سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دو لاکھ تیس
ہزار سے زائد اسکول ہونے کے باوجود اب بھی بائیس ملین سے زائد بچے تعلیم
حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ اس کی وجوہات میں سے اہم وجہ غربت اور نا مناسب
نصاب ہے۔جب تک نظام تعلیم اور نصاب میں بہتری نہیں آئے گی، تب تک پورے ملک
میں بہتری آنا ممکن نہیں ۔پاکستان کے اسکولوں کو پرائمری اور سیکنڈری درجوں
میں تقسیم کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بچے اسکولوں میں داخل تو ہو
رہے ہیں تاہم ان کے اسکول چھوڑنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے اور اسکول میں
داخلہ نہ لینے کے پیچھے دقیانوسی سوچ سے زیادہ نظام ِتعلیم کی خرابیوں اور
مناسب سہولیات کے فقدان کا ہاتھ ہے۔ دوسری جانب تعلیم اتنی مہنگی ہےکہ وہ
غریب لوگ جو اپنا گزر بسر مشکل سے کر سکتے ہوں وہ بچوں کوتعلیم کیسے دلائیں؟
فرسودہ نظامِ تعلیم، غیر معیاری نصاب،غیر تربیت یافتہ اساتذہ اوراسکولوں
میں سہولیات کا فقدان،ایسے ماحول میں بچے کیسے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ؟
والدین بچوں کو اسکول بھیج دیتے ہیں لیکن جب بچہ میٹرک تک پہنچتا ہے تو
والدین کو اندازہ ہوتا ہے کہ بچے کو ملنے والی تعلیم سے کوئی فائدہ حاصل
نہیں ہورہا اور وہ کچھ سیکھ بھی نہیں رہا تو وہ بچے کو تعلیم دلانے کے اپنے
فیصلے پر پچھتانا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب والدین کو اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں
کو دی جانے والی تعلیم مستقبل میں بچوں کے کام نہیں آئے گی تو وہ بچوں کو
اسکول سے نکال کر ایسے کام پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ مالی لحاظ سے
فائدہ مند ہو-
حکومت کو چاہیے کہ نظام تعلیم میں بہتری لانے کیلئے جدید دور کے تقاضوں کے
مطابق نصاب میں تبدیلیاں لائے تاکہ بچے آج کے دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے
کے قابل ہوسکیں ۔ہمارےملک کے سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے
درمیان زمین آسمان کا فرق پایا جاتاہے ، ایک طرف وہی بوسیدہ نظامِ تعلیم جس
میں نہ سہولتیں ہیں ،نہ زمانے سے ہم آہنگ نصاب اور نہ ہی معیاری تعلیم۔
دوسری طرف تربیت یافتہ اساتذہ ، معیاری تعلیم اور جدید ترین سہولیات سے
آراستہ مغربی طرز کا نظام ِتعلیم جس میں اغیار کی باتیں تو پڑھائی جاتی ہیں
لیکن اپنے ملک اور اپنی ثقافت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا ۔
ہماری نوجوان نسل کا مستقبل مختلف نظامِ تعلیم کی چکی میں پِس رہا ہے ۔
طبقاتی نظامِ تعلیم کی وجہ سے صرف بچے ہی نہیں استاد بھی مشکلات کا شکار
ہیں جن پر تدریسی ذمہ داریوں کے علاوہ بھی بہت سی دوسری ذمہ داریاں لاد دی
جاتی ہیں۔ مستقبل کے معماروں کی تعمیر کرنے والا یہ طبقہ خود معاشی بدحالی
کا شکار ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں اکیڈمی سسٹم تیزی سے ترقی کررہا ہے
کیونکہ اساتذہ اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے کیلئے نئی اکیڈمیاں بنانے پر
مجبور ہیں جس کی وجہ سےسرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی جانب سے زیادہ محنت
