متحدہ مجلس عمل نے۱۴؍ جولائی شام ۶؍ بجے راولپنڈی کے
تاریخی مقام لیاقت باغ میں اپنے مرکزی انتخابی جلسہ کا انعقاد کیا۔ جلسہ کو
کامیاب کرنے کے لیے درجنوں کمیٹیاں بنائی گئیں تھیں۔ دوسری کمیٹیوں کی حس
کارکردگی کے ساتھ ساتھ، میڈیا کمیٹی اور تیزئین و آرئش کمیٹی کی کار کردگی
نمایاں نظر آئی۔ موسم بھی خوشگوار ہو گیا اور ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں تھیں
جس سے حاضرین نے آرام سے بٹیھ بیٹھ کرجلسہ کی کاروائی سنی۔مرکزی قائدین کے
خطاب ۱۲؍ بجتے تک جاری رہا۔ سراج الحق دیر اور مولانا فضل الرحمان
شایدملتان کے جلسوں اور ریلوں سے خطاب کے بعد جلسہ گاہ تشریف لائے۔ جلسہ
میں ہی خبر آئی تھی کہ دیر میں سراج الحق کی ریلی پر عوامی نیشنل پارٹی کے
لیڈر کے حجرے سے فائرنگ کی گئی۔جس میں سراج الحق کی گاڑی کو بھی نقصان
پہنچا۔ مقامی مقررین کے ساتھ ساتھ اس جلسہ میں متحدہ مجلس عمل کے مرکزی صدر
جناب مولانا فضل الرحمان صاحب، نائب صدر سراج الحق صاحب، اویس نورانی صاحب
، فقہ جعفریہ اور اہل حدیث کی قیادت نے شرکت کی۔ جلسہ کا آغاز ٹھیک ۷؍ بجے
قرآن شریف کی تلاوت اور نعت رسولؐ مقبول سے شروع ہوا۔ پہلے صوبائی اور قومی
اسمبلیوں کے امیدواروں ، علماء اور مشائخ حضرات کوایک کے بعد ایک کی دعوت
دی گئی۔ ان حضرات نے اپنے اپنے قومی اورصوبائی حلقوں میں جاری اپنی انتخابی
مہم اور مسائل بیان کیے۔علماء اور مشائخ نے پاکستان کی بنیاد اسلامی نظام
نہ رائج کرنے کی ذمہ داری سابقہ حکومتی صاحب اقتدار پر ڈالی۔ پاکستان کی
ساری خرابیوں کی جڑ اس کے بانی حضرت قائد اعظم ؒ کے وژن ،پاکستان کا مطلب
کیا لا الہ الاﷲ کے بنیادی نظریہ سے انحراف قرار دیا۔
فقہ جعفریہ کے نمائندہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان بھی مسلمانوں کے
سارے فرقوں کے اتحاد کی وجہ سے بنا تھا۔ تحریک پاکستان میں نہ کوئی شعیہ
تھا،نہ سنی تھا،نہ بریلوی تھا اور نہ اہل حدیث تھا۔ سب نے اپنے اپنے مسلکوں
کو ایک طرف رکھ کر اسلام کے آفاقی پیغام اسلام کی بات کی تو اﷲ تعالیٰ نے
مثل مدینہ ریاست پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں کو پیش کر دی۔ ان ۷۰؍ سال سے
ہم پھرصراط مستقیم سے ہٹ گئے ۔تو ملک میں لاالہ الاﷲ کا بارکت اسلامی نظام
قائم نہ ہو سکا۔طبہ آزماء سیاستدانوں نے اس ملک کی میں سیکولر،لبرازم اور
قومیتوں کی طرف موڑ دیا۔ پاکستان کی خرابیوں کی ہی جڑہے۔ جب ۲۰۰۲ء متحدہ
مجلس عمل بنی تو اﷲ نے کامیابی دی۔ پاکستان کے دو صوبوں میں متحدہ مجلس عمل
کی حکومتیں قائم ہوئیں۔اب پھرتمام مسلکوں نے یک جان ہو کر متحدہ مجلس عمل
بنائی ہے۔ ہم عوام سے درخواست کرتے ہیں متحدہ مجلس عمل کو ۲۵؍ جولائی کے دن
