یہ سطور 13 جولائی 2018 بروز جمعۃ المبارک پاکستان کے شہر
لاہور سے لکھ رہا ہوں۔ موسم کے ساتھ ساتھ انتخابات کا ماحول بھی بہت گرم ہے۔
الیکشن میں چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ہر طرف سیاسی گہما گہمی ہے۔ گلیاں،
بازار اور کوچے من پسند امیدواروں کے بینروں اور پوسٹروں سے سجے ہوئے ہیں۔
شہروں اور دیہاتوں میں جلسوں جلوسوں کا شور و غوغا ہے۔ ہر پارٹی کاامیدوار
پاکستان کےگزشتہ اکہتر سالہ مسائل کو دنوں میں حل کرنے کے ببانگ دہل دعوے
کررہا ہے۔ بہت کم جگہ سابقہ ادوار میں حکومتی مزے لوٹنے والوں سے لو گ
پچھلے سالوں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر لوگ ماضی سے
بے خبر اور مستقبل سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں۔ اپنےاپنے من پسند امیدواروں
کی حمایت میں سر دھڑ کی بازی لگا نے اور سب کچھ قربان کرنےکیلئے تیار نظر
آتے ہیں۔ عام لوگوں کو کسی پارٹی کے منشور سے غرض ہے نہ سابقہ لوٹ مار اور
کرپشن سے۔ شہروں میں کسی حد تک نظریاتی ووٹ کاسٹ ہوتا ہے لیکن دیہی علاقوں
کی اکثریتی آبادی ذاتی مفادات و تعلقات یا برادری ازم کی بنیاد پر ہی کسی
امیدوار کو ووٹ دیتی ہے۔ یہ حقیقت ثابت ہوچکی کہ ووٹ ایک بہت بڑی طاقت ہے۔
اس حوالے سے ترکی اور ملائشیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ عوام نے ووٹ کے
ذریعے ترکی میں طیب اردوان اور ملائیشیا میں مہاتیر محمد کو منتخب کیا۔ ان
کی فعال قیادت میں ہماری آنکھوں کے سامنے انممالک نے معاشی استحکام اور
عالمی برادری میں عزت و وقار پایا۔ قرضوں کے بوجھ سے نجات ملی اور لوگوں کا
معیار زندگی بہتر ہوا۔ ملک نے ترقی کی اور برآمدات کا حجم بڑھا۔ پاکستان
میں قدرتی وسائل دنیا کے کسی بھی ملک سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ خام مال اور زرعی
اجناس میں ہمارا ملک خود کفیل ہے۔ لوگ محنتی اور جفا کش ہیں۔ نوجوانوں میں
بے بہا ٹیلنٹ موجود ہے۔ ضرورت محب وطن، اہل، مخلص اور دیانت دار قیادت کی
ہے۔ پاکستان میں قیام کے دوران ہم نے (رجسٹرڈ چیرٹی) "قبا ٹرسٹ" کے
زیراہتمام رفاعی کاموں کے سلسلے میں وطن عزیز کے مختلف علاقوں میں غریب اور
مستحق خاندانوں میں سامان خورد و نوش کی تقسیم کی۔ ہماری لوکل ٹیم نے پوری
کوشش کی کہ مستحق لوگوں تک یہ امانتیں پہنچیں۔ اس دوران ہمیں عملی طور پر
یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ خصوصا دیہی علاقوں میں غربت و افلاس کا گراف بہت
بڑھ چکا ہے۔ ہر علاقے میں لوگ پریشان حال ہیں۔ معذوروں، یتیموں اور بیواؤں
کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومتوں کے اپنے بڑے بڑے منصوبے اور اللے تللے
اپنی جگہ البتہ عام آدمی تک کسی ترقی کے اثرات دور دور تک نہیں دکھائی دیتے۔
بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ افراط زر کی وجہ سے مہنگائی بہت بڑھ چکی
ہے۔ خوراک، علاج معالجے، رہائش اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات کے حوالے سے
لوگ سخت پریشان ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کی اکثر یت کی
شعوری سطح نہایت ہی بھولے پن کا شکار ہے۔ سیاسی شعبدہ بازوں سے ہر مرتبہ
فریب کھا کر بھی ہماری حالت میر تقی میر کے اس شعر کی مصداق ہے کہ
میرکیا سادہ ہے بیمار ہوئے جس کے سبب
اسے عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
لہٰذا ووٹر حضرات کو چاہئے کہ اپنا بیش قیمت ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے اپنے
ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی حیثیت کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔
ووٹ کسی کے متعلقہ منصب کیلئے اہل ہونے کی گواہی ہے۔ خود غرضی ، قرابت داری
یا کسی کی غنڈہ گردی کے خوف سے جھوٹی شہادت جیسے حرام اور کبیرہ گناہ کا
ارتکاب نہ کریں ۔ یہ انتخابی عمل محض سیاسی ہار،جیت اور دنیاداری کا ہی
کھیل نہیں ہے بلکہ اک طرف اس سے ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل
وابستہ ہے تو دوسری طرف جیتنے والے امیدوار کے ہر اچھے برے کام کے اجر یا
گناہ میں ووٹرز بھی برابر کے شریک ہوں گے کیونکہ اس مقام پر اسے ان کے ووٹ
نے ہی پہنچایا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ امیدوار خواہ کیسا ہی نااہل ، بددیانت ،مفادپرست
اور قومی خزانے سے اپنی تجوریاں بھرنے والا کیوں نہ ہو، مستقبل کی فکر کیے
بغیر ہماری قوم نے پھر اسی کے دام فریب میں آنا ہے۔ چاہئے تو یہ کہ ہر
ووٹر گزشتہ برسوں میں اپنی محرومیوں کا جائزہ لے، معاشی، سماجی اور مذہبی
مشکلات اور الجھنوں پر نظر ڈالے اور انتخاب والے دن دھوکے باز اور بد دیانت
نمائندوں کو ووٹ کے ذریعے مسترد کردے۔ پاکستانی عوام باشعور ہو کر اپنا
کردار ادا کرے، کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بجائے اپنے ووٹ کا صحیح
استعمال کرے تو یقینی طور پر حالات بدلیں گے، بس تھوڑا خود کو بدلنے کی
ضرورت ہے۔عام طور پر جہالت و نادانی اور ووٹ کی طاقت واہمیت سے لاعلمی کی
بناء پر ایسے لوگوں کو منتخب کردیتے ہیں جو کسی بھی طرح اس کے اہل نہیں
ہوتے۔ یا ایسی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کا مشن کی لوٹ مار ہے۔ نتیجتًا
اس کا خمیازہ اگلے پانچ سالوں تک بھگتتے رہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ
ووٹ کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہمارے اپنے پاس ہے۔ اس میں
شک نہیں کہ نظام میں خرابیاں اور کمزوریاں موجود ہیں لیکن فقط نظام کو گالی
گلوچ کرنے اور برا بھلا کہنے سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ عملی طور پر اہل
لوگوں کے ہاتھوں میں قوت نافذہ دے کر ہی تبدیلی کے خواب کو شرمندہ تعبیر
کیا جا سکتا ہے۔ 1973 کے آئین میں منتخب کیے جانے والے امیدواروں کی صداقت
و امانت کا معیار مقرر ہے۔ دستور کی رو سے اسلامی تعلیمات کے خلاف کسی طرح
کی قانون سازی بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نظام تو موجود ہے
جس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن کی رو سےاللہ کریم
بھی ان قوموں کے حالات نہیں بدلتا جب تک کہ اپنی حالت بدلنے کیلئے خود
کوشاں نہیں ہوتیں۔
خِدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ووٹ کا غلط استعمال کرکے پانچ سالوں تک کرپٹ لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کرنا
اور پھر محرومیوں کے ازالے کیلئے دعائیں کرتے رہنا بھی عجیب سا لگتا ہے۔ اب
وقت ہے اپنے مستقبل کا بہتر فیصلہ کرنے کا۔ ووٹ کس کو دیں؟ یہ تو آپ کی
اپنی ذاتی خفیہ رائے ہے جس کو مرضی ہے دیں۔ہم کون ہوتے ہیں آپ کو کوئی
مشورہ دینے والے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ انتخابات میں ووٹ کا صحیح
استعمال کر کے ہم اپنی سالہا سال کی بے بسیوں اور محرومیوں کا انتقام لے کر
ان کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح الیکشن کا دن قوم کیلئے "یوم انتخاب" کے
ساتھ ساتھ "یوم انتقام" بھی ہے۔
|