لئے
مشعلِ راہ بنی ہو ئی تھی اور قومیں اسکی جرا توں سے آزادی کی جنگ میں
راہنما ئی حا صل کر رہی تھیں۔ چینی وزیرِ اعظم چو ین لائی چینی حما ئت کے
اظہار کے لئے پاکستان کے دورے پر تھا اور پاکستانی عوام اس کے ایک ایک لفظ
پر یقین کر ر ہے تھے کیونکہ اس کے الفاظ سچا ئی کا آئینہ دار تھے جس کا بھر
پور اظہار ۵۶۹۱ کی جنگ میں دیکھنے کو ملا لیکن اسی جیتی ہو ئی جنگ کو صدر
ایوب خان نے تا شقند کی میز پر ہا ر دیا۔ تاشقند معاہدہ صدر ا یوب خان کے
زوال کا نقطہ آغاز تھا عوام نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے ا نکار کر دیا
اور ذوالفقار علی بھٹو اسی معا ہدے کی بنیاد پر حکومت سے مستعفی ہو گئے۔
عوام پہلے ہی بے چین تھے ناراض اور نا لاں تھے لہٰذا صدر ایوب خان کے خلاف
عوامی تحریک کا آغاز ہو گیا جس کی قیا دت کی سعادت قائدِ عوام ذوالفقار علی
بھٹو کے حصے میں آ ئی اور یوں اس تحریک کے نتیجے میں اکتوبر ۸۶۹۱ میں یحیی
خان نے مارشل لا نافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور یوں ایوب خان کے دس
سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو گیا ۔۔۔
امریکہ اور چین میں سرد جنگ کئی سالوں سے چلی آرہی تھی اور دونوں ایک دوسرے
کو نیچا دکھا نے کا کو ئی بھی موقعہ ضا ئع نہیں کرتے تھے۔ امریکہ چین کو
تسلیم کرنے سے گریز کی را ہیں تلاش کر رہا تھا ۔ اس نے اپنے طفیلی ملک تا
ئیوان کو چین کی ناک پر بٹھا رکھا تھا تا کہ چین کو عالمی اداروں سے دور
بھی رکھا جا ئے اور اس کی اہمیت کو بھی اجا گر نہ ہو نے دیا جائے۔ ۲۶۹۱ میں
چین سے حساب چکا نے کا ایک اور نادر مو قع امریکہ کے ہاتھ لگا جسے امریکہ
کسی صورت میں بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ ایک عالمی سازش تھی جس کا
واحد مقصد چین کو مفلوج کرنا تھا لیکن ان کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کیو نکہ
چین کو اس وقت جو قیا دت میسر تھی وہ بڑی با لغ نظر تھی اور عوامی انقلاب
کی بدولت بر سرِ اقتدار آئی تھی اور انکی امنگوں کی حقیقی ترجمان تھی۔ ما ﺅ
زے تنگ عوامی انقلاب کی علامت کے طور پر پو ری دنیا میں عوام کی آنکھوں کا
تارا بنا ہوا تھا۔ وہ جدید دنیا کے پہلے لانگ مارچ کا با نی بھی تھا اور
اسی لانگ مارچ سے اس نے چیا نگ کا ئی شیک جیسے مضبوط آمر کو ملک سے بھاگ جا
نے پر مجبور کر دیا تھا اور اپنی سحر انگیز قیا دت سے چین کو آزادی کی نعمت
سے ہمکنار کیا تھا۔ جی ہاں وہی ما ﺅزے تنگ ابھی زندہ تھا اور قوم اس کی
قیادت میں بڑے سے بڑے بحرانوں سے نپٹ سکتی تھی یہ بھا رتی سورما ﺅں کی
یلغار تو ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ آہنی عزم قائم ہو تو انسان
دریا ﺅں کے رخ موڑ سکتا ہے، صحرا ﺅں کو سر سبز و شاداب میدا نوں میں بدل
سکتا ہے اور پہاڑوں سے دودھ کی نہریں بہا سکتا ہے ۔ ماﺅزے تنگ ایک ایسی ہی
شخصیت تھی جس نے اپنے عزم و ہمت سے استعما ریت کا خاتمہ کر کے ایک نئے
سوشلسٹ معاشرے کی بنیا دیں رکھی تھیں جس نے پو رے عالم میں سو شلزم کی مقبو
لیت میں بے پناہ اضافہ کیا تھا۔ اسی ما ﺅزے تنگ کے ملک پر بھا رت نے حملہ
کر دیا تھا اور فتح کے خواب سجا لئے تھے لیکن وہ خواب اس بری طرح سے چکنا
چور ہوئے کہ بھا رت کو منہ چھپا نے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔۔ کیا پدی کیا
پدی کا شوربہ ۔۔
۲۶۹۱ میں بھا رت اور چین کی جنگ ہو ئی لیکن لیکن پاکستان نے اس وقت امریکہ
کا ساتھ دینے سے معذرت کر لی اور پاکستان کا یہی با جرات موقف چینی قیادت
کے سینے میں پیو ست ہو گیا جس نے آنے والے زما نوں کے لئے پاک چین دوستی کی
بنیا د رکھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب کیبنٹ کے ایک ذہین و فطین را ہنما تھے
اور خارجہ امور پر بڑی گہری نگا ہ رکھتے تھے لہٰذا انھوں نے اس مو قع سے
بھر پور فائدہ اٹھا نے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی فہم و فراست سے ایک
ایسی خار جہ پالیسی تشکیل دینی شرو ع کی جس میں چین اور پاکستان ایک دوسرے
کے قریب آتے چلے گئے اور آخر کار اس دوستی کی گونج سے پوری دنیا لرز اٹھی۔
پاک چین دوستی ایک ایسے نعرے کی شکل اختیار کر گئی جو پو رے عالم میں اپنی
مضبوطی اور گہرا ئی کے لئے ایک ضر ب ا لمثل کی صورت اختیار کر چکی ہے اور
جو ہر آنے والے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو تی چلی جا رہی ہے اور
دونوں قوموں کا فخر بنتی جا رہی ہے۔۔۔ |