کامیاب کریں تاکہ پھر سے پارلیمنٹ میں داڑھی اور پگڑیاں نظر آئیں۔ اسلام
نظامِ حکومت قائم ہو۔
اہل حدیث کے نمائندے نے تقریر کرتے ہوئے اتحاد واتفاق پر زور دیا۔ انہوں نے
کہا سیکولر اور لبرل مسلمانوں کے اندر شعیہ سنی اور مسلکوں کا پروپیگنڈ اکر
کے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوششیں کرتے رہیں ہیں۔ ہمارے اکابرین نے ان کی
سازش کو ناکام کیا اورمتحدہ مجلس عمل بنائی ۔اس کے اﷲ اکبر کے جھنڈے تلے
سارے مسلک کے لوگ یک جان ہو کر ۲۵؍ جولائی کو کتاب پر ٹھپے لگا کر متحدہ
مجلس عمل کے قومی اور صوبائی امیدواروں کو کامیاب کریں گے۔ اس طرح اسلام کا
نظام حکومت قائم ہو گا۔پاکستان کے سارے مسائل کا حل اسلام میں ہے۔
جمیعت علمائے پاکستان کے علامہ اویس احمد نورانی نے اپنے خطاب میں فرمایا
کہ ۷۰؍ سال سے قوم کو دھوکا میں رکھا گیا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا
تھا۔ مطلب پرستی اور ذاتی مفادات کے وجہ سے سیاستدانوں اور مقتدر حلقوں نے
پاکستان میں بانی پاکستان کے بنیادی وژن دو قومی نظریہ اور ں طریہ پاکستان
پر عمل نہیں کیا۔ ہمارے اسلاف نے پہلے آئین میں قراداد مقاصد اور پھر ۱۹۷۴ء
کا اسلامی آئین بنایا۔ اسلامی آئین پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔ ملک میں
مختلف ازموں کے تجربے کیے جاتے رہے۔کسی نے اسلامی سوشلزم اور کسی نے روشن
خیال پاکستان کے نام پر عوام میں مغربی طرز زندگی اور نظام معیشت مسلط کر
رکھا ہے۔نگران حکومت نے کہا ہوا ہے کہ قومی سیٹ پر ۳۰؍ لاکھ خرچ کیا جاسکتا
ہے۔ مگر میں ٹی وی میں دیکھتا تو نید حرام ہو جاتی ہے کہ کس طرح عوام کے
پیسے کو خرچ کیاجا رہا ہے۔ ساری پارٹیوں کے الیکٹرونک میڈیا پرعربوں کے
اشتہار دیے جارہے ہیں۔ سندھ کی ایک قومی اسمبلی کا ٹکٹ پارٹی نے دس کروڑ
میں ایک شخص کو فروخت کیا۔ اس کا سیٹنگ کانڈیڈیٹ کو معلوم ہوا تو پارٹی ہیڈ
کے پاس جا کر اسی سیٹ کے ۲۵ ؍کروڑ پیش کر دیے۔ پارٹی نے دس کروڑ والے سے
ٹکٹ واپس لے کر اس کے پیسے واپس کر دیے۔ ۱۰؍ کروڑ والا اسلام آباد آیا اور
مخالف پارٹی سے ۵؍ کروڑ میں ٹکٹ کر اب الیکشن لڑ رہا ہے۔ اب عوام خود ہی
فیصلہ کریں کہ عوام کے پیسے کو اس طرح خرچ کرنے والے امیدوار عوام کی کیا
خدمت کریں گے۔ بے حیائی پھیلانے والوں نے قوم کے بیٹیوں کو ناچ گانے پرلگا
دیا گیا۔متحدہ مجلس عمل اقتدار میں آکر اس لوٹ مار کو ختم کرے گی ۔عوام کی
جان مال عزت کی حفاظت کریں گے۔
جب سراج الحق کو تقریر کے لیے بلایا گیا تو اس سے قبل مشہور ترانہ’’ سراج
الحق ہمارا‘‘ بجایا گیا۔ اسٹیج سے ان کے حق میں نعرے سے جلسہ کی فضاجذباتی
