میاں نوازشریف کا ’’ووٹ کو عزّت دو‘‘ کا نعرہ تو بَس
’’ایویں ای ‘‘ہے۔ بھلا ووٹ کو عزت دینے سے پہلے کس کا بھلا ہوا ہے جو، اب
ہوگا۔ اصل عزت تو ہمیشہ ’’کرارے نوٹوں‘‘ کی رہی اور اب بھی ہے۔ سیانے کہہ
گئے ’’جیدی کوٹھی دانے، اودے کَملے وی سیانے‘‘۔ یعنی پیسہ سارے عیب چھپا
لیتا ہے اور عزت واحترام اُسی کی ملکیت جس کی جیب نوٹوں سے بھری ہو۔ بیچارے
ووٹروں کے پاس پیسہ کہاں جو اُن کی عزت کی جائے اِس لیے میاں نوازشریف کا
یہ نعرہ فضول ہے۔ اگر میاں صاحب، آصف زرداری اور عمران خاں کسی ’’کُٹیا‘‘
کے باسی ہوتے تو بے نام ونشان بھی ہوتے لیکن جاتی اُمرا، بلاول ہاؤس اور
بَنی گالہ کے مکینوں کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر ہے۔ عام انتخابات
میں بھی عزّت اُسی کی جس کے پاس نوٹ ہوں، وہ خواہ انگوٹھا چھاپ ہی کیوں نہ
ہو۔ ہمارے کپتان نے بھی چُن چُن کر سارے الیکٹ ایبلز اکٹھے کر لیے ہیں۔ یہ
وہی لوگ ہیں جن کا انگریز دَور سے ہی یہ دعویٰ رہا ہے کہ حقِ حکمرانی صرف
اُنہی کی میراث۔ آپ اُنہیں لوٹے کہیں، لٹیرے یا ضمیر فروش، کچھ فرق نہیں
پڑتا کیونکہ اصل حکمران وہی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ اِن کی سیاسی جماعت بھی
ایک ہی ہے جس کا نام ’’بَرسرِاقتدار ‘‘جماعت ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم نے اِن
کے مختلف سیاسی نام رکھ دیئے ہیں۔ پیپلزپارٹی ہو یا نوازلیگ یا پھر تحریکِ
انصاف، سبھی میں وہی چہرے نظر آئیں گے جو اِدھر سے اُدھر گھومتے رہتے ہیں۔
ہم نے ’’ایویں خوامخواہ‘‘ اُن کا نام ’’لوٹے‘‘ رکھا ہوا ہے، وہ بیچارے
توہمیشہ ’’بَرسرِاقتدار پارٹی‘‘ ہی میں رہتے ہیں جو اُن کی ’’اصلی تے وَڈی‘‘
جماعت ہے۔
ہم نے کئی لوگوں کی زبان سے سنا کہ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کو آزما کر دیکھ
لیا، اب لگے ہاتھوں تحریکِ انصاف کو بھی آزما لیتے ہیں۔ اِس پر ہمیں ایک
حکایت یاد آگئی، آپ بھی سُن لیں۔ ایک بوڑھا مگرمچھ سمندر کی تہ میں لیٹا
ہوا تھا ۔ اُس کو لاکھوں سمندری کیڑے مکوڑے نوچ رہے تھے لیکن اپنے ضعف کے
ہاتھوں مگرمچھ بے بَس تھا۔ ایک شارک کو اُس کی بے بَسی پر ترس آیا ۔ اُس نے
مگرمچھ کو مخاطب کرکے کہا ’’اگر تم کہو تو میں یہ سارے کیڑے مکوڑے اپنی دُم
سے مار دوں؟‘‘۔ مگرمچھ نے فوراََ کہا ’’نہ بی بی ناں! اِن کیڑوں کا تو میرا
گوشت کھا کھا کر پیٹ بھرا ہوا ہے اِس لیے یہ سُست ہو گئے ہیں۔ اگر تم نے
اِن کو مار دیا تو جو نئے کیڑے آئیں گے ،وہ تو میرا حشر ہی نکال دیں گے‘‘۔
عرض ہے کہ پاکستان میں انتخاب میں حصّہ لینا کاروبار میں ڈھل چکا ہے اور
اِس میدان میں نئے آنے والے بھی اپنی جیبیں بھرنے کے لیے ہی آتے ہیں۔ جو
بھی نیا آئے گا وہ دوسروں سے کہیں زیادہ اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کرے گا۔
کون سی سیاسی جماعت ایسی ہے جو اِس کرپشن سے پاک ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ نئے