نہیں کی جاتی اور معیارِ تعلیم دن بدن گرتا جارہا ہے۔ شاید آج سے پہلے
ٹیچنگ کے شعبے کے ساتھ اتنا ظلم نہیں ہوا جتنا کہ آج ہو رہا ہے ۔ ایک تو
ٹیچر معاشی طور پر مفلوج دوسرا اُس پر پابندیوں کی بھرمار ،اسے لگے بندھے
کورس کو ختم کرنا ہے جس کیلئے وہ روبوٹ کی طرح کام کرتا ہے۔ باقی سیکھنے
سکھانے کا تو آپ نام ہی نہ لو کیوںکہ وہ کورس کا حصہ ہی نہیں ۔اساتذہ کا
وطیرہ بن چکا ہے کہ جب طالب علم کوئی سوال پوچھتا ہے تو استادِ محترم کہتے
ہیں کہ اس کی وضاحت تو بہت لمبی ہے لیکن چونکہ یہ سوال آپ کے کورس میں شامل
نہیں اس لئے آپ کو جواب نہیں مل سکتا ۔ سکول کے زمانے میں استاد بچوں کو
سوال سے ایسے دور رکھتے ہیں جیسے دوائی کی شیشی پہ لکھا ہوتا ہے کہ بچوں کی
پہنچ سے دور رکھیں ۔ استاد بھی کیا کریں انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سسٹم
کا حصہ بننا پڑتا ہے ۔تعلیم تو صرف نمبروں کے حصول تک محدود ہوگئی ہے اور
تربیت نام کی چیز بالکل ختم ہو چکی ہے دوسری جانب آئے روز نئے کورس اور
کتابیں چھپتی رہتی ہیں لیکن ان میں مواد وہی پرانا ہوتا ہے جو دوسروں کی
ریسرچ سے لیاجاتا ہے جس میں اپنے کلچر اور تہذیب کانام و نشان نہیں ملتا ،جس
میں دوسرے ملکوں کے نقشے توملتے ہیں مگر پاکستان کا نام تک نہیں ہوتا ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابیں ہوں یا لٹریچر کانصاب سب دوسروں سے نقل کیا
جاتا ہے ۔نمبروں کی بھرمار ہے مگر زندگی گزارنے کے ہنر سےکوئی بھی واقف
نہیں ۔پی ایچ ڈی کوالیفائی مگر زندگی کے میدان میں فیل ،اساتذہ گھر بیٹھے
تنخواہیں وصول کر رہے ہیں-
ادارے سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں بانٹ رہےہیں اور روبوٹ بنائے جارہے ہیں جنہیں
اپنا دماغ استعمال کرنا نہیں آتا ۔ٹیچرز کہتے ہیں کہ کتاب میں لکھی گئی یہ
لائن، یہ بات غلط ہے مگر چونکہ کورس میں ایسے لکھا ہے اس لئے اس کو ایسے
پڑھا جائے گا کیونکہ چیکر امتحان کے پرچے پہ کتاب کا کاپی پیسٹ دیکھ کر ہی
زیادہ نمبر دیتا ہے ۔ یوں اچھا خاصا طالبعلم جو سیکھنے اور کھوجنے کی نیت
سے ادارے میں داخل ہوتا ہے وہاں سے رٹو طوطا بن کر نکلتا ہے۔ اس بیچارے
طالب علم کو نہ چاہتے ہوئے بھی رٹا سسٹم کو قبول کر نا پڑ تا ہے۔
گھر اور سکول کی جانب سے طالب علموں پر اچھے نمبرز کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا
جاتا ہے ۔طالب علم کوسمجھایا جاتا ہے کہ اگر اسے موجودہ سسٹم میں سروائیو
کرنا ہے تو اس سسٹم کا حصہ بننا ہو گا، ایساہی کرنا ہو گا جیسے اس کے بڑے
کرتے آئے ہیں اور آخر وہ بھی اس کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ پھر دوسروں کو
بھی اس کا حصہ بنا لیتا ہے ۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ ہم کو علم بھی ہو
کہ کیا غلط اور کیاصحیح ہے مگر ہم اسے تبدیل کر نہ سکتے ہوں کیونکہ ہمیشہ
سے ہی ایسے ہی چلتا آیا ہے.اب وقت آگیا ہے کہ یہ سسٹم تبدیل کیا جائے یہ
تبدیلی ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ ہم اپنے ووٹ کی طاقت سے یہ تبدیلی لا سکتے
ہیں بس ہمیں ایسے لوگوں کو ووٹ دینا ہوگا جو تعلیم کا درد رکھتے ہوں اور
حکومت میں آکر تعلیمی اصلاحات کے نفاذ کو یقینی بنائیں.
|