ہو گئی۔ جلسہ میں حاضرین نے گھڑے ہو کر ان کااستقبال کیا۔ انہوں نے اپنے
خطاب میں کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ پر کلمہ لکھا ہوا ہے مگر اس میں لیڈر
چور اور ڈاکوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس لوگوں نے جھنڈے اور پارٹیاں تبدیل کر کے
ملک کے غریب عوام کو بے روزگاری،مہنگائی، کرپشن، لوٹ مار اور بدامنی میں
دکھیل دیا ہے۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل کے کسی بھی لیڈر کا نام پاناما میں
نہیں۔ کسی پر کرپشن کا مقدمہ نہیں اور کسی نے قرضے معاف نہیں کرائے۔ ہم نے
دیانتدار قیادت عوام کے سامنے پیش کر دی ہے۔ اب عوام کا کام ہے جن سانپوں
کو دودھ پلا پلا کر ۷۰ ؍سال میں اژدھا بنا دیا ہے اب ان سے چھٹکارا پائیں۔
متحدہ مجلس عمل کی دیانت دار قیادت کو ۲۵؍ جولائی کو منتخب کریں۔ ٹھپہ پر
ٹھپہ لگائیں۔ اس سے ملک میں خوشحالی آئے گی۔ ملک میں اسلام کا بابرکت نظام
حکومت قائم ہو گا۔ سراج الحق نے کہا کہ قوم کو حقیقی عید اس دن نصیب ہو گی
جس جب ملک میں حقیقی جمہوری قیادت سامنے آئے گی۔
متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل ارحمان صاحب کو جلسہ گاہ میں پرجوش
طریقے سے استقبال کیا گیا۔کتاب کا مشہور ترانہ بجایا گیا۔ انہوں نے اپنی
آخر میں اپنے کلیدی خطاب میں حاضرین سے خطاب میں فرمایا کہ ۷۰؍ سال سے
ناکامیاب پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو غرق کر دیا گیا ہے۔ پڑوسی ملکوں سے
تعلوقات ٹھیک نہیں۔خارجہ پالیسی آزاد نہیں۔معیشت ورلڈبنک اور مالیایاتی
اداروں سے قرض لے لیکران کا غلام بنا دیا گیا۔ سوداد کرنے کے لیے نئے قرضے
لینے پڑتے ہیں۔ پاکستان پانی کے مسئلہ بین الاقوامی اداروں میں میں مقدمے
ہا ر چکے ہیں۔ ۷۰؍ سال سے ملک پر مسلط کرپٹ لوگوں نے ملک کو کنگال کر دیا
ہے۔انہوں نے کہا متحدہ مجلس عمل کامیاب ہو کر ملک کو ورلڈ بنک کے قرضوں سے
نجات دلائے گی۔ متحدہ مجلس عمل کے کارکن ایک ایک گھر یہ پیغام لے کر جائیں۔
کرپٹ لوگوں کی جگہ جیل ہے اور ایمان دارلوگوں کی جگہ پارلیمنٹ ہے۔ہم ایمان
دار قیادت سامنے لے آئے ہیں۔ عوام ان کو ۲۵؍ جولائی کو منتخب کریں۔ تحریک
انصاف پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہ کہ بے حیائی کا کلچر عام کیا گیا۔
قوم کی بچیوں کا ناچ گھانے پر لگا دیا گیا۔عورتوں کے حقوق پر مغربی کلچر
متعارف کرایا گیا۔ اس کو ختم کر کے اسلام کے دیے ہوئے عورتوں کے حقوق دیے
جائیں گے۔ ملک میں اسلام نظام ِحکومت نافذ کریں گے۔ ہر طبقہ کو انصاف ملے۔
ملک ترقی کے سفر پر گامزن ہو گا۔رات گئے جاری رہنے کے بعد دعاء پر جلسہ ختم
ہوا۔ |