اور کرپشن فری پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والے کپتان کے اپنے صوبے کا یہ
حال ہے کہ ’’بلین ٹری‘‘ منصوبے میں 16 ارب روپے کی کرپشن پر نَیب متحرک ہے،
خیبربینک کا سکینڈل سب کے سامنے، اتحادی آفتاب شیرپاؤکی جماعت کو پہلے
کرپشن کے الزامات لگا کر حکومت سے نکالا، پھر اُسی کو دوبارہ حکومت میں
شامل بھی کر لیا۔ معروف تجزیہ نگار سلیم صافی نے اپنے پروگرام جرگہ میں
انکشاف کیا کہ خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں عمران خاں، جہانگیر ترین،
اسد عمر، شیریں مزاری اور اعظم سواتی کی مہمانداری پر صرف 3 سالوں میں
سرکاری خزانے سے 20 کروڑ 37 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ اُنہوں نے یہ دلجسپ انکشاف
بھی کیا کہ وہ سابق وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کا خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد
میں انٹرویو کرنے گئے تھے۔ بعد میں کسی نے اُنہیں بتایا کہ خیبرپختونخوا
ہاؤس اسلام آبادکے بِلوں میں ایک بِل ایسا بھی ہے جس پر اُن کا نام ہے۔
سلیم صافی نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ تو سرکاری خزانے سے ایک لاکھ 89
ہزار 153 روپے کی چائے پی آئے ہیں۔ (تب سے ہم پریشان ہیں کہ صافی بھائی کا
پیٹ کتنا بڑا ہوگا جس میں پونے دو لاکھ کی چائے سما گئی)۔ سلیم صافی کے پاس
20 کروڑ37 لاکھ 84 ہزار روپے کا مہمانداری پر اُٹھنے والے اخراجات کا مکمل
ریکارڈ بھی موجود تھا۔ اُنہوں نے اپنے پروگرام میں نمونے کے طور پر چند بِل
بھی دکھائے ۔ سوال یہ ہے کہ عمران خاں، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شیریں
مزاری، اعظم سواتی اور جہانگیر ترین کا خیبرپختونخوا حکومت سے کیا تعلق؟۔
اُن کی مہمانداری پر اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کا کیا جواز ہے؟۔ کیا یہ کرپشن
نہیں؟۔ اگر ہے تو پھر نیب اب تک خاموش کیوں ہے اور بابا رحمت (جنہوں نے
اتنے زیادہ اَزخود نوٹسز لیے کہ اُن کا نام گینیزبُک آف ورلڈ ریکارڈ میں
شامل ہونا چاہیے) اِس واضح کرپشن پر اَزخود نوٹس کیوں نہیں لے رہے؟۔ یہ تو
کرپشن کی محض چند مثالیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کے پی کے میں کرپشن کی ایسی
کئی مثالیں گلی گلی ۔ اگر جہانگیر ترین، علیم خاں، شاہ محمود قریشی، زُلفی
بخاری اور اعظم سواتی جیسے لوگوں کے جَلو میں کپتان کرپشن فری پاکستان
بنانے نکلے ہیں تو پھر اِس ملک کا اﷲ ہی حافظ ہے۔
کپتان کہتے ہیں ’’ الیکٹ ایبلز ہوں گے تو ہی میں وزیرِاعظم بنوں گا‘‘۔ یہ
دراصل اُن کا ذاتی تجربہ بول رہا ہے۔ اُن کی نظریں تو عرصۂ دراز سے وزارتِ
عظمیٰ پر ٹِکی ہوئی ہیں۔ پہلے یہ ’’بھولے بادشاہ‘‘ عامیوں کو ساتھ لے کر
وزیرِاعظم بننے نکلے لیکن بُری طرح ناکام ہوئے۔ اُنہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ
پاکستان میں ووٹ کی نہیں، ’’نوٹ‘‘ کی عزت ہے۔ وہ تحریکِ انصاف کا جھنڈا
