تبدیلی؟ ان تلوں میں تیل نہیں

جے یو آئی کے بعد سب سے بڑی حکومتی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کے اپوزیشن میں بیٹھنے کے اعلان کے فوراً بعد جو صورت حال دکھائی دی وہ تو یہی تھی کہ بیڈ گورننس کے الزامات کے ذریعے عرصہ سے سیاست چمکانے والی اپوزیشن اب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر ان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کریں گی لیکن جو رد عمل سامنے آیا ہے اس کے مطابق مسلم لیگ ن سے لیکر ق لیگ تک اور پھر جے یو آئی سے لیکر خود ایم کیو ایم تک سبھی حکومت کو غیر مستحکم نہ کرنے کی گردان الاپ رہی ہیں۔ مان لیا کہ جمہوری استحکام ملکی مفاد میں ہے لیکن اس سیاسی منافقت کو کیا نام دیجیے کہ جس کا مظاہرہ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے تازہ ترین فیصلے کے بعد دیکھنے میں آیا ہے جبکہ رہی سہی کسر ق لیگ کی جانب سے حکومت کو سہارا دینے کے واضح عندیے نے پوری کر دی ہے۔ اگرچہ ایک عرصہ سے ق لیگ کے حکومتی اتحادی بننے کی خبریں آرہی تھیں لیکن ایم کیو ایم راستے کی ایسی رکاوٹ تھی جسے عبور کئے بغیر اصحاب قاف کا اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنا قریباً ناممکن تھا۔ مصدقہ ذرائع تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کے درمیان”معاملات“ پہلے ہی طے ہوچکے ہیں اور اسی لیے ایم کیو ایم کے نئے فیصلے کے فوراً بعد وزیر اعظم نے متحدہ کے بغیر بھی حکومت قائم رہنے کا بیان داغ دیا تھا لیکن بہت سوں کو یوسف رضا گیلانی اور چودھری برادران کی کھلی کھلی پریس کانفرنس کے باوجود حقیقت دکھائی نہیں دے رہی اور وہ کسی بھی وقت”بریکنگ نیوز“ کی آس لگائے ٹی وی سکرینوں کے سامنے براجمان صرف اور صرف اپوزیشن سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے جس طرح کے حالات ہمیں درپیش ہیں ایسے میں جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق ہمہ قسم تجزیے فطری ہوتے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے اعلان سے لیکر چودھریوں کی وزیر اعظم کے ہمراہ میڈیا گفتگو اور پھرمسلم لیگ ن کی جانب سے ”غیر جانبدار“رہنے کے ”عزم“ کو دیکھیں تو صورتحال ”ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ “ ہی کے مترادف دکھائی دیتی ہے۔ ایم کیوایم ہی کو لیجئے، کہنے کو تو اس کی رابطہ کمیٹی نے مہنگائی اور بد امنی کے لامتناہی سلسلے کو بنیاد بنا کر پیپلز پارٹی کو”بائے بائے“کہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ متحدہ کو اس فیصلے پر سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے الزامات ہی نے اس انتہائی اقدام پر مجبور کیا ہے۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی ”دوستی“ کی تاریخ کوئی اتنی خوشگوار نہیں لہٰذا اب کی بار بھی انجام یہی ہونا تھا جو ہو چکا۔ حکمران پیپلزپارٹی اور اس کی سابقہ حکومتی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کی آپس میں محبت و نفرت کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود دونوں جماعتوں کے اصل پاور بیس یا طاقت کے مراکز یعنی سندھ میں ان جماعتوں کے ووٹر عوام سندھی اور اردو بولنے والوں کے بیچ گرم و سرد تعلقات کی تاریخ۔ خود کو وفاقی پارٹی یا مرکزیت پسندی کا دعویٰ کرنے والی ملک گیر جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے نعرے، سیاست اور لفاظی سندھ کی حد تک اس لیے بھی لسانی رنگ لیے بھی رہی ہے کہ شاید دونوں پارٹیوں کے ووٹر عوام بھی اسی طرح کے موقف رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سندھ میں کوٹا سسٹم ہو کہ شہروں کی از سر نو حد بندی اور ضلع اور تحصیلوں کا قیام، کبھی بنگلہ دیش سے بہاریوں کی آمد ہو، کہ کمشنری و بلدیاتی نظام کا خاتمہ یا بحالی، یہاں تک کہ سڑکوں، پلوں اور اوور ہیڈ برجز کی تعمیرات پر بھی اندرون خانہ دونوں جماعتوں اور ان کے ووٹر عوام میں بہرحال مفادات کا ٹکراؤ رہا ہے یا پیدا کیا جاتا رہا ہے۔

