شمالی علاقہ جات کی سیر (حصہ پنجم)

انصار بھائی کے ذکر کارگل نے تو ہم سب کو ایک دفعہ پریشان کر دیا تھا مگر یہ ماضی تھا اور ہم سیر کے لیے گۓ تھے بس اس سوچ کی وجہ سے اس غم سے باہر نکل پاۓ ورنہ یہ غم جان لے سکتا ھے,,,,,,

ذکر کارگل
انصار کا ذکر کارگل کرتے ھوۓ رونا یاد آتا ھے
ہماری استور کی جانب واپسی کا سفر شروع تھا اور میں نے انصار بھائی سے مقامی ھونے کی وجہ سے کارگل کا ذکر کیا تو ایک دو باتوں کے بعد اسکی آنکھوں میں نمی, چہرے پر سرخی ظاہر ھو رہی تھی اگرچہ ہلکی بارش نے منظر میں رومانیت پیدا کی ھوئی تھی مگر انصار مسلسل پریشان نظر آ رہا تھا. اس سے پہلے کہ یہ بتاؤ کہ انصار نے کارگل جنگ کے بارے کیا کہا میں کچھ آپکو پس منظر بیان کر دو تاکہ آسانی ھو سمجھنے میں آپکے لیے.....

تاریخ مئی تا جولائی 1999ء اور مقام کارگل تھا (لیکن اہل علم کے بقول یہ جنوری سے شروع تھی جنگ)نتیجہ بے شک جنگ بندی تھا .پاکستانی فوج کی قیادت پرویز مشرف اور بھارتی فوج کی قیادت وید پرکاش ملک کر رہے تھے.قوت کے اعتبار سے پاکستانی فوج تقریباً 5000 ہزار نوجوان پر مشتمل تھی تو دوسری جانب بھارتی فوج تقریباً 30000 تھی.اس جنگ میں ایک خبر کے مطابق پاکستان کے تقریباً 400 سو زائد نوجوان شہید ھوۓ اور تقریباً 660 کے قریب زخمی ہونے. بھارت کے تقریباً 700 سے زیادہ ہلاک اور تقریباً 1363 سے زیادہ فوجی زخمی ہونے .

کارگل جنگ کنٹرول لائن پر ہونے والی ایک محدود جنگ تھی جو پاکستان اور بھارت کے درمیان 1999ء میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں واضح کامیابی کسی ملک کو نہ مل سکی۔ لیکن پاکستانی فوج نے بھارت کے تین لڑاکا جہاز مار گرے اس کے علاوہ بھارتی فوج کارگل سیکٹر میں توازن کھو بیٹھی اور 700 سے زائد فوجی ہلاک کر دیے اس جنگ میں بھارت کو برا جٹکا لگا لیکن بعد میں دونوں فریقین نے جنگ بندی کا علان کر دیا...

لداخ اور سری نگر کا واحد زمینی راستہ یہاں سے گزرتا ہے۔ سیاح چین پر موجود بھارتی افواج کی کمک و رسد کے لیے کارگل کا راستہ ہی بہتر راستہ ہے۔ کارگل تا سیاچن تک کا راستہ سال کے دس مہینوں تک برف کی قید میں رہتا ہے اور صرف دو ماہ کے لیے یہ شاہراہ سیاچن کے برف پوش پہاڑوں تک پہنچنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ بھارت کو انہی مہینوں میں فوجی چیک پوسٹس اور فوجی یونٹوں میں کام کرنے والے بھارتی لشکر کی خوراک اور دیگر ضروریات کو سیاچن کی چوٹیوں تک لیجانے کا ٹاسک پورا کرنا ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں پہاڑیاں اور سیاچن پاکستانی ملکیت تھے جہاں بعد ازاں بھارتی فورسز نے قبضہ جمالیا تھا۔

میں تو کمزور, کم علم, ناقص عقل, کم تجربہ ھوں میں تو ذاتی طور پر کوئی راۓ نہیں دے سکتا کیونکہ مجھ سے پہلے لا تعداد اہل علم ؤ دانش, چوٹی کے صحافی, بڑے بڑے عہدوں پر فائز پاکستان پر اپنی جان قربان کرنے والے, اہل قلم اپنی اپنی راۓ اور نظریہ پیش کر چکے ہیں لاتعداد کالم, فیچر, کتابیں, لکھی جا چکی ہیں..میں تو انصار بھائی کی بات کہتا ھوں کہ جب جنگ کا آغاز ھوا پاکستانی فوج کی تعداد اور راشن کم تھا ابھی backup پر دور تھی تو استور اور موجود کے علاقے کے لوگ جن میں نوجوان, بوڑھے, اور بہادر عورتیں بھی شامل تھیں نے اپنی جان تک کا ساتھ دیا وہ. مدد کھانے کی صورت میں ھو یا اسلحہ کی صورت میں ہم نے ساتھ دیا اور انصار نے بتایا کہ ہمارے بزرگ جو زندہ بچ گۓ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان نے انکے ایک ضلع پر اپنی چوکی قائم کر لی تھی مگر جب اس وقت کی حکومت نے معاہدہ کر لیا اور پاکستانی افواج کو واپسی کا حکم دیا گیا اس وقت جتنا نقصان پاکستان کا ھوا میں بیان نہیں کر سکتا وہ مقامی لوگ جو فوج کی مدد کے لئے انکے شانہ بشانہ کھڑے تھے واپسی کے سفر میں بہت سارے لوگ اپنی جان کی بازی ہار گے....

انصار کا کہنا تھا کہ اگر معاہدہ ہی کرنا تھا تو فوج پاکستان کی قربانی کو دیکھا جاتا, مقامی لوگوں کی طرف غور کیا جاتا, اور یہ جو انکا ضلع انکے حوالے کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو اسکے بدلے کشمیر کی بات کرتے, وہاں کے لوگوں کی شہادت کی گنتی کرتے, بیوہ, یتیم, لاچار, بے کس,معذور لوگوں کی گنتی کرتے, کتنی بیٹیوں کی عزت پامال ھوئی ایک پل کے لیے انکا حساب لگاتے تو روتے ھوۓ اور ہمارے دلوں کو خون کے آنسو رولاتے ھوے انصار نے کہا کہ بدلے میں کشمیر کا معاہدہ کرتے پھر بے شک ہمارے دودھ پیتے بچوں کو پاکستان کی حفاظت اور کشمیر کی آزادی پر قربان کر دیتے...
یہ تھی ہمارے امسال ٹرپ کی دلوں کو ہلا دینے والے سفر کی داستان.......
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد.... جاری ھے راما ویلی کا ذکر باقی ھے
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457211 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More