اُٹھائے پرویز مشرف کے جلسوں میں شریک ہوتے رہے اور ریفرینڈم میں بھی اُس
کا بھرپور ساتھ دیا۔ دراصل پرویز مشرف نے کپتان کو وزارتِ عظمیٰ کا لالچ
دیا تھا لیکن 2002ء کے انتخابات کے بعد مشرف نے آنکھیں پھیر لیں جس پر
کپتان نے بددَل ہو کر پرویز مشرف پر تنقید شروع کر دی۔
پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ 2002ء کے انتخابات سے پہلے
کپتان اُن کے پاس آئے اور اُنہیں بتایا کہ تحریکِ انصاف 90 سے زائد سیٹیں
جیت رہی ہے جبکہ مشرف کے پاس محض 3/4 سیٹوں کی اطلاع تھی۔ اُسی انٹرویو میں
پرویزمشرف کہتے ہیں ’’میں نے عمران خاں کو کہا کہ میرے پاس محض تین، چار
سیٹیں جیتنے کی اطلاع ہے۔ تم ایسا کرو کہ 10 سیٹیں لے لو میں بھی تمہاری
مدد کر دوں گا لیکن وہ اپنی اِس ضِد پر قائم رہا کہ 90 سے زائد سیٹیں ہی
جیتے گا۔ جب 2002ء کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو عمران خاں تین، چار
کی بجائے صرف اپنی سیٹ ہی جیت سکا۔ ظاہر ہے کہ ایک سیٹ والے کو تو
وزیرِاعظم نہیں بنایا جا سکتا تھا‘‘۔
2002ء کے انتخابات کے بعد عمران خاں پرویز مشرف سے اتنے بَددل تھے کہ 2008ء
کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل کپتان نے
’’میوزیکل کنسرٹ‘‘ کے زور پر بڑے بڑے جلسے تو کر لیے لیکن کامیابی نے پھر
بھی قدم نہ چومے۔ پورے پانچ سال احتجاجی سیاست کرنے والے کپتان کو بالآخر
یہ سمجھ آ ہی گئی کہ پاکستان میں ووٹ نہیں ’’نوٹ‘‘ جیتتے ہیں۔ اِسی لیے وہ
الیکٹ ایبلز کے پیچھے بگٹٹ ہوگئے۔ اب ’’اصلی‘‘ تحریکِ انصاف تو کہیں نظر
نہیں آتی، ہر طرف الیکٹ ایبلز ہی الیکٹ ایبلز نظر آتے ہیں۔ جب ٹکٹ بانٹنے
کی باری آئی تو کپتان سَر پکڑ کر بیٹھ گئے کیونکہ ایک ایک سیٹ پر کئی کئی
اُمیدوار موجود تھے۔ یہ مسٔلہ شاہ محمود قریشی نے یوں حل کیاکہ اُنہوں نے
کپتان کو ایک لمبی چوڑی فہرست تھما کر کہا کہ یہ ’’اُوپر‘‘ سے آئی ہے۔ اُس
فہرست میں شامل لوگوں کو ٹکٹ تو مل گئے لیکن جہانگیر ترین ناراض ہوکر لندن
جا بیٹھے۔ اب تحریکِ انصاف میں جہانگیرترین اور شاہ محمود قریشی کے دو واضح
گروپ سامنے ہیں اور اِس کے علاوہ جو الیکٹ ایبلز ٹکٹ سے محروم رہے، وہ بھی
بطور آزاد اُمیدوار میدان میں ہیں۔ شاید اِسی لیے کپتان نے ٹکٹوں کی تقسیم
کے بعد ’’پیرنی‘‘ کو کہا ’’اِن تین ہفتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے‘‘۔ 66
سالہ نوجوان عمران خاں کا بڑھاپا تو بہرحال ہر کسی کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا
چاہیے۔
اُدھر ’’جیپ سواروں‘‘ نے بھی ’’وَخت‘‘ ڈالا ہوا ہے جن کے ہاتھوں تحریکِ
انصاف سمیت ساری سیاسی جماعتیں پریشان۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف
غفور نے کہہ تو دیا کہ انتخابی نشان الاٹ کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے،
الیکشن کمیشن نے جیپ کا جو نشان دیا ہے، وہ ’’فوجی جیپ‘‘ سے بہت مختلف ہے
لیکن ۔۔۔۔۔ کوئی یقین کرے ،تب ناں۔
|