دونوں جماعتوں کے درمیان الفاظ کی جنگ اتحادوں کے ٹوٹنے بننے اور خونریزی میں بدلتی بھی رہی ہے۔ عزیز آباد نائن زیرو پر’بینظیر کا ایک ہی بھائی، الطاف بھائی الطاف بھائی‘ کے نعرے سے لے کر’دوسرے بھائی جنرل نصیر اللہ بابر کے زیر کمان ملٹری آپریشن کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے قبل سندھ میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ تنظیمیں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے پاکستان اور نواب مظفر کی مہاجر پنجابی پٹھان اتحاد جیسی جماعتیں تھیں۔جولائی 1972 ءمیں وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو کے دور حکومت میں سندھی لینگوئج بل پاس ہو نے پر وہ بہت سے سندھیوں میں ہیرو کے طور پر ابھر آئے تھے اور پی پی پی کے سرکاری اخبار ”ہلال پاکستان‘ ‘نے انہیں’ ’ڈہیسر“ ؛یعنی ’دس سروں والا سورما‘ قرار دیا تھا کیونکہ انہوں نے سندھ اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ’ اگر دس سر بھی ہوں تو سندھ پر قربان ،لیکن تب ذوالفقار علی بھٹو کو فساد کی آگ کم کروانے کیلیے اردو بولنے والوں سے معافی مانگنی اور بل میں ترمیم کا اعلان کرنا پڑا تھا اور بھٹو کو اس وجہ سے سندھی قوم پرستوں نے ”بزدل“بھی کہا تھا۔1972ء کے فسادات کے بعد سے اب تک ایک غیر تحریری معاہدہ یہ بھی فرض کر لیا گیا تھا کہ اگر سندھ کا وزیراعلیٰ سندھی ہوگا توگورنر اردو بولنے والا ہوگا جو اب بھی عملاً نافذ ہے لیکن اڑتیس سال بعد ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے وزیروں کا لہجہ وہی ہو گیا ۔ اگرچہ اس بیان بازی سے اکثر سندھیوں میں ذوالفقار مرزا اور پی پی پی کا گراف اونچا ہوا ہے لیکن سیاسی طور پر اسے ایم کیو ایم جیسی سب سے بڑی اتحادی سے محروم ہونا پڑا س کے باوجود ماضی کی طرح دونوں کے دوبارہ سے ایک ہونے کا قوی امکان بدستور موجود ہے جبکہ وقتی طور ایم کیو ایم کی حکومت پر لگائی گئی چوٹ پر مرہم رکھنے کی سب سے زیادہ فکر اپوزیشن جماعتوں ہی کو ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کے بعد حکومت اکثریت کھو چکی ہے لیکن تبدیلی کے لئے مروجہ طریقہ کار پر عمل ضروری ہے اور اس سلسلہ میں تحریک عدم اعتماد اور پھر اس پر ووٹنگ کے مراحل طے کرنا ہونگے۔ ایم کیو ایم کے اس اعلان سے قبل تو سبھی اپوزیشن جماعتیں تبدیلی کے لئے مرے جارہی تھیں لیکن متحدہ کی پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد تمام کی تمام بڑھکیں ان کے اپنے ہی طرز عمل سے ٹھس ہوگئی ہیں۔ قاف لیگ نے تو حسب توقع پیپلز پارٹی سے اتحاد کا واضح اشار ہ دے دیا ہے جس کے بعد ویسے تو حکومت کی کسی اور اتحاد کی ضرورت نہیں رہے گی کہ عددی لحاظ سے مطلوبہ اکثریت کے لئے ایم کیو ایم کے پچیس کے مقابلے میں قاف لیگ کے اکیاون ارکان خلاء پورا کرنے کے لئے انتہائی کافی ہیں لیکن ذرا نون لیگ کو دیکھئے کہ ایک طرف تو نواز شریف مہنگائی اور دیگر مسائل کے خاتمے کے لئے اپنی جماعت اور کارکنوں کو احتجاجی مظاہروں کی ہدایت کر رہے تو دوسری جانب جب ان مسائل کی وجہ بننے والی حکومت سے چھٹکارا ممکنات میں سے دکھائی دینے لگا ہے تو”غیر جانبداری“ کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہونے کی حیثیت سے تحریک عدم اعتماد لانا مسلم لیگ ن کا فرض ہے لیکن بطور حزب اختلاف جس طرح کا طرز عمل ن لیگ کی طرف سے سامنے آرہا ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ بار بار دعوے کرنے کے باوجود وہ ابھی تک ”فرینڈلی“ رہنے کے موڈ میں ہے۔ رہ گئی بات جے یو آئی کی تو وہ تو اب بھی اسی کوشش میں ہے کہ اس کی شرائط تسلیم کر کے پھر سے اسے ”عوامی خدمت“ کا موقع مل جائے جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہے کہ اپوزیشن کے تلوں میں تیل نہیں ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58334 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.